سال 2020 میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات
ریاستی اور غیر ریاستی عناصر کی جانب سے دہشت پھیلانے کی تاریخ 350 قبل مسیح سے بھی ملتی ہے جس کے بارے میں یونانی فلسفی اور مورخ زینوفون نے دشمن کے خلاف نفسیاتی جنگ کے بارے میں بہت کچھ لکھا، 42 قبل مسیح میں رومن شہنشاہوں ٹائمزیوس اور کیلیگولا نے مخالفت کا سر کچلنے کے لیے پابندیاں لگائیں، املاک کی ضبطی اور پھانسی کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔
ریاستی اور غیر ریاستی دہشت گردی مختلف روپ میں سفر کرتی ہوئی جب 20 صدی میں داخل ہوئی تو ٹیکنالوجی اور صنعتی ترقی نے ایسے مزید خوفناک بنادیا، خودکار ہتھیاروں اور ریمورٹ کنٹرول دھماکا خیز مواد کی بدولت (باالفاظ دیگر) دہشت پھیلانا آسان ہوگیا۔
دنیا کے ہر ملک اور گروہ کے نزدیک دہشت گردی کی تعریف مختلف ہوسکتی ہے لیکن جو چیزیں ان میں قدرے مشترک ہیں وہ یہ کہ دہشت گردی دراصل تشدد پرمبنی ایک منصوبہ بندی ہے جس کا مقصد خوف کا ماحول پیدا کرنا ہے تاکہ خاص سیاسی مقاصد کا حصول ممکن ہو، بعض صورتوں میں ریاست کسی ایک قتل کے واقعے کو بھی دہشت گردی کے زمرے میں گردانتی ہیں۔
رواں سال پوری دنیا کورونا کی زد میں رہی، معمولات زندگی متاثر ہوئے اور کاروباری مصروفیات معطل رہی لیکن پرتشدد حملوں کے ذریعے دہشت پھیلانے کا عمل بدستور جاری رہا۔
نائیجیریا میں 9 جنوری کو موٹرسائیکلوں اور کاروں میں سوار عسکریت پسندوں نے ایک فوجی اڈے پر حملہ کیا تھا۔
سرحدی علاقے تلبوری ریجن میں واقع اس فوجی اڈے پر حملے کی ذمہ داری 13 جنوری کو دہشت گرد تنظیم داعش نے قبول کی جس میں تقریباً 100 نائیجیرین فوجی ہلاک ہوئے تھے۔
داعش نے حملے کی تصاویر بھی جاری کیں تھی جبکہ جوابی فرانسیسی فضائی حملوں کے نتیجے میں 77 دہشت گرد بھی ہلاک ہوئے تھے۔
10 جنوری کو پاکستان کے شہر کوئٹہ کے علاقے سیٹلائٹ ٹاؤن کی مسجد و مدرسہ میں دھماکے سے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس (ڈی ایس پی) اور مسجد امام سمیت 15 افراد جاں بحق اور 19 زخمی ہوگئے تھے۔
پولیس کے مطابق دھماکا سیٹلائٹ ٹاؤن کے نواحی علاقے غوث آباد کی ایک مسجد و مدرسہ میں نمازِ مغرب کے دوران ہوا تھا۔
اس کے ساتھ ہی رپورٹس تھیں کہ مذکورہ حملے میں افغان طالبان کے ایک رہنما بھی ہلاک ہوئے ہیں تاہم افغان طالبان کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کوئٹہ کے دھماکے میں طالبان رہنما کے ہلاک ہونے کی تردید کی تھی۔
18 جنوری کو فوجی تربیتی کیمپ کی ایک مسجد کو شام کی نماز کے دوران ڈرون اور میزائلوں سے نشانہ بنایا گیا تھا جب درجنوں افراد نماز کی ادائیگی میں مصروف تھے۔
اس حملے میں 111 یمنی فوجی اور 5 شہری جاں بحق اور 148 زخمی ہوگئے تھے۔
حملے کا الزام حوثیوں پر عائد کیا گیا تھا۔
2 فروری کو لندن کے جنوبی علاقے اسٹریتھم میں ایک شخص نے 3 افراد پر چاقو سے حملہ کیا تھا جس میں ایک شخص شدید زخمی ہوگیا تھا۔
20 سالہ نوجوان سودیش امن نے جعلی خود کش جیکٹ پہنی ہوئی تھی جسے لندن کی مصروف شاہراہ ساؤتھ اسٹریٹ پر 3 افراد کو چاقو سے زخمی کرنے پر پولیس نے گولی مار کر ہلاک کردیا تھا۔
مذکورہ شخص اس سے قبل کیے گئے دہشت گردی کے جرم کی سزا کاٹ کر کچھ عرصہ قبل ہی جیل سے رہا ہوا تھا۔
سودیش امن کو دہشت گردی کے حملے کی منصوبہ بندی کے شبے میں مئی 2018 میں گرفتار کیا گیا تھا، دسمبر 2018 میں اسے مختلف جرائم کی بنا پر 3 سال 4 ماہ کے لیے جیل بھیج دیا گیا تھا۔
فروری میں ہی برکینا فاسو کے صوبہ یاگا میں واقع پانسی گاؤں پر 20 سے 30 بندوق برداروں کے ایک گروپ نے حملہ کیا تھا۔
حملے میں کیٹچسٹ سمیت 24 افراد ہلاک اور 18 زخمی ہوگئے تھے۔
19 فروری کو جرمنی کے شہر ہناؤ میں ایک انتہا پسند نظریات رکھنے والے شخص نے آدھی رات کو دو نائٹ بارز میں حملے کیے تھے۔
اس حملے میں 5 افراد ہلاک ہوئے اور پھر اس شخص نے اپارٹمنٹ میں اپنی والدہ کو قتل کرنے کے بعد خودکشی کرلی تھی۔
پولیس نے بڑے پیمانے پر تفتیش کا آغاز کیا تو معلوم چلا کہ 43 سالہ حملہ آور نے حملے سے قبل اعترافی نوٹ اور ایک ویڈیو میں غیر جرمن لوگوں سے انتہائی نفرت کا اظہار کیا تھا۔
6 مارچ کو کابل میں ہزارہ رہنما عبدالعلی مزاری کی یاد میں منعقدہ تقریب میں مسلح افراد نے حملہ کیا تھا۔
تقریب میں متعدد اعلیٰ سطح کے سیاست دانوں نے شرکت کی تھی جس میں کم از کم 32 افراد ہلاک اور 60 سے زیادہ زخمی ہوگئے تھے۔
پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے 2 حملہ آوروں کو ہلاک کردیا تھا۔
حملے کی ذمہ داری داعش (خراسان) نے قبول کی تھی۔
6 اپریل کو بامبا کے شہر مالی میں موٹر سائیکلوں پر سوار بندوق بردار افراد نے فوجی اڈے پر حملہ کیا تھا۔
اس حملے میں 25 فوجی ہلاک اور 6 زخمی ہوئے جبکہ فوجیوں نے 12 حملہ آوروں کو ہلاک کردیا تھا۔
جماعت النصر الاسلام والمسلمین نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
7 اپریل کو افغانستان کے دارالحکومت کابل میں داعش کے جنگجو نے سکھ گردوارہ پر حملہ کیا تھا۔
حملے کے نتیجے میں 25 عبادت گزار ہلاک اور 8 زخمی ہوگئے تھے۔
مسلح شخص نے کئی عبادت گزاروں کو کئی گھنٹوں تک یرغمال بھی بنائے رکھا جس کے بعد افغانستان کی خصوصی فورسز نے بین الاقوامی افواج کی مدد سے عمارت کو خالی کرایا جس میں کم از کم ایک کم عمر حملہ آور ہلاک ہوگیا تھا۔
حملے کے چند گھنٹوں بعد ہی داعش نے اس کی ذمہ داری قبول کرلی تھی۔
28 اپریل کو جنگ زدہ ملک شام کے شہر آفرین میں مارکیٹ اور سرکاری وزارت کے قریب موجود ایک ایندھن سے بھرا ہوا ٹینکر دستی بم کے نتیجے میں پھٹ گیا تھا۔
دھماکے میں کم از کم 53 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں 11 بچے اور 6 ترکی سے وابستہ جنگجو شامل تھے۔
ترک حکومت نے اس حملے میں وائی پی جی کو مورد الزام ٹھہرایا تھا۔
12 مئی کو افغانستان کے شہر کابل میں ہزارہ کے نواحی علاقے دشت برچی کے ایک ہسپتال کے زچگی وارڈ میں مسلح افراد نے حملہ کر کے دو نوزائیدہ بچوں اور کئی نرسوں سمیت 24 شہریوں کو ہلاک کردیا تھا۔
تینوں حملہ آور 5 گھنٹے تک جاری رہنے والی فائرنگ کے تبادلے کے بعد مارے گئے۔
ان علاقوں میں داعش سرگرم ہے اور اسی گروہ نے حالیہ مہینوں میں کابل میں بھی متعدد حملے کیے تھے۔
29 مئی کو امریکا کے شہر آکلینڈ میں ایک مظاہرے کے قریب نامعلوم مسلح افراد نے فیڈرل پروٹیکٹو سروس کے 2 اہلکاروں پر فائرنگ کی تھی۔
فائرنگ کے نتیجے میں ایک افسر ہلاک اور دوسرا زخمی ہوا گیا تھا۔
ہوم لینڈ سیکیورٹی کے محکمے نے اس حملے کو 'ڈومیسٹک دہشت گردی' کی ایک کارروائی قرار دیا تھا۔
بعد ازاں اس حملے میں دائیں بازو سے منسلک دو مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔
29 جون کو پاکستان کے معاشی حب قرار دیئے جانے والے شہر کراچی میں دہشت گردوں نے دستی بموں اور خودکار رائفلوں کے ساتھ پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی عمارت پر حملہ کیا تھا۔
حملے میں 3 سیکیورٹی گارڈز اور ایک پولیس سب انسپکٹر شہید جبکہ 7 افراد زخمی ہوگئے تھے۔
پولیس کی بروقت کارروائی میں چاروں حملہ آور ہلاک ہوگئے تھے، بعد ازاں بلوچستان لبریشن آرمی نے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
24 اگست کو فلپائن کے شہر جولو میں پیراڈائز فوڈ پلازہ کے باہر ایک فوجی ٹرک کے قریب موٹرسائیکل بم پھٹا تھا جس کے نتیجے میں 6 فوجی، 6 شہری اور ایک پولیس افسر ہلاک ہوگیا تھا۔
اس واقعے کے ایک گھنٹے کے بعد ایک خاتون خودکش بمبار نے فلپائن کے ڈیولپمنٹ بینک کی شاخ کے سامنے خود کو دھماکے سے اڑا دیا تھا، جس میں ایک فوجی ہلاک ہوگیا تھا۔
بم دھماکوں میں مجموعی طور پر 78 افراد زخمی ہوئے تھے تاہم اگلے دن داعش نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
25 ستمبر کو فرانس کے شہر پیرس میں طنزیہ رسالہ چارلی ہیبڈو کے سابق صدر دفاتر کے باہر چھریوں کے وار سے 4 افراد زخمی ہوگئے تھے۔
جس کے بعد پولیس نے 7 افراد کو گرفتار کرکے تحویل میں لیا جبکہ حکام نے اسے دہشت گردی کا واقعہ قرار دیا تھا۔
چارلی ہیبڈو کی جانب سے پیغمبر آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کے گستاخانہ خاکے شائع کیے گئے تھے جس پر پوری دنیا میں مسلمانوں میں غم و غصہ پھیل گیا تھا اور شدید احتجاج ریکارڈ کیا گیا تھا۔
اس واقعے کے کچھ روز بعد ہی فرانس کے ایک اسکول میں ایک استاد نے آزادی اظہار رائے کے سبق کے دوران متنازع فرانسیسی میگزین چارلی ہیبڈو کے 2006 میں شائع کردہ گستاخانہ خاکے دکھائے تھے۔
جس کے چند روز بعد یعنی 16 اکتوبر کو 18 سالہ نوجوان نے مذکورہ استاد کا سر قلم کردیا تھا جسے پولیس نے جائے وقوع پر ہی گولی مار کر قتل کردیا تھا اور اس معاملے کو دہشت گرد تنظیم سے منسلک کیا گیا تھا۔
مذکورہ واقعے کے بعد فرانسیسی صدر نے گستاخانہ خاکے دکھانے والے استاد کو شہری اعزاز سے نوازا تھا جس پر پوری دنیا اور خاص طور پر مسلمان ممالک کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آیا تھا جس میں فرانسیسی سامان کا بائیکاٹ بھی شامل ہے۔
27 اکتوبر کو خیبرپختونخوا کے شہر پشاور کے ایک مدرسے میں تعلیم کے دوران دھماکے سے 8 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔
یہ دھماکا مقامی وقت کے مطابق صبح ساڑھے آٹھ بجے ہوا۔
ابتدائی تحقیقات کے مطابق یہ امپرووائزڈ ایکسپلوزو ڈیوائس (آئی ای ڈی) دھماکا تھا جس میں 5 سے 6 کلو دھماکا خیز مواد استعمال کیا گیا تھا۔
دھماکے میں جاں بحق ہونے والوں میں 4 طالبعلم بھی تھے جن کی عمریں 15 سے 25 سال کے درمیان تھیں۔
فرانس میں مزید حملے
29 اکتوبر کو فرانس کے شہر نائس میں نوٹری ڈیم ڈی نائس پر چھریوں کے وار سے 3 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
بعد ازاں حملہ آور کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا تھا۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون اور نائس کے میئر کرسچن ایسٹروسی اسے بھیایک دہشت گرد حملہ قرار دیا جو انتہا پسندی کی وجہ سے پیش آیا۔
2 نومبر کو کابل یونیورسٹی کے کیمپس میں عسکریت پسندوں نے فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں 19 طلبہ ہلاک اور 22 دیگر زخمی ہوگئے تھے۔
علاوہ ازیں اس حملے کے دوران مسلح افراد کا مقامی سیکیورٹی فورسز کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا تھا جبکہ لڑائی میں 3 دہشت گرد ہلاک ہوگئے تھے۔
داعش (صوبہ خراسان) نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
3 نومبر کو آسٹریا کے دارالحکومت ویانا کے وسطی علاقے میں مسلح افراد نے 6 مختلف مقامات پر فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں ایک خاتون سمیت 4 افراد ہلاک اور 17 زخمی ہوگئے تھے۔
رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ 2 میں سے ایک مسلح حملہ آور کو پولیس نے گولی مار کر ہلاک کردیا تھا جبکہ ایک فرار ہوگیا تھا۔
آسٹرین وزیر داخلہ نے شبہے کا اظہار کیا تھا کہ ایک حملہ آور داعش کا حامی تھا، انہوں نے بتایا تھا کہ حملہ کرنے کا مقصد آسٹریا کے جمہوری معاشرے کو کمزور اور تقسیم کرنا تھا۔
آسٹریا کے چانسلر سباستیان کرس نے اس حملے کو ’نفرت انگیز دہشت گردی‘ قرار دیا تھا۔
نائیجیریا کے شمال مشرق میں کھیت کے مزدوروں پر بوکو حرام کے دہشت گردوں کی جانب سے کیے گئے حملے میں 110 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے رابطہ کار ایڈورڈ کیلن نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس حملے میں 110 شہری بے رحمی سے قتل کر دیے گئے اور متعدد دیگر زخمی ہوئے تھے۔
بوکو حرام کے جنگجوؤں کی جانب سے کیے گئے حملے میں ابتدائی طور پر 43 افراد کی ہلاکت کی اطلاع ملی اور پھر مزید 70 افراد کے قتل کی تصدیق ہوئی تھی۔
نائیجیریا میں 9 جنوری کو موٹرسائیکلوں اور کاروں میں سوار عسکریت پسندوں نے ایک فوجی اڈے پر حملہ کیا تھا۔
سرحدی علاقے تلبوری ریجن میں واقع اس فوجی اڈے پر حملے کی ذمہ داری 13 جنوری کو دہشت گرد تنظیم داعش نے قبول کی جس میں تقریباً 100 نائیجیرین فوجی ہلاک ہوئے تھے۔
داعش نے حملے کی تصاویر بھی جاری کیں تھی جبکہ جوابی فرانسیسی فضائی حملوں کے نتیجے میں 77 دہشت گرد بھی ہلاک ہوئے تھے۔
10 جنوری کو پاکستان کے شہر کوئٹہ کے علاقے سیٹلائٹ ٹاؤن کی مسجد و مدرسہ میں دھماکے سے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس (ڈی ایس پی) اور مسجد امام سمیت 15 افراد جاں بحق اور 19 زخمی ہوگئے تھے۔
پولیس کے مطابق دھماکا سیٹلائٹ ٹاؤن کے نواحی علاقے غوث آباد کی ایک مسجد و مدرسہ میں نمازِ مغرب کے دوران ہوا تھا۔
اس کے ساتھ ہی رپورٹس تھیں کہ مذکورہ حملے میں افغان طالبان کے ایک رہنما بھی ہلاک ہوئے ہیں تاہم افغان طالبان کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کوئٹہ کے دھماکے میں طالبان رہنما کے ہلاک ہونے کی تردید کی تھی۔
18 جنوری کو فوجی تربیتی کیمپ کی ایک مسجد کو شام کی نماز کے دوران ڈرون اور میزائلوں سے نشانہ بنایا گیا تھا جب درجنوں افراد نماز کی ادائیگی میں مصروف تھے۔
اس حملے میں 111 یمنی فوجی اور 5 شہری جاں بحق اور 148 زخمی ہوگئے تھے۔
حملے کا الزام حوثیوں پر عائد کیا گیا تھا۔
2 فروری کو لندن کے جنوبی علاقے اسٹریتھم میں ایک شخص نے 3 افراد پر چاقو سے حملہ کیا تھا جس میں ایک شخص شدید زخمی ہوگیا تھا۔
20 سالہ نوجوان سودیش امن نے جعلی خود کش جیکٹ پہنی ہوئی تھی جسے لندن کی مصروف شاہراہ ساؤتھ اسٹریٹ پر 3 افراد کو چاقو سے زخمی کرنے پر پولیس نے گولی مار کر ہلاک کردیا تھا۔
مذکورہ شخص اس سے قبل کیے گئے دہشت گردی کے جرم کی سزا کاٹ کر کچھ عرصہ قبل ہی جیل سے رہا ہوا تھا۔
سودیش امن کو دہشت گردی کے حملے کی منصوبہ بندی کے شبے میں مئی 2018 میں گرفتار کیا گیا تھا، دسمبر 2018 میں اسے مختلف جرائم کی بنا پر 3 سال 4 ماہ کے لیے جیل بھیج دیا گیا تھا۔
فروری میں ہی برکینا فاسو کے صوبہ یاگا میں واقع پانسی گاؤں پر 20 سے 30 بندوق برداروں کے ایک گروپ نے حملہ کیا تھا۔
حملے میں کیٹچسٹ سمیت 24 افراد ہلاک اور 18 زخمی ہوگئے تھے۔
19 فروری کو جرمنی کے شہر ہناؤ میں ایک انتہا پسند نظریات رکھنے والے شخص نے آدھی رات کو دو نائٹ بارز میں حملے کیے تھے۔
اس حملے میں 5 افراد ہلاک ہوئے اور پھر اس شخص نے اپارٹمنٹ میں اپنی والدہ کو قتل کرنے کے بعد خودکشی کرلی تھی۔
پولیس نے بڑے پیمانے پر تفتیش کا آغاز کیا تو معلوم چلا کہ 43 سالہ حملہ آور نے حملے سے قبل اعترافی نوٹ اور ایک ویڈیو میں غیر جرمن لوگوں سے انتہائی نفرت کا اظہار کیا تھا۔
6 مارچ کو کابل میں ہزارہ رہنما عبدالعلی مزاری کی یاد میں منعقدہ تقریب میں مسلح افراد نے حملہ کیا تھا۔
تقریب میں متعدد اعلیٰ سطح کے سیاست دانوں نے شرکت کی تھی جس میں کم از کم 32 افراد ہلاک اور 60 سے زیادہ زخمی ہوگئے تھے۔
پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے 2 حملہ آوروں کو ہلاک کردیا تھا۔
حملے کی ذمہ داری داعش (خراسان) نے قبول کی تھی۔
6 اپریل کو بامبا کے شہر مالی میں موٹر سائیکلوں پر سوار بندوق بردار افراد نے فوجی اڈے پر حملہ کیا تھا۔
اس حملے میں 25 فوجی ہلاک اور 6 زخمی ہوئے جبکہ فوجیوں نے 12 حملہ آوروں کو ہلاک کردیا تھا۔
جماعت النصر الاسلام والمسلمین نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
7 اپریل کو افغانستان کے دارالحکومت کابل میں داعش کے جنگجو نے سکھ گردوارہ پر حملہ کیا تھا۔
حملے کے نتیجے میں 25 عبادت گزار ہلاک اور 8 زخمی ہوگئے تھے۔
مسلح شخص نے کئی عبادت گزاروں کو کئی گھنٹوں تک یرغمال بھی بنائے رکھا جس کے بعد افغانستان کی خصوصی فورسز نے بین الاقوامی افواج کی مدد سے عمارت کو خالی کرایا جس میں کم از کم ایک کم عمر حملہ آور ہلاک ہوگیا تھا۔
