نقطہ نظر

میراڈونا اور لیاری والوں میں کیا چیز مشترک ہے؟

’خوش قسمتی سے ہمارے پاس ان کے میچوں کی ویڈیوز موجود ہیں، ہم انہیں بار بار دیکھیں گے اور ان کی یادوں کو زندہ رکھیں گے‘۔

آپ ارجنٹائن کے ایک فٹبالر کی وفات پر 15 ہزار کلومیٹر دُور کراچی کے ایک غریب محلے میں ہونے والی دعائیہ تقریبات کے حوالے سے کیا گمان کریں گے؟

محلہ بھی ایسا کہ جس کے لوگ فٹبال کے کھیل میں ارجنٹائن کے سخت حریف اور برازیل کے حمایتی ہوں۔ کیا یہ صرف اس عظیم کھلاڑی کے اعزاز میں ہو رہا ہے یا اس کے پیچھے کچھ اور بھی ہوسکتا ہے؟

صدارتی تمغہ برائے حُسنِ کارکردگی حاصل کرنے والے پاکستانی فٹبال ٹیم کے سابق کپتان علی نواز بلوچ نے ہمیں بتایا کہ ’مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں نے میراڈونا کو میدان میں کھیلتے ہوئے براہِ راست دیکھا ہے‘۔

کراچی کے قدیم علاقے لیاری سے تعلق رکھنے والے اس مشہور کھلاڑی نے 1990ء میں اٹلی میں ہونے والے فیفا ورلڈ کپ کے افتتاحی میچ میں میراڈونا کو کھیلتے ہوئے دیکھا تھا۔ اس میچ میں دفاعی چیمپئین ارجنٹائن کیمرون کے خلاف کھیل رہا تھا اور ارجنٹائن یہ میچ 0-1 سے ہار گیا تھا۔

مزید پڑھیے: آئیے، عظیم فٹبالر میراڈونا کو یاد کرتے ہیں

علی نواز بطور اسٹرائیکر کھیلتے تھے۔ ان کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اس کھیل میں متعدد ہیٹ ٹرکس اسکور کیں، اور وہ اپنی اسی خاصیت کے سبب یاد کیے جاتے ہیں۔ خاص طور پر وہ 3 ہیٹ ٹرکس جو انہوں نے ڈھاکہ محمڈنز کے لیے کھیلتے ہوئے ایک خلیجی ٹیم کے خلاف کی تھیں۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ میراڈونا کے بہت بڑے پرستار تھے۔ ’میراڈونا اپنے وقت کے بہترین کھلاڑی تھے اور انفرادی طور پر ان کا کھیل شاندار تھا۔ جب بال ان کے قبضے میں آجاتی تو ان کے قبضے میں ہی رہتی۔ اس کے بعد وہ کھیل ٹیم کا نہیں بلکہ میراڈونا کا کھیل ہوجاتا تھا‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’اس کے بعد کا ورلڈ کپ امریکا میں منعقد ہوا۔ میراڈونا ڈوپ ٹیسٹ میں فیل ہوگئے اور ورلڈ کپ سے بھی باہر ہوگئے۔ میری رائے میں ان کی معطلی ان کے کیریئر کے اختتام کا آغاز تھا‘۔

ہم نے علی نواز سے سوال پوچھا کہ میراڈونا کے اتنے بڑے پرستار ہونے کے ناطے، کیا انہیں مایوسی ہوئی تھی کہ میراڈونا ممنوعہ مواد کے استعمال کے سبب پکڑے گئے؟ انہوں نے جواب کہ ’ہم ان کے کھیل کے مداح تھے، ہم نے باقی چیزوں پر توجہ نہیں دی۔ مجھے آج بھی یاد ہے کس طرح وہ 4 یا 5 کھلاڑیوں سے بال کو بچا کر لے جاتے تھے۔ لیکن ہاں، 1994ء کے دوران میں نے بھی تبدیلی محسوس کی تھی، لیکن پھر انہیں اس کی سزا بھی ملی‘۔

ہم نے پھر سوال کیا کہ اس سے پہلے کے واقعات جیسے ’Hand of God‘ کہلائے جانے والے اس گول کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جو انہوں نے 1986ء کے ورلڈ کپ میں برطانیہ کے خلاف کیا تھا؟

علی نواز نے ڈٹ کر جواب دیا کہ ’دیکھیں، اس کے لیے آپ میراڈونا کو الزام نہیں دے سکتے۔ یہ ان کا قصور نہیں تھا۔ ٹھیک ہے کہ کھلاڑی بے ایمانی کرتے ہیں لیکن بے ایمانی پر نظر رکھنے کے لیے نظام موجود ہے۔ نہ ہی کسی کھلاڑی اور نہ ہی ریفری نے اس وقت ایسا کچھ دیکھا۔ اس کے لیے میچ ریفری اور آفیشلز ذمہ دار ہیں۔ میراڈونا اس کے ذمے دار نہیں ہیں، انہوں نے تو یہ بات منظرِ عام پر آنے کے بعد وضاحت پیش کردی تھی‘۔

شاید ارجنٹائن کی طرح پاکستانی بھی سابقہ نوآبادیاتی طاقت کو ملنے والے صلے کو پسند کرتے ہیں۔

علی نواز نے مزید کہا کہ ’کوئی بھی خامیوں سے پاک نہیں ہوتا، میراڈونا بھی نہیں تھے۔ بلکہ انہی خامیوں کی وجہ سے انہوں نے لیاری والوں کے دل میں جگہ بنائی۔ میراڈونا گورے نہیں تھے، وہ شروع سے ہی امیر نہیں تھے، انہوں نے جو کچھ کمایا اس کھیل سے ہی کمایا اور آخر میں انہیں نشے کی وجہ سے کھیل چھوڑنا پڑا، لیاری کے نوجوان بھی ان چیزوں سے پہچانے جاتے ہیں‘۔

