طبی جریدے پروسیڈنگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز میں شائع تحقیق میں ایک جرمن شہر میں فیس ماسک کی پابندی کے اثرات کا جائزہ لیا گیا۔
نتائج سے معلوم ہوا کہ فیس ماسک کا استعمال لازمی قرار دینے پر اس جرمن شہر میں 20 دن کے اندر نئے کیسز کی شرح میں 45 فیصد تک کمی آئی۔
تحقیق سے ان شواہد کو مزید تقویت ملتی ہے جن کے مطابق فیس ماسک کووڈ 19 کے پھیلاؤ کو روکنے کا سستا اور موثر طریقہ ہے۔
جرمنی کے شہر جینا میں عوامی طور پر دستیاب کیسز کی تعداد کے دستیاب ڈیٹا کو دیکھا گیا، جہاں اپریل کے پہلے ہفتے میں فیس ماسک کا استعمال لازمی قرار دیا گیا۔
محققین نے دریافت کیا کہ اس پابندی کے بعد آنے والے ہفتوں میں نئے کیسز کی تعداد لگ بھگ صفر تک پہنچ گئی اور اس کو دیکھتے ہوئے جرمنی کی تمام ریاستوں میں اپریل کے آخر تک فیس ماسک کا استعمال لازمی کردیا گیا۔
تحقیق میں شامل جوناز گٹنبرگ یونیورسٹی کے پروفیسر کلوس والڈی نے بتایا کہ یہ پہلی تحقیق ہے جس میں آبادی کی سطح پر فیس ماسک کے اثرات کا جائزہ لیا گیا، پہلے طبی مراکز میں اس طرح کے تجربات ہوئے تھے، اور نتائج بہت نمایاں تھے۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ فیس ماسکس کا استعمال لازمی کرنے کے بعد محض 20 دن میں کووڈ 19 کے نئے کیسز کی تعداد میں 15 سے 75 فیصد تک کمی لائی جاسکتی ہے، جس کا انحصار خطے پر ہوگا۔
60 سال سے زائد عمر کے افراد نئے کیسز کی شرح میں کمی سب سے زیادہ نمایاں تھی۔
محققین نے واضح کیا کہ نتاج دیگر خطوں میں مختلف ہوسکتے ہیں جس کی وجہ موسمیاتی حالات اور مقامی قوانین ہوسکتے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ جرمنی میں ہر جگہ ٹیسٹنگ قواننین یکساں تھے تو انہوں نے ٹیسٹنگ میں فرق کے عناصر کی جانچ پڑتال نہیں کی اور نہ ہی فیس ماسک کی اقسام کا جائزہ لیا۔
محققین کے مطابق دیگر ممالک میں اس طرح کی تحقیقی رپورٹس پر کام کرنے سے معلوم ہوسکے گا کہ مختلف حالات میں فیس ماسک کس حد تک کیسز میں کمی لاسکتے ہیں۔
خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے عالمی ادارہ صحت نے کورونا وائرس کی نئی لہر کو دیکھتے ہوئے فیس ماسک کے حوالے سے اپنی سفارشات کو اپ ڈیٹ کیا تھا۔
اس سے قبل عالمی ادارے نے رواں سال جون میں فیس ماسک کے حوالے سے سفارشات جاری کرتے ہوئے حکومتوں پر زور دیا تھا کہ عوامی مقامات کے اندر اور باہر ہر ایک کو فیس ماسک استعمال کرایا جائے، بالخصوص ان حصوں میں جہاں وائرس کا خطرہ زیادہ ہے۔
گزشتہ ہفتے زیادہ تفصیلی سفارشات میں ڈبلیو ایچ او نے کہا تھا کہ جن علاقوں میں یہ وائرس پھیل رہا ہے، وہاں 12 سال یا اس سے زائد عمر کے تمام افراد فیس ماسک کو دکانوں، دفاتر اور تعلیمی اداروں میں ہوا کی نکاسی کا نظام ناقص ہونے کی صورت میں لازمی استعمال کریں۔
سفارشات کے مطابق ایسے مقامات جہاں ہوا کی نکاسی کا نظام اچھا نہیں وہاں گھروں کے اندر بھی مہمانوں کے آنے پر فیس ماسک کا استعمال کیا جائے۔
سفارشات میں کہ گیا کہ باہر اور ہوا کی اچھی نکاسی والے مقامات کے اندر بھی فیس ماسک کو اس وقت لازمی استعمال کیا جائے گا جب کم از کم ایک میٹر تک جسمانی دوری کو برقرار رکھنا ممکن نہ ہو۔
ڈبلیو ایچ او نے بتایا کہ فیس ماسک بیماری کی بجائے وائرس کے پھیلاؤ سے تحفظ فراہم کرتے ہیں اور ان کے ساتھ دیگر احتیاطی تدابیر جیسے ہاتھ دھونے پر بھی عمل کیا جانا چاہیے۔
عالمی ادارے کا کہنا تھا کہ وہ علاقے جہاں کووڈ 19 پھیل رہا ہے، وہاں طبی مراکز میں ہر ایک کو میڈیکل ماسکس کا استعمال کرنا چاہیے۔
اس پابندی کا اطلاق ان مراکز میں آنے والے افراد، معمولی حد تک بیمار، کیفے ٹیریا اور عملے کے کمروں میں بھی ہونا چاہیے۔
عالمی ادارے نے کہا کہ طبی عملے کو کووڈ 19 کے مریضوں کی دیکھ بھال کے دوران ممکن ہو تو این 95 ماسک کا استعمال کرنا چاہیے۔
سفارشات میں مزید کہا گیا کہ سخت جسمانی مشقت کرنے والوں کو فیس ماسک پہننے سے گریز کرنا چاہیے بالخصوص دمہ کے مریضوں کو، کیونکہ ان کو چند خطرات کا سامنا ہوسکتا ہے۔
عالمی ادارے کے مطابق جم میں ہوا کی مناسب نکاسی، جسمانی دوری اور زیادہ چھوئی جانے والی اشیا کی صفائی کا خیال رکھا جانا چاہیے یا عارضی طور پر بند کردینا چاہیے۔
ڈبلیو ایچ او کی سفارشات اس وقت سامنے آئی تھیں جب گزشتہ ماہ امریکا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن (سی ڈی سی) نے فیس ماسک کے حوالے سے اپنی سفارشات کو اپ ڈیٹ کرتے ہوئے کہا تھا کہ کپڑے کے فیس ماسک درحقیقت دوطرفہ تحفظ فراہم کرتے ہیں، یعنی پہننے والے اور اس کے ارگرد موجود افراد دونوں کو۔
امریکی ادارے نے اپنی گائیڈلائنز میں کہا کہ دیگر افراد کے منہ سے خارج ہوکر ہوا میں موجود وائرل ذرات سے کپڑے کے ماسک پہننے والوں کو تحفظ ملتا ہے۔
سی ڈی سی نے کہا کہ متعدد تہیں اور دھاگوں کی زیادہ تعداد والے کپڑے کے ماسک ۔ایک تہہ اور کم دھاگے والے ماسک کووڈ 19 سے زیادہ تحفظ فراہم کرتے ہیں۔