حملے کے چند گھنٹوں بعد ہی داعش نے اس کی ذمہ داری قبول کرلی تھی۔
28 اپریل کو جنگ زدہ ملک شام کے شہر آفرین میں مارکیٹ اور سرکاری وزارت کے قریب موجود ایک ایندھن سے بھرا ہوا ٹینکر دستی بم کے نتیجے میں پھٹ گیا تھا۔
دھماکے میں کم از کم 53 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں 11 بچے اور 6 ترکی سے وابستہ جنگجو شامل تھے۔
ترک حکومت نے اس حملے میں وائی پی جی کو مورد الزام ٹھہرایا تھا۔
12 مئی کو افغانستان کے شہر کابل میں ہزارہ کے نواحی علاقے دشت برچی کے ایک ہسپتال کے زچگی وارڈ میں مسلح افراد نے حملہ کر کے دو نوزائیدہ بچوں اور کئی نرسوں سمیت 24 شہریوں کو ہلاک کردیا تھا۔
تینوں حملہ آور 5 گھنٹے تک جاری رہنے والی فائرنگ کے تبادلے کے بعد مارے گئے۔
ان علاقوں میں داعش سرگرم ہے اور اسی گروہ نے حالیہ مہینوں میں کابل میں بھی متعدد حملے کیے تھے۔
29 مئی کو امریکا کے شہر آکلینڈ میں ایک مظاہرے کے قریب نامعلوم مسلح افراد نے فیڈرل پروٹیکٹو سروس کے 2 اہلکاروں پر فائرنگ کی تھی۔
فائرنگ کے نتیجے میں ایک افسر ہلاک اور دوسرا زخمی ہوا گیا تھا۔
ہوم لینڈ سیکیورٹی کے محکمے نے اس حملے کو 'ڈومیسٹک دہشت گردی' کی ایک کارروائی قرار دیا تھا۔
بعد ازاں اس حملے میں دائیں بازو سے منسلک دو مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔
29 جون کو پاکستان کے معاشی حب قرار دیئے جانے والے شہر کراچی میں دہشت گردوں نے دستی بموں اور خودکار رائفلوں کے ساتھ پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی عمارت پر حملہ کیا تھا۔
حملے میں 3 سیکیورٹی گارڈز اور ایک پولیس سب انسپکٹر شہید جبکہ 7 افراد زخمی ہوگئے تھے۔
پولیس کی بروقت کارروائی میں چاروں حملہ آور ہلاک ہوگئے تھے، بعد ازاں بلوچستان لبریشن آرمی نے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
24 اگست کو فلپائن کے شہر جولو میں پیراڈائز فوڈ پلازہ کے باہر ایک فوجی ٹرک کے قریب موٹرسائیکل بم پھٹا تھا جس کے نتیجے میں 6 فوجی، 6 شہری اور ایک پولیس افسر ہلاک ہوگیا تھا۔
اس واقعے کے ایک گھنٹے کے بعد ایک خاتون خودکش بمبار نے فلپائن کے ڈیولپمنٹ بینک کی شاخ کے سامنے خود کو دھماکے سے اڑا دیا تھا، جس میں ایک فوجی ہلاک ہوگیا تھا۔
بم دھماکوں میں مجموعی طور پر 78 افراد زخمی ہوئے تھے تاہم اگلے دن داعش نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
25 ستمبر کو فرانس کے شہر پیرس میں طنزیہ رسالہ چارلی ہیبڈو کے سابق صدر دفاتر کے باہر چھریوں کے وار سے 4 افراد زخمی ہوگئے تھے۔
جس کے بعد پولیس نے 7 افراد کو گرفتار کرکے تحویل میں لیا جبکہ حکام نے اسے دہشت گردی کا واقعہ قرار دیا تھا۔
چارلی ہیبڈو کی جانب سے پیغمبر آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کے گستاخانہ خاکے شائع کیے گئے تھے جس پر پوری دنیا میں مسلمانوں میں غم و غصہ پھیل گیا تھا اور شدید احتجاج ریکارڈ کیا گیا تھا۔
اس واقعے کے کچھ روز بعد ہی فرانس کے ایک اسکول میں ایک استاد نے آزادی اظہار رائے کے سبق کے دوران متنازع فرانسیسی میگزین چارلی ہیبڈو کے 2006 میں شائع کردہ گستاخانہ خاکے دکھائے تھے۔
جس کے چند روز بعد یعنی 16 اکتوبر کو 18 سالہ نوجوان نے مذکورہ استاد کا سر قلم کردیا تھا جسے پولیس نے جائے وقوع پر ہی گولی مار کر قتل کردیا تھا اور اس معاملے کو دہشت گرد تنظیم سے منسلک کیا گیا تھا۔
مذکورہ واقعے کے بعد فرانسیسی صدر نے گستاخانہ خاکے دکھانے والے استاد کو شہری اعزاز سے نوازا تھا جس پر پوری دنیا اور خاص طور پر مسلمان ممالک کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آیا تھا جس میں فرانسیسی سامان کا بائیکاٹ بھی شامل ہے۔
27 اکتوبر کو خیبرپختونخوا کے شہر پشاور کے ایک مدرسے میں تعلیم کے دوران دھماکے سے 8 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔
یہ دھماکا مقامی وقت کے مطابق صبح ساڑھے آٹھ بجے ہوا۔
ابتدائی تحقیقات کے مطابق یہ امپرووائزڈ ایکسپلوزو ڈیوائس (آئی ای ڈی) دھماکا تھا جس میں 5 سے 6 کلو دھماکا خیز مواد استعمال کیا گیا تھا۔
دھماکے میں جاں بحق ہونے والوں میں 4 طالبعلم بھی تھے جن کی عمریں 15 سے 25 سال کے درمیان تھیں۔
فرانس میں مزید حملے
29 اکتوبر کو فرانس کے شہر نائس میں نوٹری ڈیم ڈی نائس پر چھریوں کے وار سے 3 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
بعد ازاں حملہ آور کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا تھا۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون اور نائس کے میئر کرسچن ایسٹروسی اسے بھیایک دہشت گرد حملہ قرار دیا جو انتہا پسندی کی وجہ سے پیش آیا۔
2 نومبر کو کابل یونیورسٹی کے کیمپس میں عسکریت پسندوں نے فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں 19 طلبہ ہلاک اور 22 دیگر زخمی ہوگئے تھے۔
علاوہ ازیں اس حملے کے دوران مسلح افراد کا مقامی سیکیورٹی فورسز کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا تھا جبکہ لڑائی میں 3 دہشت گرد ہلاک ہوگئے تھے۔
داعش (صوبہ خراسان) نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
3 نومبر کو آسٹریا کے دارالحکومت ویانا کے وسطی علاقے میں مسلح افراد نے 6 مختلف مقامات پر فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں ایک خاتون سمیت 4 افراد ہلاک اور 17 زخمی ہوگئے تھے۔
رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ 2 میں سے ایک مسلح حملہ آور کو پولیس نے گولی مار کر ہلاک کردیا تھا جبکہ ایک فرار ہوگیا تھا۔
آسٹرین وزیر داخلہ نے شبہے کا اظہار کیا تھا کہ ایک حملہ آور داعش کا حامی تھا، انہوں نے بتایا تھا کہ حملہ کرنے کا مقصد آسٹریا کے جمہوری معاشرے کو کمزور اور تقسیم کرنا تھا۔
آسٹریا کے چانسلر سباستیان کرس نے اس حملے کو ’نفرت انگیز دہشت گردی‘ قرار دیا تھا۔
نائیجیریا کے شمال مشرق میں کھیت کے مزدوروں پر بوکو حرام کے دہشت گردوں کی جانب سے کیے گئے حملے میں 110 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے رابطہ کار ایڈورڈ کیلن نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس حملے میں 110 شہری بے رحمی سے قتل کر دیے گئے اور متعدد دیگر زخمی ہوئے تھے۔
بوکو حرام کے جنگجوؤں کی جانب سے کیے گئے حملے میں ابتدائی طور پر 43 افراد کی ہلاکت کی اطلاع ملی اور پھر مزید 70 افراد کے قتل کی تصدیق ہوئی تھی۔
10 جنوری کو پاکستان کے شہر کوئٹہ کے علاقے سیٹلائٹ ٹاؤن کی مسجد و مدرسہ میں دھماکے سے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس (ڈی ایس پی) اور مسجد امام سمیت 15 افراد جاں بحق اور 19 زخمی ہوگئے تھے۔
پولیس کے مطابق دھماکا سیٹلائٹ ٹاؤن کے نواحی علاقے غوث آباد کی ایک مسجد و مدرسہ میں نمازِ مغرب کے دوران ہوا تھا۔
اس کے ساتھ ہی رپورٹس تھیں کہ مذکورہ حملے میں افغان طالبان کے ایک رہنما بھی ہلاک ہوئے ہیں تاہم افغان طالبان کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کوئٹہ کے دھماکے میں طالبان رہنما کے ہلاک ہونے کی تردید کی تھی۔
18 جنوری کو فوجی تربیتی کیمپ کی ایک مسجد کو شام کی نماز کے دوران ڈرون اور میزائلوں سے نشانہ بنایا گیا تھا جب درجنوں افراد نماز کی ادائیگی میں مصروف تھے۔
اس حملے میں 111 یمنی فوجی اور 5 شہری جاں بحق اور 148 زخمی ہوگئے تھے۔
حملے کا الزام حوثیوں پر عائد کیا گیا تھا۔
2 فروری کو لندن کے جنوبی علاقے اسٹریتھم میں ایک شخص نے 3 افراد پر چاقو سے حملہ کیا تھا جس میں ایک شخص شدید زخمی ہوگیا تھا۔
20 سالہ نوجوان سودیش امن نے جعلی خود کش جیکٹ پہنی ہوئی تھی جسے لندن کی مصروف شاہراہ ساؤتھ اسٹریٹ پر 3 افراد کو چاقو سے زخمی کرنے پر پولیس نے گولی مار کر ہلاک کردیا تھا۔
مذکورہ شخص اس سے قبل کیے گئے دہشت گردی کے جرم کی سزا کاٹ کر کچھ عرصہ قبل ہی جیل سے رہا ہوا تھا۔
سودیش امن کو دہشت گردی کے حملے کی منصوبہ بندی کے شبے میں مئی 2018 میں گرفتار کیا گیا تھا، دسمبر 2018 میں اسے مختلف جرائم کی بنا پر 3 سال 4 ماہ کے لیے جیل بھیج دیا گیا تھا۔
فروری میں ہی برکینا فاسو کے صوبہ یاگا میں واقع پانسی گاؤں پر 20 سے 30 بندوق برداروں کے ایک گروپ نے حملہ کیا تھا۔
حملے میں کیٹچسٹ سمیت 24 افراد ہلاک اور 18 زخمی ہوگئے تھے۔
19 فروری کو جرمنی کے شہر ہناؤ میں ایک انتہا پسند نظریات رکھنے والے شخص نے آدھی رات کو دو نائٹ بارز میں حملے کیے تھے۔
اس حملے میں 5 افراد ہلاک ہوئے اور پھر اس شخص نے اپارٹمنٹ میں اپنی والدہ کو قتل کرنے کے بعد خودکشی کرلی تھی۔
پولیس نے بڑے پیمانے پر تفتیش کا آغاز کیا تو معلوم چلا کہ 43 سالہ حملہ آور نے حملے سے قبل اعترافی نوٹ اور ایک ویڈیو میں غیر جرمن لوگوں سے انتہائی نفرت کا اظہار کیا تھا۔
6 مارچ کو کابل میں ہزارہ رہنما عبدالعلی مزاری کی یاد میں منعقدہ تقریب میں مسلح افراد نے حملہ کیا تھا۔
تقریب میں متعدد اعلیٰ سطح کے سیاست دانوں نے شرکت کی تھی جس میں کم از کم 32 افراد ہلاک اور 60 سے زیادہ زخمی ہوگئے تھے۔
پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے 2 حملہ آوروں کو ہلاک کردیا تھا۔
حملے کی ذمہ داری داعش (خراسان) نے قبول کی تھی۔
6 اپریل کو بامبا کے شہر مالی میں موٹر سائیکلوں پر سوار بندوق بردار افراد نے فوجی اڈے پر حملہ کیا تھا۔
اس حملے میں 25 فوجی ہلاک اور 6 زخمی ہوئے جبکہ فوجیوں نے 12 حملہ آوروں کو ہلاک کردیا تھا۔
جماعت النصر الاسلام والمسلمین نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
7 اپریل کو افغانستان کے دارالحکومت کابل میں داعش کے جنگجو نے سکھ گردوارہ پر حملہ کیا تھا۔
حملے کے نتیجے میں 25 عبادت گزار ہلاک اور 8 زخمی ہوگئے تھے۔
مسلح شخص نے کئی عبادت گزاروں کو کئی گھنٹوں تک یرغمال بھی بنائے رکھا جس کے بعد افغانستان کی خصوصی فورسز نے بین الاقوامی افواج کی مدد سے عمارت کو خالی کرایا جس میں کم از کم ایک کم عمر حملہ آور ہلاک ہوگیا تھا۔
حملے کے چند گھنٹوں بعد ہی داعش نے اس کی ذمہ داری قبول کرلی تھی۔
28 اپریل کو جنگ زدہ ملک شام کے شہر آفرین میں مارکیٹ اور سرکاری وزارت کے قریب موجود ایک ایندھن سے بھرا ہوا ٹینکر دستی بم کے نتیجے میں پھٹ گیا تھا۔
دھماکے میں کم از کم 53 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں 11 بچے اور 6 ترکی سے وابستہ جنگجو شامل تھے۔
ترک حکومت نے اس حملے میں وائی پی جی کو مورد الزام ٹھہرایا تھا۔
12 مئی کو افغانستان کے شہر کابل میں ہزارہ کے نواحی علاقے دشت برچی کے ایک ہسپتال کے زچگی وارڈ میں مسلح افراد نے حملہ کر کے دو نوزائیدہ بچوں اور کئی نرسوں سمیت 24 شہریوں کو ہلاک کردیا تھا۔
تینوں حملہ آور 5 گھنٹے تک جاری رہنے والی فائرنگ کے تبادلے کے بعد مارے گئے۔
ان علاقوں میں داعش سرگرم ہے اور اسی گروہ نے حالیہ مہینوں میں کابل میں بھی متعدد حملے کیے تھے۔
29 مئی کو امریکا کے شہر آکلینڈ میں ایک مظاہرے کے قریب نامعلوم مسلح افراد نے فیڈرل پروٹیکٹو سروس کے 2 اہلکاروں پر فائرنگ کی تھی۔
فائرنگ کے نتیجے میں ایک افسر ہلاک اور دوسرا زخمی ہوا گیا تھا۔
ہوم لینڈ سیکیورٹی کے محکمے نے اس حملے کو 'ڈومیسٹک دہشت گردی' کی ایک کارروائی قرار دیا تھا۔
بعد ازاں اس حملے میں دائیں بازو سے منسلک دو مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔
29 جون کو پاکستان کے معاشی حب قرار دیئے جانے والے شہر کراچی میں دہشت گردوں نے دستی بموں اور خودکار رائفلوں کے ساتھ پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی عمارت پر حملہ کیا تھا۔
حملے میں 3 سیکیورٹی گارڈز اور ایک پولیس سب انسپکٹر شہید جبکہ 7 افراد زخمی ہوگئے تھے۔
پولیس کی بروقت کارروائی میں چاروں حملہ آور ہلاک ہوگئے تھے، بعد ازاں بلوچستان لبریشن آرمی نے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
24 اگست کو فلپائن کے شہر جولو میں پیراڈائز فوڈ پلازہ کے باہر ایک فوجی ٹرک کے قریب موٹرسائیکل بم پھٹا تھا جس کے نتیجے میں 6 فوجی، 6 شہری اور ایک پولیس افسر ہلاک ہوگیا تھا۔
اس واقعے کے ایک گھنٹے کے بعد ایک خاتون خودکش بمبار نے فلپائن کے ڈیولپمنٹ بینک کی شاخ کے سامنے خود کو دھماکے سے اڑا دیا تھا، جس میں ایک فوجی ہلاک ہوگیا تھا۔
بم دھماکوں میں مجموعی طور پر 78 افراد زخمی ہوئے تھے تاہم اگلے دن داعش نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
25 ستمبر کو فرانس کے شہر پیرس میں طنزیہ رسالہ چارلی ہیبڈو کے سابق صدر دفاتر کے باہر چھریوں کے وار سے 4 افراد زخمی ہوگئے تھے۔
جس کے بعد پولیس نے 7 افراد کو گرفتار کرکے تحویل میں لیا جبکہ حکام نے اسے دہشت گردی کا واقعہ قرار دیا تھا۔
چارلی ہیبڈو کی جانب سے پیغمبر آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کے گستاخانہ خاکے شائع کیے گئے تھے جس پر پوری دنیا میں مسلمانوں میں غم و غصہ پھیل گیا تھا اور شدید احتجاج ریکارڈ کیا گیا تھا۔
اس واقعے کے کچھ روز بعد ہی فرانس کے ایک اسکول میں ایک استاد نے آزادی اظہار رائے کے سبق کے دوران متنازع فرانسیسی میگزین چارلی ہیبڈو کے 2006 میں شائع کردہ گستاخانہ خاکے دکھائے تھے۔
جس کے چند روز بعد یعنی 16 اکتوبر کو 18 سالہ نوجوان نے مذکورہ استاد کا سر قلم کردیا تھا جسے پولیس نے جائے وقوع پر ہی گولی مار کر قتل کردیا تھا اور اس معاملے کو دہشت گرد تنظیم سے منسلک کیا گیا تھا۔
مذکورہ واقعے کے بعد فرانسیسی صدر نے گستاخانہ خاکے دکھانے والے استاد کو شہری اعزاز سے نوازا تھا جس پر پوری دنیا اور خاص طور پر مسلمان ممالک کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آیا تھا جس میں فرانسیسی سامان کا بائیکاٹ بھی شامل ہے۔
27 اکتوبر کو خیبرپختونخوا کے شہر پشاور کے ایک مدرسے میں تعلیم کے دوران دھماکے سے 8 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔
یہ دھماکا مقامی وقت کے مطابق صبح ساڑھے آٹھ بجے ہوا۔
ابتدائی تحقیقات کے مطابق یہ امپرووائزڈ ایکسپلوزو ڈیوائس (آئی ای ڈی) دھماکا تھا جس میں 5 سے 6 کلو دھماکا خیز مواد استعمال کیا گیا تھا۔
دھماکے میں جاں بحق ہونے والوں میں 4 طالبعلم بھی تھے جن کی عمریں 15 سے 25 سال کے درمیان تھیں۔
فرانس میں مزید حملے
29 اکتوبر کو فرانس کے شہر نائس میں نوٹری ڈیم ڈی نائس پر چھریوں کے وار سے 3 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
بعد ازاں حملہ آور کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا تھا۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون اور نائس کے میئر کرسچن ایسٹروسی اسے بھیایک دہشت گرد حملہ قرار دیا جو انتہا پسندی کی وجہ سے پیش آیا۔
2 نومبر کو کابل یونیورسٹی کے کیمپس میں عسکریت پسندوں نے فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں 19 طلبہ ہلاک اور 22 دیگر زخمی ہوگئے تھے۔
علاوہ ازیں اس حملے کے دوران مسلح افراد کا مقامی سیکیورٹی فورسز کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا تھا جبکہ لڑائی میں 3 دہشت گرد ہلاک ہوگئے تھے۔
داعش (صوبہ خراسان) نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
3 نومبر کو آسٹریا کے دارالحکومت ویانا کے وسطی علاقے میں مسلح افراد نے 6 مختلف مقامات پر فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں ایک خاتون سمیت 4 افراد ہلاک اور 17 زخمی ہوگئے تھے۔
رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ 2 میں سے ایک مسلح حملہ آور کو پولیس نے گولی مار کر ہلاک کردیا تھا جبکہ ایک فرار ہوگیا تھا۔
آسٹرین وزیر داخلہ نے شبہے کا اظہار کیا تھا کہ ایک حملہ آور داعش کا حامی تھا، انہوں نے بتایا تھا کہ حملہ کرنے کا مقصد آسٹریا کے جمہوری معاشرے کو کمزور اور تقسیم کرنا تھا۔