پاکستانی فٹبال ٹیم کے موجودہ کپتان صدام حسین کا تعلق تو کراچی کے علاقے ملیر سے ہے لیکن قومی ٹیم میں منتخب ہونے سے پہلے وہ لیاری کے فٹبال کلبوں کی جانب سے کھیلتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ فٹبال کلب ایف سی ڈورڈئی بشکیک کی جانب سے بھی کھیلتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آج تک مقامی اور غیر ملکی فٹبالر میراڈونا کے کھیلنے کی پرانی ویڈیو دیکھتے ہیں۔ ’میراڈونا کی صلاحیتیں بہت متاثر کن تھیں، اور ہم ان کو دیکھ کر بہت کچھ سیکھے ہیں‘۔

صدام نے بتایا کہ ’میچ سے پہلے وارم اپ کے دوران ہم جہاں رونالڈو اور میسی کے اسٹائل کی نقل کرتے ہیں، وہیں میراڈونا کے اسٹائل کو بھی کاپی کرتے ہیں۔ ہم ان کے پرانے انٹرویوز بھی پڑھا اور دیکھا کرتے تھے اور ان میں سے دلچسپ چیزیں اپنے ساتھیوں کو بتاتے تھے‘۔

صدام نے ہنستے ہوئے کہا کہ ’پاکستان میں ہم اکثر ریتیلے میدانوں میں کھیلتے ہیں اور میراڈونا نے ایک مرتبہ کہا تھا اگر انہوں نے کسی شادی میں سفید سوٹ بھی پہنا ہوا ہو تو تب بھی وہ اپنے سینے سے بال روکنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے۔ وہ ایسے جملوں سے ہمارے دل جیت لیتے‘۔

’دیکھا جائے تو ہم لیاری اور ملیر والے بھی ایسے ہی ہیں۔ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو میراڈونا کے جارحانہ کھیل اور منکسر مزاجی کے بارے میں بتائیں گے۔ دیکھیں، میراڈونا جانتے تھے کہ وہ کیا ہیں اور ان سے ہماری محبت غیر مشروط ہے’۔

ہم سے ٹیلی فو پر بات کرتے ہوئے چمن سے تعلق رکھنے والے سابق پاکستانی کپتان محمد عیسیٰ نے ہمیں بتایا کہ وہ میراڈونا کی وفات کا سن کر بہت افسردہ ہوئے۔ ’ہم ان کا کھیل یاد رکھیں گے۔ خوش قسمتی سے ہمارے پاس ان کے میچوں کی ویڈیوز موجود ہیں، ہم انہیں بار بار دیکھیں گے اور ان کی یادوں کو زندہ رکھیں گے‘۔

ناصر کریم بلوچ ضلع جنوبی کی فٹبال ایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین اور پاکستان فٹبال فیڈریشن کی ایگزیکٹیو باڈی کے سابق رکن ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میراڈونا کی وفات لیاری اور ملیر کے فٹبال کلبوں کے لیے افسوسناک ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ دونوں علاقے پاکستان میں فٹبال کے بریڈنگ گراؤنڈ تصور کیے جاتے ہیں۔ یہاں کے لوگ برازیل کے دیوانے ہیں لیکن ان میں سے بہت سے ارجنٹائن کی بھی حمایت کرتے ہیں۔ برازیل سے تعلق رکھنے والے پیلے اور ارجنٹائن کے میراڈونا ان کے حقیقی ہیرو تھے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ میراڈونا نے ہی ان کی توجہ ارجنٹائن کی جانب مرکوز کی‘۔

ناصر کریم مزید کہتے ہیں کہ ’میراڈونا جیسے کھلاڑی روز روز پیدا نہیں ہوتے۔ اپنی ٹیم کے لیے تن تنہا میچ جیتنے کے لیے میراڈونا کا طریقہ انہیں دوسروں سے ممتاز کرتا تھا۔ وہ ون مین شو تھے، میدان کے اندر بھی اور میدان کے باہر بھی‘۔

ناصر نے مزید کہا کہ ’میراڈونا نے شاید ہر طرح کے کام کیے، انہوں نے ارجنٹائن کے مارکسسٹ چے گویرا کی حمایت کی اور اس ذریعے سے ہم لیاری اور ملیر والوں کو چے گویرا کا علم ہوا۔ کیونکہ ہم میراڈونا کے پیچھے چلتے تھے اور انہوں نے جو کچھ بھی کیا، ان کے کھیل نے فٹبال شائقین کی نظروں میں ان کی عزت برقرار رکھی‘۔

’ظاہر ہے کہ ہماری نئی نسل کے فٹبالر رونالڈو اور میسی کے زیادہ دیوانے ہیں، لیکن فٹبال کے پرانے شائقین کی جانب سے میراڈونا کی وفات کے بعد ان کی یاد میں یہاں کئی دعائیہ تقریبات کا اہتمام کیا گیا۔ کلب میچوں کے آغاز سے قبل ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔ اس طرح ہم نے نئی نسل کو اس عظیم کھلاڑی سے روشناس کروایا۔

’پرانے میچوں کی ریکارڈنگ، خاص طور پر 1986ء کے ورلڈ کپ کی ویڈیو گلیوں، محلوں اور چوکوں چوراہوں پر بڑی اسکرین پر دکھائی گئی اور لوگوں کو میراڈونا کے بارے میں آگاہ کیا گیا، اور اب وہ ان کے بارے میں مزید جاننا چاہتے ہیں‘۔

شازیہ حسن

لکھاری ڈان اسٹاف ممبر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