سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران وکیل کے کراچی میں دفتر سے بیٹھ کر دلائل
اسلام آباد: ٹیکنالوجی کی دنیا میں ایک اور قدم اٹھاتے ہوئے سپریم کورٹ نے کورونا وائرس کی وبا کے تناظر میں ایک سینئر وکیل کو کراچی سے اپنے دفتر سے ہی آرام سے دلائل دینے اور اس کے موکل کے کیس کی سماعت کی اجازت دے دی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق شاہین ایئر سروسز کی جانب سے اپنے وکیل خالد انور کے ذریعے شروع کی جانے والی نظرثانی درخواست میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس مشیر عالم نے ریمارکس دیے کہ ’ہم نے کووڈ 19 وبا کے باعث لاحق خطرات سے نمٹنے کے لیے اس (طریقہ کار) کو حل کے طور پر وضع کیا ہے‘۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے گزشتہ ہفتے وکیل کو کیس میں اس وقت کراچی سے دلائل دینے کی اجازت دی تھی جب ان کے معاون نے بینچ کو بتایا تھا کہ ملک میں عالمی وبا کی صورتحال کے تناظر میں ڈاکٹروں نے خالد انور کو عدالتوں میں پیش نہ ہونے، یہاں تک کہ کراچی بینچ رجسٹری میں بھی نہ جانے کی تجویز دی ہے‘۔
مزید پڑھیں: پاکستان ویڈیو لنک کے ذریعے عدالتی کارروائی کرنے والا دنیا کا پہلا ملک
بینچ نے حکم دیا تھا کہ سندھ ہائیکورٹ کا ٹیکنیکل اسٹاف اس سلسلے میں انتظام کرے تاکہ وکیل اپنے دفتر سے ویڈیو لنک کے ذریعے دلائل دے سکے۔
جب کیس کی سماعت ہوئی تو خالد انور نے سپریم کورٹ کے اٹھائے گئے قدم کی تعریف کی اور اسے ملک کی عدالتی تاریخ میں ایک تاریخی لمحہ قرار دیا۔
یاد رہے کہ گزشتہ سال 27 مئی کو سپریم کورٹ نے انصاف کی فراہمی کے لیے جدید ٹینکالوجی کو فروغ دینے کے خواب کو حقیقت بنانے کے لیے ای کورٹ نظام کے ذریعے مقدمات کی سماعت شروع کی تھی۔
اس روز سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اسلام آباد میں پرنسپل سیٹ پر ایک بینچ کی سربراہی کی تھی اور سپریم کورٹ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کراچی رجسٹری سے ویڈیو لنک کے ذریعے 4 مقدمات کا فیصلہ کیا تھا، جو زیادہ تر ضمانتوں سے متعلق تھے۔
اس وقت چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے یہ دیکھا تھا کہ عدالت نے ای کورٹ نظام کے تحت 20 سے 25 لاکھ روپے کی صرف ایک دن میں بچت کی جو دوسری میں سائلین کو برداشت کرنا پڑتے تھے۔
انہوں نے کہا تھا کہ یہ سہولت وکلا اور سائلین کو مدد دے گی اور وقت اور پیسے بچائے گی، ساتھ ہی انہوں نے اس منصوبے کو کامیاب بنانے میں کوششوں پر جسٹس مشیر عالم، جسٹس سید منصور علی شاہ اور دیگر اسٹیک ہولڈرز پر مشتمل عدالت عظمیٰ کی آئی ٹی کمیٹی کی تعریف کی تھی۔
رواں سال مئی میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھارتی جاسوس کلبھوشن کی نمائندی کے لیے ریاستی وکیل مقرر کرنے کی اجازت دینے سے متعلق وزارت قانون کی درخواست کی سماعت کی تھی، تاہم عالمی وبا کے باعث اس سماعت میں جسٹس میاں گل اورنگزیب نے گھر سے شرکت کی تھی۔
اس سے قبل جون میں ہائی کورٹ پہلے ہی وکیل کو اپنے موکلین کے کیسز میں گھر سے دلائل اور کچھ وکلا کو بیرون ملک سے مقدمات میں دلائل کی اجازت دی تھی۔
پیر کو جسٹس مشیر عالم نے یہ آبزرو کیا کہ عدالت امید کرتی ہے کہ بار کونسلز اور ایسوسی ایشنز تکنیکی کامیابیوں سے فائدہ اٹھانے کے قدم کی حمایت اور معاونت کرے گی۔
دوران سماعت ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل برائے پنجاب چوہدری فیصل حسین جو کمرہ عدالت میں موجود تھے، انہوں نے اس قدم کو سراہا اور اسے بڑی پیش رفت اور بہت حیرت انگریز قرار دیا۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کی کوئٹہ رجسٹری سے ویڈیو لنک کے ذریعے پہلی سماعت
انہوں نے کہا کہ ایک نوجوان نسل کا نمائندہ ہونے کے ناطے میں اس قدم کی بہت سراہتا ہوں، مزید یہ کہ حقیقتاً ایک اچھی کوشش ہے۔
بعد ازاں ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے فیصل حسین کا کہنا تھا کہ چونکہ یہ پریکٹس دنیا کے مختلف حصوں میں چل رہی ہے تو وکلا کو بھی سائنس کی دنیا میں ترقی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سہولت فراہم کرنی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ’ٹیکنالوجی مستقبل ہے‘ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ یہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت 45 ہزار 959 مقدمات کے بڑے بیک لوک ختم کرنے میں ایک آلہ (ٹول) بن سکتا ہے'۔
یہاں یہ بھی مدنظر رہے کہ اپریل میں کورونا وائرس کی پہلی لہر کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بھی ویڈیو لنک کے ذریعے مقدمات کی سماعت کے لیے ایک طریقہ کار تجویز کیا تھا، انہوں نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ کے ہر کمرہ عدالت کو وائی فائی فراہم کیا جانا چاہیے اور کاز لسٹ کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر سیلولر ڈیوائسز کی تعداد کو بتایا جائے۔
یہ خبر 08 دسمبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