آسٹریا کے چانسلر سباستیان کرس نے اس حملے کو ’نفرت انگیز دہشت گردی‘ قرار دیا تھا۔
نائیجیریا کے شمال مشرق میں کھیت کے مزدوروں پر بوکو حرام کے دہشت گردوں کی جانب سے کیے گئے حملے میں 110 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے رابطہ کار ایڈورڈ کیلن نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس حملے میں 110 شہری بے رحمی سے قتل کر دیے گئے اور متعدد دیگر زخمی ہوئے تھے۔
بوکو حرام کے جنگجوؤں کی جانب سے کیے گئے حملے میں ابتدائی طور پر 43 افراد کی ہلاکت کی اطلاع ملی اور پھر مزید 70 افراد کے قتل کی تصدیق ہوئی تھی۔
18 جنوری کو فوجی تربیتی کیمپ کی ایک مسجد کو شام کی نماز کے دوران ڈرون اور میزائلوں سے نشانہ بنایا گیا تھا جب درجنوں افراد نماز کی ادائیگی میں مصروف تھے۔
اس حملے میں 111 یمنی فوجی اور 5 شہری جاں بحق اور 148 زخمی ہوگئے تھے۔
حملے کا الزام حوثیوں پر عائد کیا گیا تھا۔
2 فروری کو لندن کے جنوبی علاقے اسٹریتھم میں ایک شخص نے 3 افراد پر چاقو سے حملہ کیا تھا جس میں ایک شخص شدید زخمی ہوگیا تھا۔
20 سالہ نوجوان سودیش امن نے جعلی خود کش جیکٹ پہنی ہوئی تھی جسے لندن کی مصروف شاہراہ ساؤتھ اسٹریٹ پر 3 افراد کو چاقو سے زخمی کرنے پر پولیس نے گولی مار کر ہلاک کردیا تھا۔
مذکورہ شخص اس سے قبل کیے گئے دہشت گردی کے جرم کی سزا کاٹ کر کچھ عرصہ قبل ہی جیل سے رہا ہوا تھا۔
سودیش امن کو دہشت گردی کے حملے کی منصوبہ بندی کے شبے میں مئی 2018 میں گرفتار کیا گیا تھا، دسمبر 2018 میں اسے مختلف جرائم کی بنا پر 3 سال 4 ماہ کے لیے جیل بھیج دیا گیا تھا۔
فروری میں ہی برکینا فاسو کے صوبہ یاگا میں واقع پانسی گاؤں پر 20 سے 30 بندوق برداروں کے ایک گروپ نے حملہ کیا تھا۔
حملے میں کیٹچسٹ سمیت 24 افراد ہلاک اور 18 زخمی ہوگئے تھے۔
19 فروری کو جرمنی کے شہر ہناؤ میں ایک انتہا پسند نظریات رکھنے والے شخص نے آدھی رات کو دو نائٹ بارز میں حملے کیے تھے۔
اس حملے میں 5 افراد ہلاک ہوئے اور پھر اس شخص نے اپارٹمنٹ میں اپنی والدہ کو قتل کرنے کے بعد خودکشی کرلی تھی۔
پولیس نے بڑے پیمانے پر تفتیش کا آغاز کیا تو معلوم چلا کہ 43 سالہ حملہ آور نے حملے سے قبل اعترافی نوٹ اور ایک ویڈیو میں غیر جرمن لوگوں سے انتہائی نفرت کا اظہار کیا تھا۔
6 مارچ کو کابل میں ہزارہ رہنما عبدالعلی مزاری کی یاد میں منعقدہ تقریب میں مسلح افراد نے حملہ کیا تھا۔
تقریب میں متعدد اعلیٰ سطح کے سیاست دانوں نے شرکت کی تھی جس میں کم از کم 32 افراد ہلاک اور 60 سے زیادہ زخمی ہوگئے تھے۔
پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے 2 حملہ آوروں کو ہلاک کردیا تھا۔
حملے کی ذمہ داری داعش (خراسان) نے قبول کی تھی۔
6 اپریل کو بامبا کے شہر مالی میں موٹر سائیکلوں پر سوار بندوق بردار افراد نے فوجی اڈے پر حملہ کیا تھا۔
اس حملے میں 25 فوجی ہلاک اور 6 زخمی ہوئے جبکہ فوجیوں نے 12 حملہ آوروں کو ہلاک کردیا تھا۔
جماعت النصر الاسلام والمسلمین نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
7 اپریل کو افغانستان کے دارالحکومت کابل میں داعش کے جنگجو نے سکھ گردوارہ پر حملہ کیا تھا۔
حملے کے نتیجے میں 25 عبادت گزار ہلاک اور 8 زخمی ہوگئے تھے۔
مسلح شخص نے کئی عبادت گزاروں کو کئی گھنٹوں تک یرغمال بھی بنائے رکھا جس کے بعد افغانستان کی خصوصی فورسز نے بین الاقوامی افواج کی مدد سے عمارت کو خالی کرایا جس میں کم از کم ایک کم عمر حملہ آور ہلاک ہوگیا تھا۔
حملے کے چند گھنٹوں بعد ہی داعش نے اس کی ذمہ داری قبول کرلی تھی۔
28 اپریل کو جنگ زدہ ملک شام کے شہر آفرین میں مارکیٹ اور سرکاری وزارت کے قریب موجود ایک ایندھن سے بھرا ہوا ٹینکر دستی بم کے نتیجے میں پھٹ گیا تھا۔
دھماکے میں کم از کم 53 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں 11 بچے اور 6 ترکی سے وابستہ جنگجو شامل تھے۔
ترک حکومت نے اس حملے میں وائی پی جی کو مورد الزام ٹھہرایا تھا۔
12 مئی کو افغانستان کے شہر کابل میں ہزارہ کے نواحی علاقے دشت برچی کے ایک ہسپتال کے زچگی وارڈ میں مسلح افراد نے حملہ کر کے دو نوزائیدہ بچوں اور کئی نرسوں سمیت 24 شہریوں کو ہلاک کردیا تھا۔
تینوں حملہ آور 5 گھنٹے تک جاری رہنے والی فائرنگ کے تبادلے کے بعد مارے گئے۔
ان علاقوں میں داعش سرگرم ہے اور اسی گروہ نے حالیہ مہینوں میں کابل میں بھی متعدد حملے کیے تھے۔
29 مئی کو امریکا کے شہر آکلینڈ میں ایک مظاہرے کے قریب نامعلوم مسلح افراد نے فیڈرل پروٹیکٹو سروس کے 2 اہلکاروں پر فائرنگ کی تھی۔
فائرنگ کے نتیجے میں ایک افسر ہلاک اور دوسرا زخمی ہوا گیا تھا۔
ہوم لینڈ سیکیورٹی کے محکمے نے اس حملے کو 'ڈومیسٹک دہشت گردی' کی ایک کارروائی قرار دیا تھا۔
بعد ازاں اس حملے میں دائیں بازو سے منسلک دو مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔
29 جون کو پاکستان کے معاشی حب قرار دیئے جانے والے شہر کراچی میں دہشت گردوں نے دستی بموں اور خودکار رائفلوں کے ساتھ پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی عمارت پر حملہ کیا تھا۔
حملے میں 3 سیکیورٹی گارڈز اور ایک پولیس سب انسپکٹر شہید جبکہ 7 افراد زخمی ہوگئے تھے۔
پولیس کی بروقت کارروائی میں چاروں حملہ آور ہلاک ہوگئے تھے، بعد ازاں بلوچستان لبریشن آرمی نے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
24 اگست کو فلپائن کے شہر جولو میں پیراڈائز فوڈ پلازہ کے باہر ایک فوجی ٹرک کے قریب موٹرسائیکل بم پھٹا تھا جس کے نتیجے میں 6 فوجی، 6 شہری اور ایک پولیس افسر ہلاک ہوگیا تھا۔
اس واقعے کے ایک گھنٹے کے بعد ایک خاتون خودکش بمبار نے فلپائن کے ڈیولپمنٹ بینک کی شاخ کے سامنے خود کو دھماکے سے اڑا دیا تھا، جس میں ایک فوجی ہلاک ہوگیا تھا۔
بم دھماکوں میں مجموعی طور پر 78 افراد زخمی ہوئے تھے تاہم اگلے دن داعش نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
25 ستمبر کو فرانس کے شہر پیرس میں طنزیہ رسالہ چارلی ہیبڈو کے سابق صدر دفاتر کے باہر چھریوں کے وار سے 4 افراد زخمی ہوگئے تھے۔
جس کے بعد پولیس نے 7 افراد کو گرفتار کرکے تحویل میں لیا جبکہ حکام نے اسے دہشت گردی کا واقعہ قرار دیا تھا۔
چارلی ہیبڈو کی جانب سے پیغمبر آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کے گستاخانہ خاکے شائع کیے گئے تھے جس پر پوری دنیا میں مسلمانوں میں غم و غصہ پھیل گیا تھا اور شدید احتجاج ریکارڈ کیا گیا تھا۔
اس واقعے کے کچھ روز بعد ہی فرانس کے ایک اسکول میں ایک استاد نے آزادی اظہار رائے کے سبق کے دوران متنازع فرانسیسی میگزین چارلی ہیبڈو کے 2006 میں شائع کردہ گستاخانہ خاکے دکھائے تھے۔
جس کے چند روز بعد یعنی 16 اکتوبر کو 18 سالہ نوجوان نے مذکورہ استاد کا سر قلم کردیا تھا جسے پولیس نے جائے وقوع پر ہی گولی مار کر قتل کردیا تھا اور اس معاملے کو دہشت گرد تنظیم سے منسلک کیا گیا تھا۔
مذکورہ واقعے کے بعد فرانسیسی صدر نے گستاخانہ خاکے دکھانے والے استاد کو شہری اعزاز سے نوازا تھا جس پر پوری دنیا اور خاص طور پر مسلمان ممالک کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آیا تھا جس میں فرانسیسی سامان کا بائیکاٹ بھی شامل ہے۔
27 اکتوبر کو خیبرپختونخوا کے شہر پشاور کے ایک مدرسے میں تعلیم کے دوران دھماکے سے 8 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔
یہ دھماکا مقامی وقت کے مطابق صبح ساڑھے آٹھ بجے ہوا۔
ابتدائی تحقیقات کے مطابق یہ امپرووائزڈ ایکسپلوزو ڈیوائس (آئی ای ڈی) دھماکا تھا جس میں 5 سے 6 کلو دھماکا خیز مواد استعمال کیا گیا تھا۔
دھماکے میں جاں بحق ہونے والوں میں 4 طالبعلم بھی تھے جن کی عمریں 15 سے 25 سال کے درمیان تھیں۔
فرانس میں مزید حملے
29 اکتوبر کو فرانس کے شہر نائس میں نوٹری ڈیم ڈی نائس پر چھریوں کے وار سے 3 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
بعد ازاں حملہ آور کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا تھا۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون اور نائس کے میئر کرسچن ایسٹروسی اسے بھیایک دہشت گرد حملہ قرار دیا جو انتہا پسندی کی وجہ سے پیش آیا۔
2 نومبر کو کابل یونیورسٹی کے کیمپس میں عسکریت پسندوں نے فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں 19 طلبہ ہلاک اور 22 دیگر زخمی ہوگئے تھے۔
علاوہ ازیں اس حملے کے دوران مسلح افراد کا مقامی سیکیورٹی فورسز کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا تھا جبکہ لڑائی میں 3 دہشت گرد ہلاک ہوگئے تھے۔
داعش (صوبہ خراسان) نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
3 نومبر کو آسٹریا کے دارالحکومت ویانا کے وسطی علاقے میں مسلح افراد نے 6 مختلف مقامات پر فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں ایک خاتون سمیت 4 افراد ہلاک اور 17 زخمی ہوگئے تھے۔
رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ 2 میں سے ایک مسلح حملہ آور کو پولیس نے گولی مار کر ہلاک کردیا تھا جبکہ ایک فرار ہوگیا تھا۔
آسٹرین وزیر داخلہ نے شبہے کا اظہار کیا تھا کہ ایک حملہ آور داعش کا حامی تھا، انہوں نے بتایا تھا کہ حملہ کرنے کا مقصد آسٹریا کے جمہوری معاشرے کو کمزور اور تقسیم کرنا تھا۔
آسٹریا کے چانسلر سباستیان کرس نے اس حملے کو ’نفرت انگیز دہشت گردی‘ قرار دیا تھا۔
نائیجیریا کے شمال مشرق میں کھیت کے مزدوروں پر بوکو حرام کے دہشت گردوں کی جانب سے کیے گئے حملے میں 110 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے رابطہ کار ایڈورڈ کیلن نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس حملے میں 110 شہری بے رحمی سے قتل کر دیے گئے اور متعدد دیگر زخمی ہوئے تھے۔
بوکو حرام کے جنگجوؤں کی جانب سے کیے گئے حملے میں ابتدائی طور پر 43 افراد کی ہلاکت کی اطلاع ملی اور پھر مزید 70 افراد کے قتل کی تصدیق ہوئی تھی۔
2 فروری کو لندن کے جنوبی علاقے اسٹریتھم میں ایک شخص نے 3 افراد پر چاقو سے حملہ کیا تھا جس میں ایک شخص شدید زخمی ہوگیا تھا۔
20 سالہ نوجوان سودیش امن نے جعلی خود کش جیکٹ پہنی ہوئی تھی جسے لندن کی مصروف شاہراہ ساؤتھ اسٹریٹ پر 3 افراد کو چاقو سے زخمی کرنے پر پولیس نے گولی مار کر ہلاک کردیا تھا۔
مذکورہ شخص اس سے قبل کیے گئے دہشت گردی کے جرم کی سزا کاٹ کر کچھ عرصہ قبل ہی جیل سے رہا ہوا تھا۔
سودیش امن کو دہشت گردی کے حملے کی منصوبہ بندی کے شبے میں مئی 2018 میں گرفتار کیا گیا تھا، دسمبر 2018 میں اسے مختلف جرائم کی بنا پر 3 سال 4 ماہ کے لیے جیل بھیج دیا گیا تھا۔
فروری میں ہی برکینا فاسو کے صوبہ یاگا میں واقع پانسی گاؤں پر 20 سے 30 بندوق برداروں کے ایک گروپ نے حملہ کیا تھا۔
حملے میں کیٹچسٹ سمیت 24 افراد ہلاک اور 18 زخمی ہوگئے تھے۔
19 فروری کو جرمنی کے شہر ہناؤ میں ایک انتہا پسند نظریات رکھنے والے شخص نے آدھی رات کو دو نائٹ بارز میں حملے کیے تھے۔
اس حملے میں 5 افراد ہلاک ہوئے اور پھر اس شخص نے اپارٹمنٹ میں اپنی والدہ کو قتل کرنے کے بعد خودکشی کرلی تھی۔
پولیس نے بڑے پیمانے پر تفتیش کا آغاز کیا تو معلوم چلا کہ 43 سالہ حملہ آور نے حملے سے قبل اعترافی نوٹ اور ایک ویڈیو میں غیر جرمن لوگوں سے انتہائی نفرت کا اظہار کیا تھا۔
6 مارچ کو کابل میں ہزارہ رہنما عبدالعلی مزاری کی یاد میں منعقدہ تقریب میں مسلح افراد نے حملہ کیا تھا۔
تقریب میں متعدد اعلیٰ سطح کے سیاست دانوں نے شرکت کی تھی جس میں کم از کم 32 افراد ہلاک اور 60 سے زیادہ زخمی ہوگئے تھے۔
پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے 2 حملہ آوروں کو ہلاک کردیا تھا۔
حملے کی ذمہ داری داعش (خراسان) نے قبول کی تھی۔
6 اپریل کو بامبا کے شہر مالی میں موٹر سائیکلوں پر سوار بندوق بردار افراد نے فوجی اڈے پر حملہ کیا تھا۔
اس حملے میں 25 فوجی ہلاک اور 6 زخمی ہوئے جبکہ فوجیوں نے 12 حملہ آوروں کو ہلاک کردیا تھا۔
جماعت النصر الاسلام والمسلمین نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
7 اپریل کو افغانستان کے دارالحکومت کابل میں داعش کے جنگجو نے سکھ گردوارہ پر حملہ کیا تھا۔
حملے کے نتیجے میں 25 عبادت گزار ہلاک اور 8 زخمی ہوگئے تھے۔
مسلح شخص نے کئی عبادت گزاروں کو کئی گھنٹوں تک یرغمال بھی بنائے رکھا جس کے بعد افغانستان کی خصوصی فورسز نے بین الاقوامی افواج کی مدد سے عمارت کو خالی کرایا جس میں کم از کم ایک کم عمر حملہ آور ہلاک ہوگیا تھا۔
حملے کے چند گھنٹوں بعد ہی داعش نے اس کی ذمہ داری قبول کرلی تھی۔
28 اپریل کو جنگ زدہ ملک شام کے شہر آفرین میں مارکیٹ اور سرکاری وزارت کے قریب موجود ایک ایندھن سے بھرا ہوا ٹینکر دستی بم کے نتیجے میں پھٹ گیا تھا۔
دھماکے میں کم از کم 53 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں 11 بچے اور 6 ترکی سے وابستہ جنگجو شامل تھے۔
ترک حکومت نے اس حملے میں وائی پی جی کو مورد الزام ٹھہرایا تھا۔
12 مئی کو افغانستان کے شہر کابل میں ہزارہ کے نواحی علاقے دشت برچی کے ایک ہسپتال کے زچگی وارڈ میں مسلح افراد نے حملہ کر کے دو نوزائیدہ بچوں اور کئی نرسوں سمیت 24 شہریوں کو ہلاک کردیا تھا۔
تینوں حملہ آور 5 گھنٹے تک جاری رہنے والی فائرنگ کے تبادلے کے بعد مارے گئے۔
ان علاقوں میں داعش سرگرم ہے اور اسی گروہ نے حالیہ مہینوں میں کابل میں بھی متعدد حملے کیے تھے۔
29 مئی کو امریکا کے شہر آکلینڈ میں ایک مظاہرے کے قریب نامعلوم مسلح افراد نے فیڈرل پروٹیکٹو سروس کے 2 اہلکاروں پر فائرنگ کی تھی۔
فائرنگ کے نتیجے میں ایک افسر ہلاک اور دوسرا زخمی ہوا گیا تھا۔
ہوم لینڈ سیکیورٹی کے محکمے نے اس حملے کو 'ڈومیسٹک دہشت گردی' کی ایک کارروائی قرار دیا تھا۔
بعد ازاں اس حملے میں دائیں بازو سے منسلک دو مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔
29 جون کو پاکستان کے معاشی حب قرار دیئے جانے والے شہر کراچی میں دہشت گردوں نے دستی بموں اور خودکار رائفلوں کے ساتھ پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی عمارت پر حملہ کیا تھا۔
حملے میں 3 سیکیورٹی گارڈز اور ایک پولیس سب انسپکٹر شہید جبکہ 7 افراد زخمی ہوگئے تھے۔
پولیس کی بروقت کارروائی میں چاروں حملہ آور ہلاک ہوگئے تھے، بعد ازاں بلوچستان لبریشن آرمی نے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
24 اگست کو فلپائن کے شہر جولو میں پیراڈائز فوڈ پلازہ کے باہر ایک فوجی ٹرک کے قریب موٹرسائیکل بم پھٹا تھا جس کے نتیجے میں 6 فوجی، 6 شہری اور ایک پولیس افسر ہلاک ہوگیا تھا۔
اس واقعے کے ایک گھنٹے کے بعد ایک خاتون خودکش بمبار نے فلپائن کے ڈیولپمنٹ بینک کی شاخ کے سامنے خود کو دھماکے سے اڑا دیا تھا، جس میں ایک فوجی ہلاک ہوگیا تھا۔
بم دھماکوں میں مجموعی طور پر 78 افراد زخمی ہوئے تھے تاہم اگلے دن داعش نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
25 ستمبر کو فرانس کے شہر پیرس میں طنزیہ رسالہ چارلی ہیبڈو کے سابق صدر دفاتر کے باہر چھریوں کے وار سے 4 افراد زخمی ہوگئے تھے۔
جس کے بعد پولیس نے 7 افراد کو گرفتار کرکے تحویل میں لیا جبکہ حکام نے اسے دہشت گردی کا واقعہ قرار دیا تھا۔
چارلی ہیبڈو کی جانب سے پیغمبر آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کے گستاخانہ خاکے شائع کیے گئے تھے جس پر پوری دنیا میں مسلمانوں میں غم و غصہ پھیل گیا تھا اور شدید احتجاج ریکارڈ کیا گیا تھا۔
اس واقعے کے کچھ روز بعد ہی فرانس کے ایک اسکول میں ایک استاد نے آزادی اظہار رائے کے سبق کے دوران متنازع فرانسیسی میگزین چارلی ہیبڈو کے 2006 میں شائع کردہ گستاخانہ خاکے دکھائے تھے۔
