تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ کووڈ 19 کے نتیجے میں خواتین کے مقابلے میں مردوں کی موت کا امکان لگ بھگ 1.4 گنا زیادہ ہوتا ہے، تاہم بیماری کے شکار ہونے کا امکان دونوں میں یکساں ہوتا ہے۔
تحقیق کے دوران 46 ممالک اور 44 امریکی یاستوں کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا، جس میں 15 لاکھ 70 ہزار خواتین اور 15 لاکھ 30 ہزار مرد مریض شامل تھے۔
محققین نے دریافت کیا کہ ان میں سے 12 ہزار سے زائد کووڈ مریضوں کو آئی سی یو میں داخل کیا گیا، جن میں 8 ہزار مرد اور 4 ہزار خواتین شامل تھیں۔
تحقیق کے دورانیے میں کووڈ 19 سے 2 لاکھ ہلاکتیں ہوئیں جن میں ایک لاکھ 20 ہزار مرد اور 90 ہزار خواتین تھیں۔
طبی جریدے جرنل نیچر کمیونیکشن میں شائع تحقیق میں مردوں اور خواتین میں بیماری کے اثرات کی شدت کی وجوہات کا جائزہ نہیں لیا گیا تھا۔
تاہم برطانیہ کی لندن کالج یونیورسٹی اور جنوبی افریقہ کی کیپ ٹاؤن یونیورسٹی کے محققین کے خیال میں اس کی وجہ رویے یا سماجی معاشی حیثیت کی بجائے جسمانی فرق ہوسکتی ہے۔
مردوں اور خواتین کے مدافعتی نظام یکساں طریقے سے کام نہیں کرتے اور محققین کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ مخصوص حیاتیاتی عناصر کا تعین کیا جاسکے۔
انہوں نے کہا 'مردوں اور خواتین کے مدافعتی نظاموں کے ہر پہلو میں فرق ہوتا ہے، یعنی وائرل انفیکشن کے خلاف ابتدائی مدافعتی ردعمل، ٹی سیلز، بی سیلز اور مدافعتی یاداشت کا ردمل وغیرہ۔
انہوں نے مزید بتایا کہ دونوں جنسوں کے مدافعتی نظام میں فرق کی متعدد وجوہات ہوتی ہیں، جیسے خواتین میں 2 ایکس کروموسومز ہوتے ہیں جبکہ مردوں میں ایک، ایکس کروموسومز ایسے جینز سے بھرپور ہوتے ہیں جو مدافعتی ردعمل کو مدد فراہم کرتے ہیں۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ 19 کی شرح مردوں اور خواتین میں لگ بھگ یکساں ہی ہوتی ہے تو ذاتی رویے جیسے مردوں کا ہاتھ کم دھونا اور ہجوم میں زیادہ جانے جیسی وجوہات مرض کی شدت کے حوالے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں۔
محققین کے مطابق مردوں میں مختلف امراض کی شرح زیادہ ہوتی ہے اور اس سے بھی ان کے لیے خطرہ بڑھتا ہے، تاہم اس حوالے سے ابھی مناسب ڈیٹا موجود نہیں۔
نومبر میں ایک تحقیق میں اس حوالے سے بتایا گیا تھا کہ خواتین میں پائے جانے والے تولیدی ہارمونز ایسٹروجن اور پروجسٹرون کووڈ 19 کے خلاف تحفظ فراہم کرنے کا کردار ادا کرتے ہیں، جس کی وجہ ان کی ورم کش خصوصیات اور مدافعتی نظام پر مثبت اثرات مرتب کرنا ہے۔
طبی جریدے جرنل ٹرینڈز اینڈ اینڈوکرینولوجی اینڈ میٹابولزم میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ اس سے ممکنہ وضاحت ہوتی ہے کہ مرد کووڈ 19 سے خواتین سے زیادہ متاثر کیوں ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ دیگر بیماریوں کے مقابلے میں کورونا سے حاملہ خواتین میں ہلاکت کا امکان بہت کم ہوتا ہے۔
امریکا کی الینواس یونیورسٹی کی اس تحقیق میں اس بات پر توجہ مرکوز کی گی کہ بڑی تعداد میں حاملہ خواتین میں کووڈ 19 کی علامات حمل کے دوران ظاہر نہیں ہوئیں، مگر بچے کی پیدائش کے بعد اچانک بدترین علامات نمودار ہوئیں۔
زچگی کے بعد خواتین میں مخصوص ہارمونز کی سطح میں نمایاں کمی آتی ہے جو ان علامات کے نمودار ہونے کا باعث بنتی ہیں۔
محققین کا کہنا تھا کہ حمل کو مستحکم رکھنے والے ہارمونز جیسے پروجسٹرون حمل کی تیسری سہ ماہی کے دوران سوگنا زیادہ ہوتے ہیں، یہ سب ہارمونز ورم کش افعال کے حامل ہوتے ہیں اور مدافعتی نظام پر اثرات مرتب کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس سے عندیہ ملتا ہے کہ حاملہ خواتین کو بچے کی پیدائش کے بعد زیادہ سنگین بیماری کا سامنا ہوتا ہے کیونکہ ان ہارمونز کی سطح میں ڈرامائی کمی آتی ہے۔
تحقیق میں خیال ظاہر کیا گیا کہ خواتین کے مخصوص ہارمونز کووڈ 19 کی سنگین شدت کو ٹالنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔
اس تحقیق میں ان شواہد پر روشنی ڈالی گی جن سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ہارمونز وائرس سے متاثر ہونے پر پھیپھڑوں کے خلیاتا کی مرمت کا عمل تیز کرتے ہیں اور وائرس کو خلیات میں داخل ہونے میں مدد دینے والے ایس ٹو ریسیپٹر کو بھی روکتے ہیں۔
تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ یہ ہارمونز ممکنہ طور پر مدافعتی نظام کے شدید ردعمل کی روک تھام میں بھی مدد فراہم کرتے ہیں۔
اس سے قبل اگست میں امریکا کی یالے یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ خواتین کے جسم مردوں کے مقابلے میں زیادہ مضبوط مدافعتی ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔
طبی جریدے جرنل نیچر میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ معمر خواتین بھی مردوں کے مقابلے میں زیادہ ٹی سیلز تیار کرتی ہیں جو وائرس کو پھیلنے سے روکتے ہیں۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ 19 سے بیمار خواتین میں مرد مریضوں کے مقابلے میں ٹی سیلز کی سرگرمیاں نمایاں حد تک زیادہ ہوتی ہیں، اور یہ سرگرمیاں زیادہ عمر والی خواتین میں بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