جس کے چند روز بعد یعنی 16 اکتوبر کو 18 سالہ نوجوان نے مذکورہ استاد کا سر قلم کردیا تھا جسے پولیس نے جائے وقوع پر ہی گولی مار کر قتل کردیا تھا اور اس معاملے کو دہشت گرد تنظیم سے منسلک کیا گیا تھا۔
مذکورہ واقعے کے بعد فرانسیسی صدر نے گستاخانہ خاکے دکھانے والے استاد کو شہری اعزاز سے نوازا تھا جس پر پوری دنیا اور خاص طور پر مسلمان ممالک کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آیا تھا جس میں فرانسیسی سامان کا بائیکاٹ بھی شامل ہے۔
27 اکتوبر کو خیبرپختونخوا کے شہر پشاور کے ایک مدرسے میں تعلیم کے دوران دھماکے سے 8 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔
یہ دھماکا مقامی وقت کے مطابق صبح ساڑھے آٹھ بجے ہوا۔
ابتدائی تحقیقات کے مطابق یہ امپرووائزڈ ایکسپلوزو ڈیوائس (آئی ای ڈی) دھماکا تھا جس میں 5 سے 6 کلو دھماکا خیز مواد استعمال کیا گیا تھا۔
دھماکے میں جاں بحق ہونے والوں میں 4 طالبعلم بھی تھے جن کی عمریں 15 سے 25 سال کے درمیان تھیں۔
فرانس میں مزید حملے
29 اکتوبر کو فرانس کے شہر نائس میں نوٹری ڈیم ڈی نائس پر چھریوں کے وار سے 3 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
بعد ازاں حملہ آور کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا تھا۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون اور نائس کے میئر کرسچن ایسٹروسی اسے بھیایک دہشت گرد حملہ قرار دیا جو انتہا پسندی کی وجہ سے پیش آیا۔
2 نومبر کو کابل یونیورسٹی کے کیمپس میں عسکریت پسندوں نے فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں 19 طلبہ ہلاک اور 22 دیگر زخمی ہوگئے تھے۔
علاوہ ازیں اس حملے کے دوران مسلح افراد کا مقامی سیکیورٹی فورسز کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا تھا جبکہ لڑائی میں 3 دہشت گرد ہلاک ہوگئے تھے۔
داعش (صوبہ خراسان) نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
3 نومبر کو آسٹریا کے دارالحکومت ویانا کے وسطی علاقے میں مسلح افراد نے 6 مختلف مقامات پر فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں ایک خاتون سمیت 4 افراد ہلاک اور 17 زخمی ہوگئے تھے۔
رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ 2 میں سے ایک مسلح حملہ آور کو پولیس نے گولی مار کر ہلاک کردیا تھا جبکہ ایک فرار ہوگیا تھا۔
آسٹرین وزیر داخلہ نے شبہے کا اظہار کیا تھا کہ ایک حملہ آور داعش کا حامی تھا، انہوں نے بتایا تھا کہ حملہ کرنے کا مقصد آسٹریا کے جمہوری معاشرے کو کمزور اور تقسیم کرنا تھا۔
آسٹریا کے چانسلر سباستیان کرس نے اس حملے کو ’نفرت انگیز دہشت گردی‘ قرار دیا تھا۔
نائیجیریا کے شمال مشرق میں کھیت کے مزدوروں پر بوکو حرام کے دہشت گردوں کی جانب سے کیے گئے حملے میں 110 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے رابطہ کار ایڈورڈ کیلن نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس حملے میں 110 شہری بے رحمی سے قتل کر دیے گئے اور متعدد دیگر زخمی ہوئے تھے۔
بوکو حرام کے جنگجوؤں کی جانب سے کیے گئے حملے میں ابتدائی طور پر 43 افراد کی ہلاکت کی اطلاع ملی اور پھر مزید 70 افراد کے قتل کی تصدیق ہوئی تھی۔
فروری میں ہی برکینا فاسو کے صوبہ یاگا میں واقع پانسی گاؤں پر 20 سے 30 بندوق برداروں کے ایک گروپ نے حملہ کیا تھا۔
حملے میں کیٹچسٹ سمیت 24 افراد ہلاک اور 18 زخمی ہوگئے تھے۔
19 فروری کو جرمنی کے شہر ہناؤ میں ایک انتہا پسند نظریات رکھنے والے شخص نے آدھی رات کو دو نائٹ بارز میں حملے کیے تھے۔
اس حملے میں 5 افراد ہلاک ہوئے اور پھر اس شخص نے اپارٹمنٹ میں اپنی والدہ کو قتل کرنے کے بعد خودکشی کرلی تھی۔
پولیس نے بڑے پیمانے پر تفتیش کا آغاز کیا تو معلوم چلا کہ 43 سالہ حملہ آور نے حملے سے قبل اعترافی نوٹ اور ایک ویڈیو میں غیر جرمن لوگوں سے انتہائی نفرت کا اظہار کیا تھا۔
6 مارچ کو کابل میں ہزارہ رہنما عبدالعلی مزاری کی یاد میں منعقدہ تقریب میں مسلح افراد نے حملہ کیا تھا۔
تقریب میں متعدد اعلیٰ سطح کے سیاست دانوں نے شرکت کی تھی جس میں کم از کم 32 افراد ہلاک اور 60 سے زیادہ زخمی ہوگئے تھے۔
پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے 2 حملہ آوروں کو ہلاک کردیا تھا۔
حملے کی ذمہ داری داعش (خراسان) نے قبول کی تھی۔
6 اپریل کو بامبا کے شہر مالی میں موٹر سائیکلوں پر سوار بندوق بردار افراد نے فوجی اڈے پر حملہ کیا تھا۔
اس حملے میں 25 فوجی ہلاک اور 6 زخمی ہوئے جبکہ فوجیوں نے 12 حملہ آوروں کو ہلاک کردیا تھا۔
جماعت النصر الاسلام والمسلمین نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
7 اپریل کو افغانستان کے دارالحکومت کابل میں داعش کے جنگجو نے سکھ گردوارہ پر حملہ کیا تھا۔
حملے کے نتیجے میں 25 عبادت گزار ہلاک اور 8 زخمی ہوگئے تھے۔
مسلح شخص نے کئی عبادت گزاروں کو کئی گھنٹوں تک یرغمال بھی بنائے رکھا جس کے بعد افغانستان کی خصوصی فورسز نے بین الاقوامی افواج کی مدد سے عمارت کو خالی کرایا جس میں کم از کم ایک کم عمر حملہ آور ہلاک ہوگیا تھا۔
حملے کے چند گھنٹوں بعد ہی داعش نے اس کی ذمہ داری قبول کرلی تھی۔
28 اپریل کو جنگ زدہ ملک شام کے شہر آفرین میں مارکیٹ اور سرکاری وزارت کے قریب موجود ایک ایندھن سے بھرا ہوا ٹینکر دستی بم کے نتیجے میں پھٹ گیا تھا۔
دھماکے میں کم از کم 53 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں 11 بچے اور 6 ترکی سے وابستہ جنگجو شامل تھے۔
ترک حکومت نے اس حملے میں وائی پی جی کو مورد الزام ٹھہرایا تھا۔
12 مئی کو افغانستان کے شہر کابل میں ہزارہ کے نواحی علاقے دشت برچی کے ایک ہسپتال کے زچگی وارڈ میں مسلح افراد نے حملہ کر کے دو نوزائیدہ بچوں اور کئی نرسوں سمیت 24 شہریوں کو ہلاک کردیا تھا۔
تینوں حملہ آور 5 گھنٹے تک جاری رہنے والی فائرنگ کے تبادلے کے بعد مارے گئے۔
ان علاقوں میں داعش سرگرم ہے اور اسی گروہ نے حالیہ مہینوں میں کابل میں بھی متعدد حملے کیے تھے۔
29 مئی کو امریکا کے شہر آکلینڈ میں ایک مظاہرے کے قریب نامعلوم مسلح افراد نے فیڈرل پروٹیکٹو سروس کے 2 اہلکاروں پر فائرنگ کی تھی۔
فائرنگ کے نتیجے میں ایک افسر ہلاک اور دوسرا زخمی ہوا گیا تھا۔
ہوم لینڈ سیکیورٹی کے محکمے نے اس حملے کو 'ڈومیسٹک دہشت گردی' کی ایک کارروائی قرار دیا تھا۔
بعد ازاں اس حملے میں دائیں بازو سے منسلک دو مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔
29 جون کو پاکستان کے معاشی حب قرار دیئے جانے والے شہر کراچی میں دہشت گردوں نے دستی بموں اور خودکار رائفلوں کے ساتھ پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی عمارت پر حملہ کیا تھا۔
حملے میں 3 سیکیورٹی گارڈز اور ایک پولیس سب انسپکٹر شہید جبکہ 7 افراد زخمی ہوگئے تھے۔
پولیس کی بروقت کارروائی میں چاروں حملہ آور ہلاک ہوگئے تھے، بعد ازاں بلوچستان لبریشن آرمی نے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
24 اگست کو فلپائن کے شہر جولو میں پیراڈائز فوڈ پلازہ کے باہر ایک فوجی ٹرک کے قریب موٹرسائیکل بم پھٹا تھا جس کے نتیجے میں 6 فوجی، 6 شہری اور ایک پولیس افسر ہلاک ہوگیا تھا۔
اس واقعے کے ایک گھنٹے کے بعد ایک خاتون خودکش بمبار نے فلپائن کے ڈیولپمنٹ بینک کی شاخ کے سامنے خود کو دھماکے سے اڑا دیا تھا، جس میں ایک فوجی ہلاک ہوگیا تھا۔
بم دھماکوں میں مجموعی طور پر 78 افراد زخمی ہوئے تھے تاہم اگلے دن داعش نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
25 ستمبر کو فرانس کے شہر پیرس میں طنزیہ رسالہ چارلی ہیبڈو کے سابق صدر دفاتر کے باہر چھریوں کے وار سے 4 افراد زخمی ہوگئے تھے۔
جس کے بعد پولیس نے 7 افراد کو گرفتار کرکے تحویل میں لیا جبکہ حکام نے اسے دہشت گردی کا واقعہ قرار دیا تھا۔
چارلی ہیبڈو کی جانب سے پیغمبر آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کے گستاخانہ خاکے شائع کیے گئے تھے جس پر پوری دنیا میں مسلمانوں میں غم و غصہ پھیل گیا تھا اور شدید احتجاج ریکارڈ کیا گیا تھا۔
اس واقعے کے کچھ روز بعد ہی فرانس کے ایک اسکول میں ایک استاد نے آزادی اظہار رائے کے سبق کے دوران متنازع فرانسیسی میگزین چارلی ہیبڈو کے 2006 میں شائع کردہ گستاخانہ خاکے دکھائے تھے۔
جس کے چند روز بعد یعنی 16 اکتوبر کو 18 سالہ نوجوان نے مذکورہ استاد کا سر قلم کردیا تھا جسے پولیس نے جائے وقوع پر ہی گولی مار کر قتل کردیا تھا اور اس معاملے کو دہشت گرد تنظیم سے منسلک کیا گیا تھا۔
مذکورہ واقعے کے بعد فرانسیسی صدر نے گستاخانہ خاکے دکھانے والے استاد کو شہری اعزاز سے نوازا تھا جس پر پوری دنیا اور خاص طور پر مسلمان ممالک کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آیا تھا جس میں فرانسیسی سامان کا بائیکاٹ بھی شامل ہے۔
27 اکتوبر کو خیبرپختونخوا کے شہر پشاور کے ایک مدرسے میں تعلیم کے دوران دھماکے سے 8 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔
یہ دھماکا مقامی وقت کے مطابق صبح ساڑھے آٹھ بجے ہوا۔
ابتدائی تحقیقات کے مطابق یہ امپرووائزڈ ایکسپلوزو ڈیوائس (آئی ای ڈی) دھماکا تھا جس میں 5 سے 6 کلو دھماکا خیز مواد استعمال کیا گیا تھا۔
دھماکے میں جاں بحق ہونے والوں میں 4 طالبعلم بھی تھے جن کی عمریں 15 سے 25 سال کے درمیان تھیں۔
فرانس میں مزید حملے
29 اکتوبر کو فرانس کے شہر نائس میں نوٹری ڈیم ڈی نائس پر چھریوں کے وار سے 3 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
بعد ازاں حملہ آور کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا تھا۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون اور نائس کے میئر کرسچن ایسٹروسی اسے بھیایک دہشت گرد حملہ قرار دیا جو انتہا پسندی کی وجہ سے پیش آیا۔
2 نومبر کو کابل یونیورسٹی کے کیمپس میں عسکریت پسندوں نے فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں 19 طلبہ ہلاک اور 22 دیگر زخمی ہوگئے تھے۔
علاوہ ازیں اس حملے کے دوران مسلح افراد کا مقامی سیکیورٹی فورسز کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا تھا جبکہ لڑائی میں 3 دہشت گرد ہلاک ہوگئے تھے۔
داعش (صوبہ خراسان) نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
3 نومبر کو آسٹریا کے دارالحکومت ویانا کے وسطی علاقے میں مسلح افراد نے 6 مختلف مقامات پر فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں ایک خاتون سمیت 4 افراد ہلاک اور 17 زخمی ہوگئے تھے۔
رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ 2 میں سے ایک مسلح حملہ آور کو پولیس نے گولی مار کر ہلاک کردیا تھا جبکہ ایک فرار ہوگیا تھا۔
آسٹرین وزیر داخلہ نے شبہے کا اظہار کیا تھا کہ ایک حملہ آور داعش کا حامی تھا، انہوں نے بتایا تھا کہ حملہ کرنے کا مقصد آسٹریا کے جمہوری معاشرے کو کمزور اور تقسیم کرنا تھا۔
آسٹریا کے چانسلر سباستیان کرس نے اس حملے کو ’نفرت انگیز دہشت گردی‘ قرار دیا تھا۔
نائیجیریا کے شمال مشرق میں کھیت کے مزدوروں پر بوکو حرام کے دہشت گردوں کی جانب سے کیے گئے حملے میں 110 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے رابطہ کار ایڈورڈ کیلن نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس حملے میں 110 شہری بے رحمی سے قتل کر دیے گئے اور متعدد دیگر زخمی ہوئے تھے۔
بوکو حرام کے جنگجوؤں کی جانب سے کیے گئے حملے میں ابتدائی طور پر 43 افراد کی ہلاکت کی اطلاع ملی اور پھر مزید 70 افراد کے قتل کی تصدیق ہوئی تھی۔
19 فروری کو جرمنی کے شہر ہناؤ میں ایک انتہا پسند نظریات رکھنے والے شخص نے آدھی رات کو دو نائٹ بارز میں حملے کیے تھے۔
اس حملے میں 5 افراد ہلاک ہوئے اور پھر اس شخص نے اپارٹمنٹ میں اپنی والدہ کو قتل کرنے کے بعد خودکشی کرلی تھی۔
پولیس نے بڑے پیمانے پر تفتیش کا آغاز کیا تو معلوم چلا کہ 43 سالہ حملہ آور نے حملے سے قبل اعترافی نوٹ اور ایک ویڈیو میں غیر جرمن لوگوں سے انتہائی نفرت کا اظہار کیا تھا۔
6 مارچ کو کابل میں ہزارہ رہنما عبدالعلی مزاری کی یاد میں منعقدہ تقریب میں مسلح افراد نے حملہ کیا تھا۔
تقریب میں متعدد اعلیٰ سطح کے سیاست دانوں نے شرکت کی تھی جس میں کم از کم 32 افراد ہلاک اور 60 سے زیادہ زخمی ہوگئے تھے۔
پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے 2 حملہ آوروں کو ہلاک کردیا تھا۔
حملے کی ذمہ داری داعش (خراسان) نے قبول کی تھی۔
6 اپریل کو بامبا کے شہر مالی میں موٹر سائیکلوں پر سوار بندوق بردار افراد نے فوجی اڈے پر حملہ کیا تھا۔
اس حملے میں 25 فوجی ہلاک اور 6 زخمی ہوئے جبکہ فوجیوں نے 12 حملہ آوروں کو ہلاک کردیا تھا۔
جماعت النصر الاسلام والمسلمین نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
7 اپریل کو افغانستان کے دارالحکومت کابل میں داعش کے جنگجو نے سکھ گردوارہ پر حملہ کیا تھا۔
حملے کے نتیجے میں 25 عبادت گزار ہلاک اور 8 زخمی ہوگئے تھے۔
مسلح شخص نے کئی عبادت گزاروں کو کئی گھنٹوں تک یرغمال بھی بنائے رکھا جس کے بعد افغانستان کی خصوصی فورسز نے بین الاقوامی افواج کی مدد سے عمارت کو خالی کرایا جس میں کم از کم ایک کم عمر حملہ آور ہلاک ہوگیا تھا۔
حملے کے چند گھنٹوں بعد ہی داعش نے اس کی ذمہ داری قبول کرلی تھی۔
28 اپریل کو جنگ زدہ ملک شام کے شہر آفرین میں مارکیٹ اور سرکاری وزارت کے قریب موجود ایک ایندھن سے بھرا ہوا ٹینکر دستی بم کے نتیجے میں پھٹ گیا تھا۔
دھماکے میں کم از کم 53 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں 11 بچے اور 6 ترکی سے وابستہ جنگجو شامل تھے۔
ترک حکومت نے اس حملے میں وائی پی جی کو مورد الزام ٹھہرایا تھا۔
12 مئی کو افغانستان کے شہر کابل میں ہزارہ کے نواحی علاقے دشت برچی کے ایک ہسپتال کے زچگی وارڈ میں مسلح افراد نے حملہ کر کے دو نوزائیدہ بچوں اور کئی نرسوں سمیت 24 شہریوں کو ہلاک کردیا تھا۔
تینوں حملہ آور 5 گھنٹے تک جاری رہنے والی فائرنگ کے تبادلے کے بعد مارے گئے۔
ان علاقوں میں داعش سرگرم ہے اور اسی گروہ نے حالیہ مہینوں میں کابل میں بھی متعدد حملے کیے تھے۔
29 مئی کو امریکا کے شہر آکلینڈ میں ایک مظاہرے کے قریب نامعلوم مسلح افراد نے فیڈرل پروٹیکٹو سروس کے 2 اہلکاروں پر فائرنگ کی تھی۔
فائرنگ کے نتیجے میں ایک افسر ہلاک اور دوسرا زخمی ہوا گیا تھا۔
ہوم لینڈ سیکیورٹی کے محکمے نے اس حملے کو 'ڈومیسٹک دہشت گردی' کی ایک کارروائی قرار دیا تھا۔
بعد ازاں اس حملے میں دائیں بازو سے منسلک دو مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔
29 جون کو پاکستان کے معاشی حب قرار دیئے جانے والے شہر کراچی میں دہشت گردوں نے دستی بموں اور خودکار رائفلوں کے ساتھ پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی عمارت پر حملہ کیا تھا۔
حملے میں 3 سیکیورٹی گارڈز اور ایک پولیس سب انسپکٹر شہید جبکہ 7 افراد زخمی ہوگئے تھے۔
پولیس کی بروقت کارروائی میں چاروں حملہ آور ہلاک ہوگئے تھے، بعد ازاں بلوچستان لبریشن آرمی نے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
24 اگست کو فلپائن کے شہر جولو میں پیراڈائز فوڈ پلازہ کے باہر ایک فوجی ٹرک کے قریب موٹرسائیکل بم پھٹا تھا جس کے نتیجے میں 6 فوجی، 6 شہری اور ایک پولیس افسر ہلاک ہوگیا تھا۔
اس واقعے کے ایک گھنٹے کے بعد ایک خاتون خودکش بمبار نے فلپائن کے ڈیولپمنٹ بینک کی شاخ کے سامنے خود کو دھماکے سے اڑا دیا تھا، جس میں ایک فوجی ہلاک ہوگیا تھا۔
بم دھماکوں میں مجموعی طور پر 78 افراد زخمی ہوئے تھے تاہم اگلے دن داعش نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
25 ستمبر کو فرانس کے شہر پیرس میں طنزیہ رسالہ چارلی ہیبڈو کے سابق صدر دفاتر کے باہر چھریوں کے وار سے 4 افراد زخمی ہوگئے تھے۔
جس کے بعد پولیس نے 7 افراد کو گرفتار کرکے تحویل میں لیا جبکہ حکام نے اسے دہشت گردی کا واقعہ قرار دیا تھا۔
چارلی ہیبڈو کی جانب سے پیغمبر آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کے گستاخانہ خاکے شائع کیے گئے تھے جس پر پوری دنیا میں مسلمانوں میں غم و غصہ پھیل گیا تھا اور شدید احتجاج ریکارڈ کیا گیا تھا۔
اس واقعے کے کچھ روز بعد ہی فرانس کے ایک اسکول میں ایک استاد نے آزادی اظہار رائے کے سبق کے دوران متنازع فرانسیسی میگزین چارلی ہیبڈو کے 2006 میں شائع کردہ گستاخانہ خاکے دکھائے تھے۔
جس کے چند روز بعد یعنی 16 اکتوبر کو 18 سالہ نوجوان نے مذکورہ استاد کا سر قلم کردیا تھا جسے پولیس نے جائے وقوع پر ہی گولی مار کر قتل کردیا تھا اور اس معاملے کو دہشت گرد تنظیم سے منسلک کیا گیا تھا۔
مذکورہ واقعے کے بعد فرانسیسی صدر نے گستاخانہ خاکے دکھانے والے استاد کو شہری اعزاز سے نوازا تھا جس پر پوری دنیا اور خاص طور پر مسلمان ممالک کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آیا تھا جس میں فرانسیسی سامان کا بائیکاٹ بھی شامل ہے۔
27 اکتوبر کو خیبرپختونخوا کے شہر پشاور کے ایک مدرسے میں تعلیم کے دوران دھماکے سے 8 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔
یہ دھماکا مقامی وقت کے مطابق صبح ساڑھے آٹھ بجے ہوا۔
ابتدائی تحقیقات کے مطابق یہ امپرووائزڈ ایکسپلوزو ڈیوائس (آئی ای ڈی) دھماکا تھا جس میں 5 سے 6 کلو دھماکا خیز مواد استعمال کیا گیا تھا۔
دھماکے میں جاں بحق ہونے والوں میں 4 طالبعلم بھی تھے جن کی عمریں 15 سے 25 سال کے درمیان تھیں۔
فرانس میں مزید حملے
29 اکتوبر کو فرانس کے شہر نائس میں نوٹری ڈیم ڈی نائس پر چھریوں کے وار سے 3 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
بعد ازاں حملہ آور کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا تھا۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون اور نائس کے میئر کرسچن ایسٹروسی اسے بھیایک دہشت گرد حملہ قرار دیا جو انتہا پسندی کی وجہ سے پیش آیا۔
2 نومبر کو کابل یونیورسٹی کے کیمپس میں عسکریت پسندوں نے فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں 19 طلبہ ہلاک اور 22 دیگر زخمی ہوگئے تھے۔
علاوہ ازیں اس حملے کے دوران مسلح افراد کا مقامی سیکیورٹی فورسز کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا تھا جبکہ لڑائی میں 3 دہشت گرد ہلاک ہوگئے تھے۔
داعش (صوبہ خراسان) نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
3 نومبر کو آسٹریا کے دارالحکومت ویانا کے وسطی علاقے میں مسلح افراد نے 6 مختلف مقامات پر فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں ایک خاتون سمیت 4 افراد ہلاک اور 17 زخمی ہوگئے تھے۔
رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ 2 میں سے ایک مسلح حملہ آور کو پولیس نے گولی مار کر ہلاک کردیا تھا جبکہ ایک فرار ہوگیا تھا۔
آسٹرین وزیر داخلہ نے شبہے کا اظہار کیا تھا کہ ایک حملہ آور داعش کا حامی تھا، انہوں نے بتایا تھا کہ حملہ کرنے کا مقصد آسٹریا کے جمہوری معاشرے کو کمزور اور تقسیم کرنا تھا۔
آسٹریا کے چانسلر سباستیان کرس نے اس حملے کو ’نفرت انگیز دہشت گردی‘ قرار دیا تھا۔
نائیجیریا کے شمال مشرق میں کھیت کے مزدوروں پر بوکو حرام کے دہشت گردوں کی جانب سے کیے گئے حملے میں 110 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے رابطہ کار ایڈورڈ کیلن نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس حملے میں 110 شہری بے رحمی سے قتل کر دیے گئے اور متعدد دیگر زخمی ہوئے تھے۔
بوکو حرام کے جنگجوؤں کی جانب سے کیے گئے حملے میں ابتدائی طور پر 43 افراد کی ہلاکت کی اطلاع ملی اور پھر مزید 70 افراد کے قتل کی تصدیق ہوئی تھی۔
6 مارچ کو کابل میں ہزارہ رہنما عبدالعلی مزاری کی یاد میں منعقدہ تقریب میں مسلح افراد نے حملہ کیا تھا۔
تقریب میں متعدد اعلیٰ سطح کے سیاست دانوں نے شرکت کی تھی جس میں کم از کم 32 افراد ہلاک اور 60 سے زیادہ زخمی ہوگئے تھے۔
پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے 2 حملہ آوروں کو ہلاک کردیا تھا۔
حملے کی ذمہ داری داعش (خراسان) نے قبول کی تھی۔
6 اپریل کو بامبا کے شہر مالی میں موٹر سائیکلوں پر سوار بندوق بردار افراد نے فوجی اڈے پر حملہ کیا تھا۔
اس حملے میں 25 فوجی ہلاک اور 6 زخمی ہوئے جبکہ فوجیوں نے 12 حملہ آوروں کو ہلاک کردیا تھا۔
جماعت النصر الاسلام والمسلمین نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
7 اپریل کو افغانستان کے دارالحکومت کابل میں داعش کے جنگجو نے سکھ گردوارہ پر حملہ کیا تھا۔
حملے کے نتیجے میں 25 عبادت گزار ہلاک اور 8 زخمی ہوگئے تھے۔
مسلح شخص نے کئی عبادت گزاروں کو کئی گھنٹوں تک یرغمال بھی بنائے رکھا جس کے بعد افغانستان کی خصوصی فورسز نے بین الاقوامی افواج کی مدد سے عمارت کو خالی کرایا جس میں کم از کم ایک کم عمر حملہ آور ہلاک ہوگیا تھا۔
حملے کے چند گھنٹوں بعد ہی داعش نے اس کی ذمہ داری قبول کرلی تھی۔
28 اپریل کو جنگ زدہ ملک شام کے شہر آفرین میں مارکیٹ اور سرکاری وزارت کے قریب موجود ایک ایندھن سے بھرا ہوا ٹینکر دستی بم کے نتیجے میں پھٹ گیا تھا۔
دھماکے میں کم از کم 53 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں 11 بچے اور 6 ترکی سے وابستہ جنگجو شامل تھے۔
ترک حکومت نے اس حملے میں وائی پی جی کو مورد الزام ٹھہرایا تھا۔
12 مئی کو افغانستان کے شہر کابل میں ہزارہ کے نواحی علاقے دشت برچی کے ایک ہسپتال کے زچگی وارڈ میں مسلح افراد نے حملہ کر کے دو نوزائیدہ بچوں اور کئی نرسوں سمیت 24 شہریوں کو ہلاک کردیا تھا۔
تینوں حملہ آور 5 گھنٹے تک جاری رہنے والی فائرنگ کے تبادلے کے بعد مارے گئے۔
ان علاقوں میں داعش سرگرم ہے اور اسی گروہ نے حالیہ مہینوں میں کابل میں بھی متعدد حملے کیے تھے۔
29 مئی کو امریکا کے شہر آکلینڈ میں ایک مظاہرے کے قریب نامعلوم مسلح افراد نے فیڈرل پروٹیکٹو سروس کے 2 اہلکاروں پر فائرنگ کی تھی۔
فائرنگ کے نتیجے میں ایک افسر ہلاک اور دوسرا زخمی ہوا گیا تھا۔
ہوم لینڈ سیکیورٹی کے محکمے نے اس حملے کو 'ڈومیسٹک دہشت گردی' کی ایک کارروائی قرار دیا تھا۔
بعد ازاں اس حملے میں دائیں بازو سے منسلک دو مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔
29 جون کو پاکستان کے معاشی حب قرار دیئے جانے والے شہر کراچی میں دہشت گردوں نے دستی بموں اور خودکار رائفلوں کے ساتھ پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی عمارت پر حملہ کیا تھا۔
حملے میں 3 سیکیورٹی گارڈز اور ایک پولیس سب انسپکٹر شہید جبکہ 7 افراد زخمی ہوگئے تھے۔
پولیس کی بروقت کارروائی میں چاروں حملہ آور ہلاک ہوگئے تھے، بعد ازاں بلوچستان لبریشن آرمی نے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
24 اگست کو فلپائن کے شہر جولو میں پیراڈائز فوڈ پلازہ کے باہر ایک فوجی ٹرک کے قریب موٹرسائیکل بم پھٹا تھا جس کے نتیجے میں 6 فوجی، 6 شہری اور ایک پولیس افسر ہلاک ہوگیا تھا۔
اس واقعے کے ایک گھنٹے کے بعد ایک خاتون خودکش بمبار نے فلپائن کے ڈیولپمنٹ بینک کی شاخ کے سامنے خود کو دھماکے سے اڑا دیا تھا، جس میں ایک فوجی ہلاک ہوگیا تھا۔
بم دھماکوں میں مجموعی طور پر 78 افراد زخمی ہوئے تھے تاہم اگلے دن داعش نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
25 ستمبر کو فرانس کے شہر پیرس میں طنزیہ رسالہ چارلی ہیبڈو کے سابق صدر دفاتر کے باہر چھریوں کے وار سے 4 افراد زخمی ہوگئے تھے۔
جس کے بعد پولیس نے 7 افراد کو گرفتار کرکے تحویل میں لیا جبکہ حکام نے اسے دہشت گردی کا واقعہ قرار دیا تھا۔
چارلی ہیبڈو کی جانب سے پیغمبر آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کے گستاخانہ خاکے شائع کیے گئے تھے جس پر پوری دنیا میں مسلمانوں میں غم و غصہ پھیل گیا تھا اور شدید احتجاج ریکارڈ کیا گیا تھا۔
اس واقعے کے کچھ روز بعد ہی فرانس کے ایک اسکول میں ایک استاد نے آزادی اظہار رائے کے سبق کے دوران متنازع فرانسیسی میگزین چارلی ہیبڈو کے 2006 میں شائع کردہ گستاخانہ خاکے دکھائے تھے۔
جس کے چند روز بعد یعنی 16 اکتوبر کو 18 سالہ نوجوان نے مذکورہ استاد کا سر قلم کردیا تھا جسے پولیس نے جائے وقوع پر ہی گولی مار کر قتل کردیا تھا اور اس معاملے کو دہشت گرد تنظیم سے منسلک کیا گیا تھا۔
مذکورہ واقعے کے بعد فرانسیسی صدر نے گستاخانہ خاکے دکھانے والے استاد کو شہری اعزاز سے نوازا تھا جس پر پوری دنیا اور خاص طور پر مسلمان ممالک کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آیا تھا جس میں فرانسیسی سامان کا بائیکاٹ بھی شامل ہے۔
27 اکتوبر کو خیبرپختونخوا کے شہر پشاور کے ایک مدرسے میں تعلیم کے دوران دھماکے سے 8 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔
یہ دھماکا مقامی وقت کے مطابق صبح ساڑھے آٹھ بجے ہوا۔
ابتدائی تحقیقات کے مطابق یہ امپرووائزڈ ایکسپلوزو ڈیوائس (آئی ای ڈی) دھماکا تھا جس میں 5 سے 6 کلو دھماکا خیز مواد استعمال کیا گیا تھا۔
دھماکے میں جاں بحق ہونے والوں میں 4 طالبعلم بھی تھے جن کی عمریں 15 سے 25 سال کے درمیان تھیں۔
فرانس میں مزید حملے
29 اکتوبر کو فرانس کے شہر نائس میں نوٹری ڈیم ڈی نائس پر چھریوں کے وار سے 3 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
بعد ازاں حملہ آور کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا تھا۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون اور نائس کے میئر کرسچن ایسٹروسی اسے بھیایک دہشت گرد حملہ قرار دیا جو انتہا پسندی کی وجہ سے پیش آیا۔
2 نومبر کو کابل یونیورسٹی کے کیمپس میں عسکریت پسندوں نے فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں 19 طلبہ ہلاک اور 22 دیگر زخمی ہوگئے تھے۔
علاوہ ازیں اس حملے کے دوران مسلح افراد کا مقامی سیکیورٹی فورسز کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا تھا جبکہ لڑائی میں 3 دہشت گرد ہلاک ہوگئے تھے۔
داعش (صوبہ خراسان) نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
3 نومبر کو آسٹریا کے دارالحکومت ویانا کے وسطی علاقے میں مسلح افراد نے 6 مختلف مقامات پر فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں ایک خاتون سمیت 4 افراد ہلاک اور 17 زخمی ہوگئے تھے۔
رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ 2 میں سے ایک مسلح حملہ آور کو پولیس نے گولی مار کر ہلاک کردیا تھا جبکہ ایک فرار ہوگیا تھا۔
آسٹرین وزیر داخلہ نے شبہے کا اظہار کیا تھا کہ ایک حملہ آور داعش کا حامی تھا، انہوں نے بتایا تھا کہ حملہ کرنے کا مقصد آسٹریا کے جمہوری معاشرے کو کمزور اور تقسیم کرنا تھا۔
آسٹریا کے چانسلر سباستیان کرس نے اس حملے کو ’نفرت انگیز دہشت گردی‘ قرار دیا تھا۔
نائیجیریا کے شمال مشرق میں کھیت کے مزدوروں پر بوکو حرام کے دہشت گردوں کی جانب سے کیے گئے حملے میں 110 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے رابطہ کار ایڈورڈ کیلن نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس حملے میں 110 شہری بے رحمی سے قتل کر دیے گئے اور متعدد دیگر زخمی ہوئے تھے۔
بوکو حرام کے جنگجوؤں کی جانب سے کیے گئے حملے میں ابتدائی طور پر 43 افراد کی ہلاکت کی اطلاع ملی اور پھر مزید 70 افراد کے قتل کی تصدیق ہوئی تھی۔
6 اپریل کو بامبا کے شہر مالی میں موٹر سائیکلوں پر سوار بندوق بردار افراد نے فوجی اڈے پر حملہ کیا تھا۔
اس حملے میں 25 فوجی ہلاک اور 6 زخمی ہوئے جبکہ فوجیوں نے 12 حملہ آوروں کو ہلاک کردیا تھا۔
جماعت النصر الاسلام والمسلمین نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
7 اپریل کو افغانستان کے دارالحکومت کابل میں داعش کے جنگجو نے سکھ گردوارہ پر حملہ کیا تھا۔
حملے کے نتیجے میں 25 عبادت گزار ہلاک اور 8 زخمی ہوگئے تھے۔
مسلح شخص نے کئی عبادت گزاروں کو کئی گھنٹوں تک یرغمال بھی بنائے رکھا جس کے بعد افغانستان کی خصوصی فورسز نے بین الاقوامی افواج کی مدد سے عمارت کو خالی کرایا جس میں کم از کم ایک کم عمر حملہ آور ہلاک ہوگیا تھا۔
حملے کے چند گھنٹوں بعد ہی داعش نے اس کی ذمہ داری قبول کرلی تھی۔
28 اپریل کو جنگ زدہ ملک شام کے شہر آفرین میں مارکیٹ اور سرکاری وزارت کے قریب موجود ایک ایندھن سے بھرا ہوا ٹینکر دستی بم کے نتیجے میں پھٹ گیا تھا۔
دھماکے میں کم از کم 53 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں 11 بچے اور 6 ترکی سے وابستہ جنگجو شامل تھے۔
ترک حکومت نے اس حملے میں وائی پی جی کو مورد الزام ٹھہرایا تھا۔
12 مئی کو افغانستان کے شہر کابل میں ہزارہ کے نواحی علاقے دشت برچی کے ایک ہسپتال کے زچگی وارڈ میں مسلح افراد نے حملہ کر کے دو نوزائیدہ بچوں اور کئی نرسوں سمیت 24 شہریوں کو ہلاک کردیا تھا۔
تینوں حملہ آور 5 گھنٹے تک جاری رہنے والی فائرنگ کے تبادلے کے بعد مارے گئے۔
ان علاقوں میں داعش سرگرم ہے اور اسی گروہ نے حالیہ مہینوں میں کابل میں بھی متعدد حملے کیے تھے۔
29 مئی کو امریکا کے شہر آکلینڈ میں ایک مظاہرے کے قریب نامعلوم مسلح افراد نے فیڈرل پروٹیکٹو سروس کے 2 اہلکاروں پر فائرنگ کی تھی۔
فائرنگ کے نتیجے میں ایک افسر ہلاک اور دوسرا زخمی ہوا گیا تھا۔
ہوم لینڈ سیکیورٹی کے محکمے نے اس حملے کو 'ڈومیسٹک دہشت گردی' کی ایک کارروائی قرار دیا تھا۔
بعد ازاں اس حملے میں دائیں بازو سے منسلک دو مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔
29 جون کو پاکستان کے معاشی حب قرار دیئے جانے والے شہر کراچی میں دہشت گردوں نے دستی بموں اور خودکار رائفلوں کے ساتھ پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی عمارت پر حملہ کیا تھا۔
حملے میں 3 سیکیورٹی گارڈز اور ایک پولیس سب انسپکٹر شہید جبکہ 7 افراد زخمی ہوگئے تھے۔
پولیس کی بروقت کارروائی میں چاروں حملہ آور ہلاک ہوگئے تھے، بعد ازاں بلوچستان لبریشن آرمی نے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
24 اگست کو فلپائن کے شہر جولو میں پیراڈائز فوڈ پلازہ کے باہر ایک فوجی ٹرک کے قریب موٹرسائیکل بم پھٹا تھا جس کے نتیجے میں 6 فوجی، 6 شہری اور ایک پولیس افسر ہلاک ہوگیا تھا۔
اس واقعے کے ایک گھنٹے کے بعد ایک خاتون خودکش بمبار نے فلپائن کے ڈیولپمنٹ بینک کی شاخ کے سامنے خود کو دھماکے سے اڑا دیا تھا، جس میں ایک فوجی ہلاک ہوگیا تھا۔
بم دھماکوں میں مجموعی طور پر 78 افراد زخمی ہوئے تھے تاہم اگلے دن داعش نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
25 ستمبر کو فرانس کے شہر پیرس میں طنزیہ رسالہ چارلی ہیبڈو کے سابق صدر دفاتر کے باہر چھریوں کے وار سے 4 افراد زخمی ہوگئے تھے۔
جس کے بعد پولیس نے 7 افراد کو گرفتار کرکے تحویل میں لیا جبکہ حکام نے اسے دہشت گردی کا واقعہ قرار دیا تھا۔
چارلی ہیبڈو کی جانب سے پیغمبر آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کے گستاخانہ خاکے شائع کیے گئے تھے جس پر پوری دنیا میں مسلمانوں میں غم و غصہ پھیل گیا تھا اور شدید احتجاج ریکارڈ کیا گیا تھا۔
اس واقعے کے کچھ روز بعد ہی فرانس کے ایک اسکول میں ایک استاد نے آزادی اظہار رائے کے سبق کے دوران متنازع فرانسیسی میگزین چارلی ہیبڈو کے 2006 میں شائع کردہ گستاخانہ خاکے دکھائے تھے۔
جس کے چند روز بعد یعنی 16 اکتوبر کو 18 سالہ نوجوان نے مذکورہ استاد کا سر قلم کردیا تھا جسے پولیس نے جائے وقوع پر ہی گولی مار کر قتل کردیا تھا اور اس معاملے کو دہشت گرد تنظیم سے منسلک کیا گیا تھا۔
مذکورہ واقعے کے بعد فرانسیسی صدر نے گستاخانہ خاکے دکھانے والے استاد کو شہری اعزاز سے نوازا تھا جس پر پوری دنیا اور خاص طور پر مسلمان ممالک کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آیا تھا جس میں فرانسیسی سامان کا بائیکاٹ بھی شامل ہے۔
27 اکتوبر کو خیبرپختونخوا کے شہر پشاور کے ایک مدرسے میں تعلیم کے دوران دھماکے سے 8 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔
یہ دھماکا مقامی وقت کے مطابق صبح ساڑھے آٹھ بجے ہوا۔
ابتدائی تحقیقات کے مطابق یہ امپرووائزڈ ایکسپلوزو ڈیوائس (آئی ای ڈی) دھماکا تھا جس میں 5 سے 6 کلو دھماکا خیز مواد استعمال کیا گیا تھا۔
دھماکے میں جاں بحق ہونے والوں میں 4 طالبعلم بھی تھے جن کی عمریں 15 سے 25 سال کے درمیان تھیں۔
فرانس میں مزید حملے
29 اکتوبر کو فرانس کے شہر نائس میں نوٹری ڈیم ڈی نائس پر چھریوں کے وار سے 3 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
بعد ازاں حملہ آور کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا تھا۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون اور نائس کے میئر کرسچن ایسٹروسی اسے بھیایک دہشت گرد حملہ قرار دیا جو انتہا پسندی کی وجہ سے پیش آیا۔
2 نومبر کو کابل یونیورسٹی کے کیمپس میں عسکریت پسندوں نے فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں 19 طلبہ ہلاک اور 22 دیگر زخمی ہوگئے تھے۔
علاوہ ازیں اس حملے کے دوران مسلح افراد کا مقامی سیکیورٹی فورسز کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا تھا جبکہ لڑائی میں 3 دہشت گرد ہلاک ہوگئے تھے۔
داعش (صوبہ خراسان) نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
3 نومبر کو آسٹریا کے دارالحکومت ویانا کے وسطی علاقے میں مسلح افراد نے 6 مختلف مقامات پر فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں ایک خاتون سمیت 4 افراد ہلاک اور 17 زخمی ہوگئے تھے۔
رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ 2 میں سے ایک مسلح حملہ آور کو پولیس نے گولی مار کر ہلاک کردیا تھا جبکہ ایک فرار ہوگیا تھا۔
آسٹرین وزیر داخلہ نے شبہے کا اظہار کیا تھا کہ ایک حملہ آور داعش کا حامی تھا، انہوں نے بتایا تھا کہ حملہ کرنے کا مقصد آسٹریا کے جمہوری معاشرے کو کمزور اور تقسیم کرنا تھا۔
آسٹریا کے چانسلر سباستیان کرس نے اس حملے کو ’نفرت انگیز دہشت گردی‘ قرار دیا تھا۔
نائیجیریا کے شمال مشرق میں کھیت کے مزدوروں پر بوکو حرام کے دہشت گردوں کی جانب سے کیے گئے حملے میں 110 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے رابطہ کار ایڈورڈ کیلن نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس حملے میں 110 شہری بے رحمی سے قتل کر دیے گئے اور متعدد دیگر زخمی ہوئے تھے۔
بوکو حرام کے جنگجوؤں کی جانب سے کیے گئے حملے میں ابتدائی طور پر 43 افراد کی ہلاکت کی اطلاع ملی اور پھر مزید 70 افراد کے قتل کی تصدیق ہوئی تھی۔
7 اپریل کو افغانستان کے دارالحکومت کابل میں داعش کے جنگجو نے سکھ گردوارہ پر حملہ کیا تھا۔
حملے کے نتیجے میں 25 عبادت گزار ہلاک اور 8 زخمی ہوگئے تھے۔
مسلح شخص نے کئی عبادت گزاروں کو کئی گھنٹوں تک یرغمال بھی بنائے رکھا جس کے بعد افغانستان کی خصوصی فورسز نے بین الاقوامی افواج کی مدد سے عمارت کو خالی کرایا جس میں کم از کم ایک کم عمر حملہ آور ہلاک ہوگیا تھا۔
حملے کے چند گھنٹوں بعد ہی داعش نے اس کی ذمہ داری قبول کرلی تھی۔
28 اپریل کو جنگ زدہ ملک شام کے شہر آفرین میں مارکیٹ اور سرکاری وزارت کے قریب موجود ایک ایندھن سے بھرا ہوا ٹینکر دستی بم کے نتیجے میں پھٹ گیا تھا۔
دھماکے میں کم از کم 53 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں 11 بچے اور 6 ترکی سے وابستہ جنگجو شامل تھے۔
ترک حکومت نے اس حملے میں وائی پی جی کو مورد الزام ٹھہرایا تھا۔
12 مئی کو افغانستان کے شہر کابل میں ہزارہ کے نواحی علاقے دشت برچی کے ایک ہسپتال کے زچگی وارڈ میں مسلح افراد نے حملہ کر کے دو نوزائیدہ بچوں اور کئی نرسوں سمیت 24 شہریوں کو ہلاک کردیا تھا۔
تینوں حملہ آور 5 گھنٹے تک جاری رہنے والی فائرنگ کے تبادلے کے بعد مارے گئے۔
ان علاقوں میں داعش سرگرم ہے اور اسی گروہ نے حالیہ مہینوں میں کابل میں بھی متعدد حملے کیے تھے۔
29 مئی کو امریکا کے شہر آکلینڈ میں ایک مظاہرے کے قریب نامعلوم مسلح افراد نے فیڈرل پروٹیکٹو سروس کے 2 اہلکاروں پر فائرنگ کی تھی۔
فائرنگ کے نتیجے میں ایک افسر ہلاک اور دوسرا زخمی ہوا گیا تھا۔
ہوم لینڈ سیکیورٹی کے محکمے نے اس حملے کو 'ڈومیسٹک دہشت گردی' کی ایک کارروائی قرار دیا تھا۔
بعد ازاں اس حملے میں دائیں بازو سے منسلک دو مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔
29 جون کو پاکستان کے معاشی حب قرار دیئے جانے والے شہر کراچی میں دہشت گردوں نے دستی بموں اور خودکار رائفلوں کے ساتھ پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی عمارت پر حملہ کیا تھا۔
حملے میں 3 سیکیورٹی گارڈز اور ایک پولیس سب انسپکٹر شہید جبکہ 7 افراد زخمی ہوگئے تھے۔
پولیس کی بروقت کارروائی میں چاروں حملہ آور ہلاک ہوگئے تھے، بعد ازاں بلوچستان لبریشن آرمی نے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
24 اگست کو فلپائن کے شہر جولو میں پیراڈائز فوڈ پلازہ کے باہر ایک فوجی ٹرک کے قریب موٹرسائیکل بم پھٹا تھا جس کے نتیجے میں 6 فوجی، 6 شہری اور ایک پولیس افسر ہلاک ہوگیا تھا۔
اس واقعے کے ایک گھنٹے کے بعد ایک خاتون خودکش بمبار نے فلپائن کے ڈیولپمنٹ بینک کی شاخ کے سامنے خود کو دھماکے سے اڑا دیا تھا، جس میں ایک فوجی ہلاک ہوگیا تھا۔
بم دھماکوں میں مجموعی طور پر 78 افراد زخمی ہوئے تھے تاہم اگلے دن داعش نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
25 ستمبر کو فرانس کے شہر پیرس میں طنزیہ رسالہ چارلی ہیبڈو کے سابق صدر دفاتر کے باہر چھریوں کے وار سے 4 افراد زخمی ہوگئے تھے۔
جس کے بعد پولیس نے 7 افراد کو گرفتار کرکے تحویل میں لیا جبکہ حکام نے اسے دہشت گردی کا واقعہ قرار دیا تھا۔
چارلی ہیبڈو کی جانب سے پیغمبر آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کے گستاخانہ خاکے شائع کیے گئے تھے جس پر پوری دنیا میں مسلمانوں میں غم و غصہ پھیل گیا تھا اور شدید احتجاج ریکارڈ کیا گیا تھا۔
اس واقعے کے کچھ روز بعد ہی فرانس کے ایک اسکول میں ایک استاد نے آزادی اظہار رائے کے سبق کے دوران متنازع فرانسیسی میگزین چارلی ہیبڈو کے 2006 میں شائع کردہ گستاخانہ خاکے دکھائے تھے۔
جس کے چند روز بعد یعنی 16 اکتوبر کو 18 سالہ نوجوان نے مذکورہ استاد کا سر قلم کردیا تھا جسے پولیس نے جائے وقوع پر ہی گولی مار کر قتل کردیا تھا اور اس معاملے کو دہشت گرد تنظیم سے منسلک کیا گیا تھا۔
مذکورہ واقعے کے بعد فرانسیسی صدر نے گستاخانہ خاکے دکھانے والے استاد کو شہری اعزاز سے نوازا تھا جس پر پوری دنیا اور خاص طور پر مسلمان ممالک کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آیا تھا جس میں فرانسیسی سامان کا بائیکاٹ بھی شامل ہے۔
27 اکتوبر کو خیبرپختونخوا کے شہر پشاور کے ایک مدرسے میں تعلیم کے دوران دھماکے سے 8 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔
یہ دھماکا مقامی وقت کے مطابق صبح ساڑھے آٹھ بجے ہوا۔
ابتدائی تحقیقات کے مطابق یہ امپرووائزڈ ایکسپلوزو ڈیوائس (آئی ای ڈی) دھماکا تھا جس میں 5 سے 6 کلو دھماکا خیز مواد استعمال کیا گیا تھا۔
دھماکے میں جاں بحق ہونے والوں میں 4 طالبعلم بھی تھے جن کی عمریں 15 سے 25 سال کے درمیان تھیں۔
فرانس میں مزید حملے
29 اکتوبر کو فرانس کے شہر نائس میں نوٹری ڈیم ڈی نائس پر چھریوں کے وار سے 3 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
بعد ازاں حملہ آور کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا تھا۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون اور نائس کے میئر کرسچن ایسٹروسی اسے بھیایک دہشت گرد حملہ قرار دیا جو انتہا پسندی کی وجہ سے پیش آیا۔
2 نومبر کو کابل یونیورسٹی کے کیمپس میں عسکریت پسندوں نے فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں 19 طلبہ ہلاک اور 22 دیگر زخمی ہوگئے تھے۔
علاوہ ازیں اس حملے کے دوران مسلح افراد کا مقامی سیکیورٹی فورسز کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا تھا جبکہ لڑائی میں 3 دہشت گرد ہلاک ہوگئے تھے۔
داعش (صوبہ خراسان) نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
3 نومبر کو آسٹریا کے دارالحکومت ویانا کے وسطی علاقے میں مسلح افراد نے 6 مختلف مقامات پر فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں ایک خاتون سمیت 4 افراد ہلاک اور 17 زخمی ہوگئے تھے۔
رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ 2 میں سے ایک مسلح حملہ آور کو پولیس نے گولی مار کر ہلاک کردیا تھا جبکہ ایک فرار ہوگیا تھا۔
آسٹرین وزیر داخلہ نے شبہے کا اظہار کیا تھا کہ ایک حملہ آور داعش کا حامی تھا، انہوں نے بتایا تھا کہ حملہ کرنے کا مقصد آسٹریا کے جمہوری معاشرے کو کمزور اور تقسیم کرنا تھا۔
آسٹریا کے چانسلر سباستیان کرس نے اس حملے کو ’نفرت انگیز دہشت گردی‘ قرار دیا تھا۔
نائیجیریا کے شمال مشرق میں کھیت کے مزدوروں پر بوکو حرام کے دہشت گردوں کی جانب سے کیے گئے حملے میں 110 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے رابطہ کار ایڈورڈ کیلن نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس حملے میں 110 شہری بے رحمی سے قتل کر دیے گئے اور متعدد دیگر زخمی ہوئے تھے۔
بوکو حرام کے جنگجوؤں کی جانب سے کیے گئے حملے میں ابتدائی طور پر 43 افراد کی ہلاکت کی اطلاع ملی اور پھر مزید 70 افراد کے قتل کی تصدیق ہوئی تھی۔
28 اپریل کو جنگ زدہ ملک شام کے شہر آفرین میں مارکیٹ اور سرکاری وزارت کے قریب موجود ایک ایندھن سے بھرا ہوا ٹینکر دستی بم کے نتیجے میں پھٹ گیا تھا۔
دھماکے میں کم از کم 53 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں 11 بچے اور 6 ترکی سے وابستہ جنگجو شامل تھے۔
ترک حکومت نے اس حملے میں وائی پی جی کو مورد الزام ٹھہرایا تھا۔
12 مئی کو افغانستان کے شہر کابل میں ہزارہ کے نواحی علاقے دشت برچی کے ایک ہسپتال کے زچگی وارڈ میں مسلح افراد نے حملہ کر کے دو نوزائیدہ بچوں اور کئی نرسوں سمیت 24 شہریوں کو ہلاک کردیا تھا۔
تینوں حملہ آور 5 گھنٹے تک جاری رہنے والی فائرنگ کے تبادلے کے بعد مارے گئے۔
ان علاقوں میں داعش سرگرم ہے اور اسی گروہ نے حالیہ مہینوں میں کابل میں بھی متعدد حملے کیے تھے۔
29 مئی کو امریکا کے شہر آکلینڈ میں ایک مظاہرے کے قریب نامعلوم مسلح افراد نے فیڈرل پروٹیکٹو سروس کے 2 اہلکاروں پر فائرنگ کی تھی۔
فائرنگ کے نتیجے میں ایک افسر ہلاک اور دوسرا زخمی ہوا گیا تھا۔
ہوم لینڈ سیکیورٹی کے محکمے نے اس حملے کو 'ڈومیسٹک دہشت گردی' کی ایک کارروائی قرار دیا تھا۔
بعد ازاں اس حملے میں دائیں بازو سے منسلک دو مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔
29 جون کو پاکستان کے معاشی حب قرار دیئے جانے والے شہر کراچی میں دہشت گردوں نے دستی بموں اور خودکار رائفلوں کے ساتھ پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی عمارت پر حملہ کیا تھا۔
حملے میں 3 سیکیورٹی گارڈز اور ایک پولیس سب انسپکٹر شہید جبکہ 7 افراد زخمی ہوگئے تھے۔
پولیس کی بروقت کارروائی میں چاروں حملہ آور ہلاک ہوگئے تھے، بعد ازاں بلوچستان لبریشن آرمی نے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
24 اگست کو فلپائن کے شہر جولو میں پیراڈائز فوڈ پلازہ کے باہر ایک فوجی ٹرک کے قریب موٹرسائیکل بم پھٹا تھا جس کے نتیجے میں 6 فوجی، 6 شہری اور ایک پولیس افسر ہلاک ہوگیا تھا۔
اس واقعے کے ایک گھنٹے کے بعد ایک خاتون خودکش بمبار نے فلپائن کے ڈیولپمنٹ بینک کی شاخ کے سامنے خود کو دھماکے سے اڑا دیا تھا، جس میں ایک فوجی ہلاک ہوگیا تھا۔
بم دھماکوں میں مجموعی طور پر 78 افراد زخمی ہوئے تھے تاہم اگلے دن داعش نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
25 ستمبر کو فرانس کے شہر پیرس میں طنزیہ رسالہ چارلی ہیبڈو کے سابق صدر دفاتر کے باہر چھریوں کے وار سے 4 افراد زخمی ہوگئے تھے۔
جس کے بعد پولیس نے 7 افراد کو گرفتار کرکے تحویل میں لیا جبکہ حکام نے اسے دہشت گردی کا واقعہ قرار دیا تھا۔
چارلی ہیبڈو کی جانب سے پیغمبر آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کے گستاخانہ خاکے شائع کیے گئے تھے جس پر پوری دنیا میں مسلمانوں میں غم و غصہ پھیل گیا تھا اور شدید احتجاج ریکارڈ کیا گیا تھا۔
اس واقعے کے کچھ روز بعد ہی فرانس کے ایک اسکول میں ایک استاد نے آزادی اظہار رائے کے سبق کے دوران متنازع فرانسیسی میگزین چارلی ہیبڈو کے 2006 میں شائع کردہ گستاخانہ خاکے دکھائے تھے۔
جس کے چند روز بعد یعنی 16 اکتوبر کو 18 سالہ نوجوان نے مذکورہ استاد کا سر قلم کردیا تھا جسے پولیس نے جائے وقوع پر ہی گولی مار کر قتل کردیا تھا اور اس معاملے کو دہشت گرد تنظیم سے منسلک کیا گیا تھا۔
مذکورہ واقعے کے بعد فرانسیسی صدر نے گستاخانہ خاکے دکھانے والے استاد کو شہری اعزاز سے نوازا تھا جس پر پوری دنیا اور خاص طور پر مسلمان ممالک کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آیا تھا جس میں فرانسیسی سامان کا بائیکاٹ بھی شامل ہے۔
27 اکتوبر کو خیبرپختونخوا کے شہر پشاور کے ایک مدرسے میں تعلیم کے دوران دھماکے سے 8 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔
یہ دھماکا مقامی وقت کے مطابق صبح ساڑھے آٹھ بجے ہوا۔
ابتدائی تحقیقات کے مطابق یہ امپرووائزڈ ایکسپلوزو ڈیوائس (آئی ای ڈی) دھماکا تھا جس میں 5 سے 6 کلو دھماکا خیز مواد استعمال کیا گیا تھا۔
دھماکے میں جاں بحق ہونے والوں میں 4 طالبعلم بھی تھے جن کی عمریں 15 سے 25 سال کے درمیان تھیں۔
فرانس میں مزید حملے
29 اکتوبر کو فرانس کے شہر نائس میں نوٹری ڈیم ڈی نائس پر چھریوں کے وار سے 3 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
بعد ازاں حملہ آور کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا تھا۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون اور نائس کے میئر کرسچن ایسٹروسی اسے بھیایک دہشت گرد حملہ قرار دیا جو انتہا پسندی کی وجہ سے پیش آیا۔
2 نومبر کو کابل یونیورسٹی کے کیمپس میں عسکریت پسندوں نے فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں 19 طلبہ ہلاک اور 22 دیگر زخمی ہوگئے تھے۔
علاوہ ازیں اس حملے کے دوران مسلح افراد کا مقامی سیکیورٹی فورسز کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا تھا جبکہ لڑائی میں 3 دہشت گرد ہلاک ہوگئے تھے۔
داعش (صوبہ خراسان) نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
3 نومبر کو آسٹریا کے دارالحکومت ویانا کے وسطی علاقے میں مسلح افراد نے 6 مختلف مقامات پر فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں ایک خاتون سمیت 4 افراد ہلاک اور 17 زخمی ہوگئے تھے۔
رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ 2 میں سے ایک مسلح حملہ آور کو پولیس نے گولی مار کر ہلاک کردیا تھا جبکہ ایک فرار ہوگیا تھا۔
آسٹرین وزیر داخلہ نے شبہے کا اظہار کیا تھا کہ ایک حملہ آور داعش کا حامی تھا، انہوں نے بتایا تھا کہ حملہ کرنے کا مقصد آسٹریا کے جمہوری معاشرے کو کمزور اور تقسیم کرنا تھا۔
آسٹریا کے چانسلر سباستیان کرس نے اس حملے کو ’نفرت انگیز دہشت گردی‘ قرار دیا تھا۔
نائیجیریا کے شمال مشرق میں کھیت کے مزدوروں پر بوکو حرام کے دہشت گردوں کی جانب سے کیے گئے حملے میں 110 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے رابطہ کار ایڈورڈ کیلن نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس حملے میں 110 شہری بے رحمی سے قتل کر دیے گئے اور متعدد دیگر زخمی ہوئے تھے۔
بوکو حرام کے جنگجوؤں کی جانب سے کیے گئے حملے میں ابتدائی طور پر 43 افراد کی ہلاکت کی اطلاع ملی اور پھر مزید 70 افراد کے قتل کی تصدیق ہوئی تھی۔
12 مئی کو افغانستان کے شہر کابل میں ہزارہ کے نواحی علاقے دشت برچی کے ایک ہسپتال کے زچگی وارڈ میں مسلح افراد نے حملہ کر کے دو نوزائیدہ بچوں اور کئی نرسوں سمیت 24 شہریوں کو ہلاک کردیا تھا۔
تینوں حملہ آور 5 گھنٹے تک جاری رہنے والی فائرنگ کے تبادلے کے بعد مارے گئے۔
ان علاقوں میں داعش سرگرم ہے اور اسی گروہ نے حالیہ مہینوں میں کابل میں بھی متعدد حملے کیے تھے۔
29 مئی کو امریکا کے شہر آکلینڈ میں ایک مظاہرے کے قریب نامعلوم مسلح افراد نے فیڈرل پروٹیکٹو سروس کے 2 اہلکاروں پر فائرنگ کی تھی۔
فائرنگ کے نتیجے میں ایک افسر ہلاک اور دوسرا زخمی ہوا گیا تھا۔
ہوم لینڈ سیکیورٹی کے محکمے نے اس حملے کو 'ڈومیسٹک دہشت گردی' کی ایک کارروائی قرار دیا تھا۔
بعد ازاں اس حملے میں دائیں بازو سے منسلک دو مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔
29 جون کو پاکستان کے معاشی حب قرار دیئے جانے والے شہر کراچی میں دہشت گردوں نے دستی بموں اور خودکار رائفلوں کے ساتھ پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی عمارت پر حملہ کیا تھا۔
حملے میں 3 سیکیورٹی گارڈز اور ایک پولیس سب انسپکٹر شہید جبکہ 7 افراد زخمی ہوگئے تھے۔
پولیس کی بروقت کارروائی میں چاروں حملہ آور ہلاک ہوگئے تھے، بعد ازاں بلوچستان لبریشن آرمی نے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
24 اگست کو فلپائن کے شہر جولو میں پیراڈائز فوڈ پلازہ کے باہر ایک فوجی ٹرک کے قریب موٹرسائیکل بم پھٹا تھا جس کے نتیجے میں 6 فوجی، 6 شہری اور ایک پولیس افسر ہلاک ہوگیا تھا۔
اس واقعے کے ایک گھنٹے کے بعد ایک خاتون خودکش بمبار نے فلپائن کے ڈیولپمنٹ بینک کی شاخ کے سامنے خود کو دھماکے سے اڑا دیا تھا، جس میں ایک فوجی ہلاک ہوگیا تھا۔
بم دھماکوں میں مجموعی طور پر 78 افراد زخمی ہوئے تھے تاہم اگلے دن داعش نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
25 ستمبر کو فرانس کے شہر پیرس میں طنزیہ رسالہ چارلی ہیبڈو کے سابق صدر دفاتر کے باہر چھریوں کے وار سے 4 افراد زخمی ہوگئے تھے۔
جس کے بعد پولیس نے 7 افراد کو گرفتار کرکے تحویل میں لیا جبکہ حکام نے اسے دہشت گردی کا واقعہ قرار دیا تھا۔
چارلی ہیبڈو کی جانب سے پیغمبر آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کے گستاخانہ خاکے شائع کیے گئے تھے جس پر پوری دنیا میں مسلمانوں میں غم و غصہ پھیل گیا تھا اور شدید احتجاج ریکارڈ کیا گیا تھا۔
اس واقعے کے کچھ روز بعد ہی فرانس کے ایک اسکول میں ایک استاد نے آزادی اظہار رائے کے سبق کے دوران متنازع فرانسیسی میگزین چارلی ہیبڈو کے 2006 میں شائع کردہ گستاخانہ خاکے دکھائے تھے۔
جس کے چند روز بعد یعنی 16 اکتوبر کو 18 سالہ نوجوان نے مذکورہ استاد کا سر قلم کردیا تھا جسے پولیس نے جائے وقوع پر ہی گولی مار کر قتل کردیا تھا اور اس معاملے کو دہشت گرد تنظیم سے منسلک کیا گیا تھا۔
مذکورہ واقعے کے بعد فرانسیسی صدر نے گستاخانہ خاکے دکھانے والے استاد کو شہری اعزاز سے نوازا تھا جس پر پوری دنیا اور خاص طور پر مسلمان ممالک کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آیا تھا جس میں فرانسیسی سامان کا بائیکاٹ بھی شامل ہے۔
27 اکتوبر کو خیبرپختونخوا کے شہر پشاور کے ایک مدرسے میں تعلیم کے دوران دھماکے سے 8 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔
یہ دھماکا مقامی وقت کے مطابق صبح ساڑھے آٹھ بجے ہوا۔
ابتدائی تحقیقات کے مطابق یہ امپرووائزڈ ایکسپلوزو ڈیوائس (آئی ای ڈی) دھماکا تھا جس میں 5 سے 6 کلو دھماکا خیز مواد استعمال کیا گیا تھا۔
دھماکے میں جاں بحق ہونے والوں میں 4 طالبعلم بھی تھے جن کی عمریں 15 سے 25 سال کے درمیان تھیں۔
فرانس میں مزید حملے
29 اکتوبر کو فرانس کے شہر نائس میں نوٹری ڈیم ڈی نائس پر چھریوں کے وار سے 3 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
بعد ازاں حملہ آور کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا تھا۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون اور نائس کے میئر کرسچن ایسٹروسی اسے بھیایک دہشت گرد حملہ قرار دیا جو انتہا پسندی کی وجہ سے پیش آیا۔
2 نومبر کو کابل یونیورسٹی کے کیمپس میں عسکریت پسندوں نے فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں 19 طلبہ ہلاک اور 22 دیگر زخمی ہوگئے تھے۔
علاوہ ازیں اس حملے کے دوران مسلح افراد کا مقامی سیکیورٹی فورسز کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا تھا جبکہ لڑائی میں 3 دہشت گرد ہلاک ہوگئے تھے۔
داعش (صوبہ خراسان) نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
3 نومبر کو آسٹریا کے دارالحکومت ویانا کے وسطی علاقے میں مسلح افراد نے 6 مختلف مقامات پر فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں ایک خاتون سمیت 4 افراد ہلاک اور 17 زخمی ہوگئے تھے۔
رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ 2 میں سے ایک مسلح حملہ آور کو پولیس نے گولی مار کر ہلاک کردیا تھا جبکہ ایک فرار ہوگیا تھا۔
آسٹرین وزیر داخلہ نے شبہے کا اظہار کیا تھا کہ ایک حملہ آور داعش کا حامی تھا، انہوں نے بتایا تھا کہ حملہ کرنے کا مقصد آسٹریا کے جمہوری معاشرے کو کمزور اور تقسیم کرنا تھا۔
آسٹریا کے چانسلر سباستیان کرس نے اس حملے کو ’نفرت انگیز دہشت گردی‘ قرار دیا تھا۔
نائیجیریا کے شمال مشرق میں کھیت کے مزدوروں پر بوکو حرام کے دہشت گردوں کی جانب سے کیے گئے حملے میں 110 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے رابطہ کار ایڈورڈ کیلن نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس حملے میں 110 شہری بے رحمی سے قتل کر دیے گئے اور متعدد دیگر زخمی ہوئے تھے۔
بوکو حرام کے جنگجوؤں کی جانب سے کیے گئے حملے میں ابتدائی طور پر 43 افراد کی ہلاکت کی اطلاع ملی اور پھر مزید 70 افراد کے قتل کی تصدیق ہوئی تھی۔
29 مئی کو امریکا کے شہر آکلینڈ میں ایک مظاہرے کے قریب نامعلوم مسلح افراد نے فیڈرل پروٹیکٹو سروس کے 2 اہلکاروں پر فائرنگ کی تھی۔
فائرنگ کے نتیجے میں ایک افسر ہلاک اور دوسرا زخمی ہوا گیا تھا۔
ہوم لینڈ سیکیورٹی کے محکمے نے اس حملے کو 'ڈومیسٹک دہشت گردی' کی ایک کارروائی قرار دیا تھا۔
بعد ازاں اس حملے میں دائیں بازو سے منسلک دو مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔
29 جون کو پاکستان کے معاشی حب قرار دیئے جانے والے شہر کراچی میں دہشت گردوں نے دستی بموں اور خودکار رائفلوں کے ساتھ پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی عمارت پر حملہ کیا تھا۔
حملے میں 3 سیکیورٹی گارڈز اور ایک پولیس سب انسپکٹر شہید جبکہ 7 افراد زخمی ہوگئے تھے۔
پولیس کی بروقت کارروائی میں چاروں حملہ آور ہلاک ہوگئے تھے، بعد ازاں بلوچستان لبریشن آرمی نے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
24 اگست کو فلپائن کے شہر جولو میں پیراڈائز فوڈ پلازہ کے باہر ایک فوجی ٹرک کے قریب موٹرسائیکل بم پھٹا تھا جس کے نتیجے میں 6 فوجی، 6 شہری اور ایک پولیس افسر ہلاک ہوگیا تھا۔
اس واقعے کے ایک گھنٹے کے بعد ایک خاتون خودکش بمبار نے فلپائن کے ڈیولپمنٹ بینک کی شاخ کے سامنے خود کو دھماکے سے اڑا دیا تھا، جس میں ایک فوجی ہلاک ہوگیا تھا۔
بم دھماکوں میں مجموعی طور پر 78 افراد زخمی ہوئے تھے تاہم اگلے دن داعش نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
25 ستمبر کو فرانس کے شہر پیرس میں طنزیہ رسالہ چارلی ہیبڈو کے سابق صدر دفاتر کے باہر چھریوں کے وار سے 4 افراد زخمی ہوگئے تھے۔
جس کے بعد پولیس نے 7 افراد کو گرفتار کرکے تحویل میں لیا جبکہ حکام نے اسے دہشت گردی کا واقعہ قرار دیا تھا۔
چارلی ہیبڈو کی جانب سے پیغمبر آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کے گستاخانہ خاکے شائع کیے گئے تھے جس پر پوری دنیا میں مسلمانوں میں غم و غصہ پھیل گیا تھا اور شدید احتجاج ریکارڈ کیا گیا تھا۔
اس واقعے کے کچھ روز بعد ہی فرانس کے ایک اسکول میں ایک استاد نے آزادی اظہار رائے کے سبق کے دوران متنازع فرانسیسی میگزین چارلی ہیبڈو کے 2006 میں شائع کردہ گستاخانہ خاکے دکھائے تھے۔
جس کے چند روز بعد یعنی 16 اکتوبر کو 18 سالہ نوجوان نے مذکورہ استاد کا سر قلم کردیا تھا جسے پولیس نے جائے وقوع پر ہی گولی مار کر قتل کردیا تھا اور اس معاملے کو دہشت گرد تنظیم سے منسلک کیا گیا تھا۔
مذکورہ واقعے کے بعد فرانسیسی صدر نے گستاخانہ خاکے دکھانے والے استاد کو شہری اعزاز سے نوازا تھا جس پر پوری دنیا اور خاص طور پر مسلمان ممالک کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آیا تھا جس میں فرانسیسی سامان کا بائیکاٹ بھی شامل ہے۔
27 اکتوبر کو خیبرپختونخوا کے شہر پشاور کے ایک مدرسے میں تعلیم کے دوران دھماکے سے 8 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔
یہ دھماکا مقامی وقت کے مطابق صبح ساڑھے آٹھ بجے ہوا۔
ابتدائی تحقیقات کے مطابق یہ امپرووائزڈ ایکسپلوزو ڈیوائس (آئی ای ڈی) دھماکا تھا جس میں 5 سے 6 کلو دھماکا خیز مواد استعمال کیا گیا تھا۔
دھماکے میں جاں بحق ہونے والوں میں 4 طالبعلم بھی تھے جن کی عمریں 15 سے 25 سال کے درمیان تھیں۔
فرانس میں مزید حملے
29 اکتوبر کو فرانس کے شہر نائس میں نوٹری ڈیم ڈی نائس پر چھریوں کے وار سے 3 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
بعد ازاں حملہ آور کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا تھا۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون اور نائس کے میئر کرسچن ایسٹروسی اسے بھیایک دہشت گرد حملہ قرار دیا جو انتہا پسندی کی وجہ سے پیش آیا۔
2 نومبر کو کابل یونیورسٹی کے کیمپس میں عسکریت پسندوں نے فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں 19 طلبہ ہلاک اور 22 دیگر زخمی ہوگئے تھے۔
علاوہ ازیں اس حملے کے دوران مسلح افراد کا مقامی سیکیورٹی فورسز کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا تھا جبکہ لڑائی میں 3 دہشت گرد ہلاک ہوگئے تھے۔
داعش (صوبہ خراسان) نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
3 نومبر کو آسٹریا کے دارالحکومت ویانا کے وسطی علاقے میں مسلح افراد نے 6 مختلف مقامات پر فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں ایک خاتون سمیت 4 افراد ہلاک اور 17 زخمی ہوگئے تھے۔
رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ 2 میں سے ایک مسلح حملہ آور کو پولیس نے گولی مار کر ہلاک کردیا تھا جبکہ ایک فرار ہوگیا تھا۔
آسٹرین وزیر داخلہ نے شبہے کا اظہار کیا تھا کہ ایک حملہ آور داعش کا حامی تھا، انہوں نے بتایا تھا کہ حملہ کرنے کا مقصد آسٹریا کے جمہوری معاشرے کو کمزور اور تقسیم کرنا تھا۔
آسٹریا کے چانسلر سباستیان کرس نے اس حملے کو ’نفرت انگیز دہشت گردی‘ قرار دیا تھا۔
نائیجیریا کے شمال مشرق میں کھیت کے مزدوروں پر بوکو حرام کے دہشت گردوں کی جانب سے کیے گئے حملے میں 110 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے رابطہ کار ایڈورڈ کیلن نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس حملے میں 110 شہری بے رحمی سے قتل کر دیے گئے اور متعدد دیگر زخمی ہوئے تھے۔
بوکو حرام کے جنگجوؤں کی جانب سے کیے گئے حملے میں ابتدائی طور پر 43 افراد کی ہلاکت کی اطلاع ملی اور پھر مزید 70 افراد کے قتل کی تصدیق ہوئی تھی۔
29 جون کو پاکستان کے معاشی حب قرار دیئے جانے والے شہر کراچی میں دہشت گردوں نے دستی بموں اور خودکار رائفلوں کے ساتھ پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی عمارت پر حملہ کیا تھا۔
حملے میں 3 سیکیورٹی گارڈز اور ایک پولیس سب انسپکٹر شہید جبکہ 7 افراد زخمی ہوگئے تھے۔
پولیس کی بروقت کارروائی میں چاروں حملہ آور ہلاک ہوگئے تھے، بعد ازاں بلوچستان لبریشن آرمی نے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
24 اگست کو فلپائن کے شہر جولو میں پیراڈائز فوڈ پلازہ کے باہر ایک فوجی ٹرک کے قریب موٹرسائیکل بم پھٹا تھا جس کے نتیجے میں 6 فوجی، 6 شہری اور ایک پولیس افسر ہلاک ہوگیا تھا۔
اس واقعے کے ایک گھنٹے کے بعد ایک خاتون خودکش بمبار نے فلپائن کے ڈیولپمنٹ بینک کی شاخ کے سامنے خود کو دھماکے سے اڑا دیا تھا، جس میں ایک فوجی ہلاک ہوگیا تھا۔
بم دھماکوں میں مجموعی طور پر 78 افراد زخمی ہوئے تھے تاہم اگلے دن داعش نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
25 ستمبر کو فرانس کے شہر پیرس میں طنزیہ رسالہ چارلی ہیبڈو کے سابق صدر دفاتر کے باہر چھریوں کے وار سے 4 افراد زخمی ہوگئے تھے۔
جس کے بعد پولیس نے 7 افراد کو گرفتار کرکے تحویل میں لیا جبکہ حکام نے اسے دہشت گردی کا واقعہ قرار دیا تھا۔
چارلی ہیبڈو کی جانب سے پیغمبر آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کے گستاخانہ خاکے شائع کیے گئے تھے جس پر پوری دنیا میں مسلمانوں میں غم و غصہ پھیل گیا تھا اور شدید احتجاج ریکارڈ کیا گیا تھا۔
اس واقعے کے کچھ روز بعد ہی فرانس کے ایک اسکول میں ایک استاد نے آزادی اظہار رائے کے سبق کے دوران متنازع فرانسیسی میگزین چارلی ہیبڈو کے 2006 میں شائع کردہ گستاخانہ خاکے دکھائے تھے۔
جس کے چند روز بعد یعنی 16 اکتوبر کو 18 سالہ نوجوان نے مذکورہ استاد کا سر قلم کردیا تھا جسے پولیس نے جائے وقوع پر ہی گولی مار کر قتل کردیا تھا اور اس معاملے کو دہشت گرد تنظیم سے منسلک کیا گیا تھا۔
مذکورہ واقعے کے بعد فرانسیسی صدر نے گستاخانہ خاکے دکھانے والے استاد کو شہری اعزاز سے نوازا تھا جس پر پوری دنیا اور خاص طور پر مسلمان ممالک کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آیا تھا جس میں فرانسیسی سامان کا بائیکاٹ بھی شامل ہے۔
27 اکتوبر کو خیبرپختونخوا کے شہر پشاور کے ایک مدرسے میں تعلیم کے دوران دھماکے سے 8 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔
یہ دھماکا مقامی وقت کے مطابق صبح ساڑھے آٹھ بجے ہوا۔
ابتدائی تحقیقات کے مطابق یہ امپرووائزڈ ایکسپلوزو ڈیوائس (آئی ای ڈی) دھماکا تھا جس میں 5 سے 6 کلو دھماکا خیز مواد استعمال کیا گیا تھا۔
دھماکے میں جاں بحق ہونے والوں میں 4 طالبعلم بھی تھے جن کی عمریں 15 سے 25 سال کے درمیان تھیں۔
فرانس میں مزید حملے
29 اکتوبر کو فرانس کے شہر نائس میں نوٹری ڈیم ڈی نائس پر چھریوں کے وار سے 3 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
بعد ازاں حملہ آور کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا تھا۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون اور نائس کے میئر کرسچن ایسٹروسی اسے بھیایک دہشت گرد حملہ قرار دیا جو انتہا پسندی کی وجہ سے پیش آیا۔
2 نومبر کو کابل یونیورسٹی کے کیمپس میں عسکریت پسندوں نے فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں 19 طلبہ ہلاک اور 22 دیگر زخمی ہوگئے تھے۔
علاوہ ازیں اس حملے کے دوران مسلح افراد کا مقامی سیکیورٹی فورسز کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا تھا جبکہ لڑائی میں 3 دہشت گرد ہلاک ہوگئے تھے۔
داعش (صوبہ خراسان) نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
3 نومبر کو آسٹریا کے دارالحکومت ویانا کے وسطی علاقے میں مسلح افراد نے 6 مختلف مقامات پر فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں ایک خاتون سمیت 4 افراد ہلاک اور 17 زخمی ہوگئے تھے۔
رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ 2 میں سے ایک مسلح حملہ آور کو پولیس نے گولی مار کر ہلاک کردیا تھا جبکہ ایک فرار ہوگیا تھا۔
آسٹرین وزیر داخلہ نے شبہے کا اظہار کیا تھا کہ ایک حملہ آور داعش کا حامی تھا، انہوں نے بتایا تھا کہ حملہ کرنے کا مقصد آسٹریا کے جمہوری معاشرے کو کمزور اور تقسیم کرنا تھا۔
آسٹریا کے چانسلر سباستیان کرس نے اس حملے کو ’نفرت انگیز دہشت گردی‘ قرار دیا تھا۔
نائیجیریا کے شمال مشرق میں کھیت کے مزدوروں پر بوکو حرام کے دہشت گردوں کی جانب سے کیے گئے حملے میں 110 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے رابطہ کار ایڈورڈ کیلن نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس حملے میں 110 شہری بے رحمی سے قتل کر دیے گئے اور متعدد دیگر زخمی ہوئے تھے۔
بوکو حرام کے جنگجوؤں کی جانب سے کیے گئے حملے میں ابتدائی طور پر 43 افراد کی ہلاکت کی اطلاع ملی اور پھر مزید 70 افراد کے قتل کی تصدیق ہوئی تھی۔
24 اگست کو فلپائن کے شہر جولو میں پیراڈائز فوڈ پلازہ کے باہر ایک فوجی ٹرک کے قریب موٹرسائیکل بم پھٹا تھا جس کے نتیجے میں 6 فوجی، 6 شہری اور ایک پولیس افسر ہلاک ہوگیا تھا۔
اس واقعے کے ایک گھنٹے کے بعد ایک خاتون خودکش بمبار نے فلپائن کے ڈیولپمنٹ بینک کی شاخ کے سامنے خود کو دھماکے سے اڑا دیا تھا، جس میں ایک فوجی ہلاک ہوگیا تھا۔
بم دھماکوں میں مجموعی طور پر 78 افراد زخمی ہوئے تھے تاہم اگلے دن داعش نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
25 ستمبر کو فرانس کے شہر پیرس میں طنزیہ رسالہ چارلی ہیبڈو کے سابق صدر دفاتر کے باہر چھریوں کے وار سے 4 افراد زخمی ہوگئے تھے۔
جس کے بعد پولیس نے 7 افراد کو گرفتار کرکے تحویل میں لیا جبکہ حکام نے اسے دہشت گردی کا واقعہ قرار دیا تھا۔
چارلی ہیبڈو کی جانب سے پیغمبر آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کے گستاخانہ خاکے شائع کیے گئے تھے جس پر پوری دنیا میں مسلمانوں میں غم و غصہ پھیل گیا تھا اور شدید احتجاج ریکارڈ کیا گیا تھا۔
اس واقعے کے کچھ روز بعد ہی فرانس کے ایک اسکول میں ایک استاد نے آزادی اظہار رائے کے سبق کے دوران متنازع فرانسیسی میگزین چارلی ہیبڈو کے 2006 میں شائع کردہ گستاخانہ خاکے دکھائے تھے۔
جس کے چند روز بعد یعنی 16 اکتوبر کو 18 سالہ نوجوان نے مذکورہ استاد کا سر قلم کردیا تھا جسے پولیس نے جائے وقوع پر ہی گولی مار کر قتل کردیا تھا اور اس معاملے کو دہشت گرد تنظیم سے منسلک کیا گیا تھا۔
مذکورہ واقعے کے بعد فرانسیسی صدر نے گستاخانہ خاکے دکھانے والے استاد کو شہری اعزاز سے نوازا تھا جس پر پوری دنیا اور خاص طور پر مسلمان ممالک کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آیا تھا جس میں فرانسیسی سامان کا بائیکاٹ بھی شامل ہے۔
27 اکتوبر کو خیبرپختونخوا کے شہر پشاور کے ایک مدرسے میں تعلیم کے دوران دھماکے سے 8 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔
یہ دھماکا مقامی وقت کے مطابق صبح ساڑھے آٹھ بجے ہوا۔
ابتدائی تحقیقات کے مطابق یہ امپرووائزڈ ایکسپلوزو ڈیوائس (آئی ای ڈی) دھماکا تھا جس میں 5 سے 6 کلو دھماکا خیز مواد استعمال کیا گیا تھا۔
دھماکے میں جاں بحق ہونے والوں میں 4 طالبعلم بھی تھے جن کی عمریں 15 سے 25 سال کے درمیان تھیں۔
فرانس میں مزید حملے
29 اکتوبر کو فرانس کے شہر نائس میں نوٹری ڈیم ڈی نائس پر چھریوں کے وار سے 3 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
بعد ازاں حملہ آور کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا تھا۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون اور نائس کے میئر کرسچن ایسٹروسی اسے بھیایک دہشت گرد حملہ قرار دیا جو انتہا پسندی کی وجہ سے پیش آیا۔
2 نومبر کو کابل یونیورسٹی کے کیمپس میں عسکریت پسندوں نے فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں 19 طلبہ ہلاک اور 22 دیگر زخمی ہوگئے تھے۔
علاوہ ازیں اس حملے کے دوران مسلح افراد کا مقامی سیکیورٹی فورسز کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا تھا جبکہ لڑائی میں 3 دہشت گرد ہلاک ہوگئے تھے۔
داعش (صوبہ خراسان) نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
3 نومبر کو آسٹریا کے دارالحکومت ویانا کے وسطی علاقے میں مسلح افراد نے 6 مختلف مقامات پر فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں ایک خاتون سمیت 4 افراد ہلاک اور 17 زخمی ہوگئے تھے۔
رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ 2 میں سے ایک مسلح حملہ آور کو پولیس نے گولی مار کر ہلاک کردیا تھا جبکہ ایک فرار ہوگیا تھا۔
آسٹرین وزیر داخلہ نے شبہے کا اظہار کیا تھا کہ ایک حملہ آور داعش کا حامی تھا، انہوں نے بتایا تھا کہ حملہ کرنے کا مقصد آسٹریا کے جمہوری معاشرے کو کمزور اور تقسیم کرنا تھا۔
آسٹریا کے چانسلر سباستیان کرس نے اس حملے کو ’نفرت انگیز دہشت گردی‘ قرار دیا تھا۔
نائیجیریا کے شمال مشرق میں کھیت کے مزدوروں پر بوکو حرام کے دہشت گردوں کی جانب سے کیے گئے حملے میں 110 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے رابطہ کار ایڈورڈ کیلن نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس حملے میں 110 شہری بے رحمی سے قتل کر دیے گئے اور متعدد دیگر زخمی ہوئے تھے۔
بوکو حرام کے جنگجوؤں کی جانب سے کیے گئے حملے میں ابتدائی طور پر 43 افراد کی ہلاکت کی اطلاع ملی اور پھر مزید 70 افراد کے قتل کی تصدیق ہوئی تھی۔
25 ستمبر کو فرانس کے شہر پیرس میں طنزیہ رسالہ چارلی ہیبڈو کے سابق صدر دفاتر کے باہر چھریوں کے وار سے 4 افراد زخمی ہوگئے تھے۔
جس کے بعد پولیس نے 7 افراد کو گرفتار کرکے تحویل میں لیا جبکہ حکام نے اسے دہشت گردی کا واقعہ قرار دیا تھا۔
چارلی ہیبڈو کی جانب سے پیغمبر آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کے گستاخانہ خاکے شائع کیے گئے تھے جس پر پوری دنیا میں مسلمانوں میں غم و غصہ پھیل گیا تھا اور شدید احتجاج ریکارڈ کیا گیا تھا۔
اس واقعے کے کچھ روز بعد ہی فرانس کے ایک اسکول میں ایک استاد نے آزادی اظہار رائے کے سبق کے دوران متنازع فرانسیسی میگزین چارلی ہیبڈو کے 2006 میں شائع کردہ گستاخانہ خاکے دکھائے تھے۔
جس کے چند روز بعد یعنی 16 اکتوبر کو 18 سالہ نوجوان نے مذکورہ استاد کا سر قلم کردیا تھا جسے پولیس نے جائے وقوع پر ہی گولی مار کر قتل کردیا تھا اور اس معاملے کو دہشت گرد تنظیم سے منسلک کیا گیا تھا۔
مذکورہ واقعے کے بعد فرانسیسی صدر نے گستاخانہ خاکے دکھانے والے استاد کو شہری اعزاز سے نوازا تھا جس پر پوری دنیا اور خاص طور پر مسلمان ممالک کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آیا تھا جس میں فرانسیسی سامان کا بائیکاٹ بھی شامل ہے۔
27 اکتوبر کو خیبرپختونخوا کے شہر پشاور کے ایک مدرسے میں تعلیم کے دوران دھماکے سے 8 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔
یہ دھماکا مقامی وقت کے مطابق صبح ساڑھے آٹھ بجے ہوا۔
ابتدائی تحقیقات کے مطابق یہ امپرووائزڈ ایکسپلوزو ڈیوائس (آئی ای ڈی) دھماکا تھا جس میں 5 سے 6 کلو دھماکا خیز مواد استعمال کیا گیا تھا۔
دھماکے میں جاں بحق ہونے والوں میں 4 طالبعلم بھی تھے جن کی عمریں 15 سے 25 سال کے درمیان تھیں۔
فرانس میں مزید حملے
29 اکتوبر کو فرانس کے شہر نائس میں نوٹری ڈیم ڈی نائس پر چھریوں کے وار سے 3 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
بعد ازاں حملہ آور کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا تھا۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون اور نائس کے میئر کرسچن ایسٹروسی اسے بھیایک دہشت گرد حملہ قرار دیا جو انتہا پسندی کی وجہ سے پیش آیا۔
2 نومبر کو کابل یونیورسٹی کے کیمپس میں عسکریت پسندوں نے فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں 19 طلبہ ہلاک اور 22 دیگر زخمی ہوگئے تھے۔
علاوہ ازیں اس حملے کے دوران مسلح افراد کا مقامی سیکیورٹی فورسز کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا تھا جبکہ لڑائی میں 3 دہشت گرد ہلاک ہوگئے تھے۔
داعش (صوبہ خراسان) نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
3 نومبر کو آسٹریا کے دارالحکومت ویانا کے وسطی علاقے میں مسلح افراد نے 6 مختلف مقامات پر فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں ایک خاتون سمیت 4 افراد ہلاک اور 17 زخمی ہوگئے تھے۔
رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ 2 میں سے ایک مسلح حملہ آور کو پولیس نے گولی مار کر ہلاک کردیا تھا جبکہ ایک فرار ہوگیا تھا۔
آسٹرین وزیر داخلہ نے شبہے کا اظہار کیا تھا کہ ایک حملہ آور داعش کا حامی تھا، انہوں نے بتایا تھا کہ حملہ کرنے کا مقصد آسٹریا کے جمہوری معاشرے کو کمزور اور تقسیم کرنا تھا۔
آسٹریا کے چانسلر سباستیان کرس نے اس حملے کو ’نفرت انگیز دہشت گردی‘ قرار دیا تھا۔
نائیجیریا کے شمال مشرق میں کھیت کے مزدوروں پر بوکو حرام کے دہشت گردوں کی جانب سے کیے گئے حملے میں 110 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے رابطہ کار ایڈورڈ کیلن نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس حملے میں 110 شہری بے رحمی سے قتل کر دیے گئے اور متعدد دیگر زخمی ہوئے تھے۔
بوکو حرام کے جنگجوؤں کی جانب سے کیے گئے حملے میں ابتدائی طور پر 43 افراد کی ہلاکت کی اطلاع ملی اور پھر مزید 70 افراد کے قتل کی تصدیق ہوئی تھی۔
27 اکتوبر کو خیبرپختونخوا کے شہر پشاور کے ایک مدرسے میں تعلیم کے دوران دھماکے سے 8 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔
یہ دھماکا مقامی وقت کے مطابق صبح ساڑھے آٹھ بجے ہوا۔
ابتدائی تحقیقات کے مطابق یہ امپرووائزڈ ایکسپلوزو ڈیوائس (آئی ای ڈی) دھماکا تھا جس میں 5 سے 6 کلو دھماکا خیز مواد استعمال کیا گیا تھا۔
دھماکے میں جاں بحق ہونے والوں میں 4 طالبعلم بھی تھے جن کی عمریں 15 سے 25 سال کے درمیان تھیں۔
فرانس میں مزید حملے
29 اکتوبر کو فرانس کے شہر نائس میں نوٹری ڈیم ڈی نائس پر چھریوں کے وار سے 3 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
بعد ازاں حملہ آور کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا تھا۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون اور نائس کے میئر کرسچن ایسٹروسی اسے بھیایک دہشت گرد حملہ قرار دیا جو انتہا پسندی کی وجہ سے پیش آیا۔
2 نومبر کو کابل یونیورسٹی کے کیمپس میں عسکریت پسندوں نے فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں 19 طلبہ ہلاک اور 22 دیگر زخمی ہوگئے تھے۔
علاوہ ازیں اس حملے کے دوران مسلح افراد کا مقامی سیکیورٹی فورسز کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا تھا جبکہ لڑائی میں 3 دہشت گرد ہلاک ہوگئے تھے۔
داعش (صوبہ خراسان) نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
3 نومبر کو آسٹریا کے دارالحکومت ویانا کے وسطی علاقے میں مسلح افراد نے 6 مختلف مقامات پر فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں ایک خاتون سمیت 4 افراد ہلاک اور 17 زخمی ہوگئے تھے۔
رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ 2 میں سے ایک مسلح حملہ آور کو پولیس نے گولی مار کر ہلاک کردیا تھا جبکہ ایک فرار ہوگیا تھا۔
آسٹرین وزیر داخلہ نے شبہے کا اظہار کیا تھا کہ ایک حملہ آور داعش کا حامی تھا، انہوں نے بتایا تھا کہ حملہ کرنے کا مقصد آسٹریا کے جمہوری معاشرے کو کمزور اور تقسیم کرنا تھا۔
آسٹریا کے چانسلر سباستیان کرس نے اس حملے کو ’نفرت انگیز دہشت گردی‘ قرار دیا تھا۔
نائیجیریا کے شمال مشرق میں کھیت کے مزدوروں پر بوکو حرام کے دہشت گردوں کی جانب سے کیے گئے حملے میں 110 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے رابطہ کار ایڈورڈ کیلن نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس حملے میں 110 شہری بے رحمی سے قتل کر دیے گئے اور متعدد دیگر زخمی ہوئے تھے۔
بوکو حرام کے جنگجوؤں کی جانب سے کیے گئے حملے میں ابتدائی طور پر 43 افراد کی ہلاکت کی اطلاع ملی اور پھر مزید 70 افراد کے قتل کی تصدیق ہوئی تھی۔
2 نومبر کو کابل یونیورسٹی کے کیمپس میں عسکریت پسندوں نے فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں 19 طلبہ ہلاک اور 22 دیگر زخمی ہوگئے تھے۔
علاوہ ازیں اس حملے کے دوران مسلح افراد کا مقامی سیکیورٹی فورسز کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا تھا جبکہ لڑائی میں 3 دہشت گرد ہلاک ہوگئے تھے۔
داعش (صوبہ خراسان) نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
3 نومبر کو آسٹریا کے دارالحکومت ویانا کے وسطی علاقے میں مسلح افراد نے 6 مختلف مقامات پر فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں ایک خاتون سمیت 4 افراد ہلاک اور 17 زخمی ہوگئے تھے۔
رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ 2 میں سے ایک مسلح حملہ آور کو پولیس نے گولی مار کر ہلاک کردیا تھا جبکہ ایک فرار ہوگیا تھا۔
آسٹرین وزیر داخلہ نے شبہے کا اظہار کیا تھا کہ ایک حملہ آور داعش کا حامی تھا، انہوں نے بتایا تھا کہ حملہ کرنے کا مقصد آسٹریا کے جمہوری معاشرے کو کمزور اور تقسیم کرنا تھا۔
آسٹریا کے چانسلر سباستیان کرس نے اس حملے کو ’نفرت انگیز دہشت گردی‘ قرار دیا تھا۔
نائیجیریا کے شمال مشرق میں کھیت کے مزدوروں پر بوکو حرام کے دہشت گردوں کی جانب سے کیے گئے حملے میں 110 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے رابطہ کار ایڈورڈ کیلن نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس حملے میں 110 شہری بے رحمی سے قتل کر دیے گئے اور متعدد دیگر زخمی ہوئے تھے۔
بوکو حرام کے جنگجوؤں کی جانب سے کیے گئے حملے میں ابتدائی طور پر 43 افراد کی ہلاکت کی اطلاع ملی اور پھر مزید 70 افراد کے قتل کی تصدیق ہوئی تھی۔
3 نومبر کو آسٹریا کے دارالحکومت ویانا کے وسطی علاقے میں مسلح افراد نے 6 مختلف مقامات پر فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں ایک خاتون سمیت 4 افراد ہلاک اور 17 زخمی ہوگئے تھے۔
رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ 2 میں سے ایک مسلح حملہ آور کو پولیس نے گولی مار کر ہلاک کردیا تھا جبکہ ایک فرار ہوگیا تھا۔
آسٹرین وزیر داخلہ نے شبہے کا اظہار کیا تھا کہ ایک حملہ آور داعش کا حامی تھا، انہوں نے بتایا تھا کہ حملہ کرنے کا مقصد آسٹریا کے جمہوری معاشرے کو کمزور اور تقسیم کرنا تھا۔
آسٹریا کے چانسلر سباستیان کرس نے اس حملے کو ’نفرت انگیز دہشت گردی‘ قرار دیا تھا۔
نائیجیریا کے شمال مشرق میں کھیت کے مزدوروں پر بوکو حرام کے دہشت گردوں کی جانب سے کیے گئے حملے میں 110 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے رابطہ کار ایڈورڈ کیلن نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس حملے میں 110 شہری بے رحمی سے قتل کر دیے گئے اور متعدد دیگر زخمی ہوئے تھے۔
بوکو حرام کے جنگجوؤں کی جانب سے کیے گئے حملے میں ابتدائی طور پر 43 افراد کی ہلاکت کی اطلاع ملی اور پھر مزید 70 افراد کے قتل کی تصدیق ہوئی تھی۔
نائیجیریا کے شمال مشرق میں کھیت کے مزدوروں پر بوکو حرام کے دہشت گردوں کی جانب سے کیے گئے حملے میں 110 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے رابطہ کار ایڈورڈ کیلن نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس حملے میں 110 شہری بے رحمی سے قتل کر دیے گئے اور متعدد دیگر زخمی ہوئے تھے۔
بوکو حرام کے جنگجوؤں کی جانب سے کیے گئے حملے میں ابتدائی طور پر 43 افراد کی ہلاکت کی اطلاع ملی اور پھر مزید 70 افراد کے قتل کی تصدیق ہوئی تھی۔