پاکستان

فیصل آباد: گھریلو ملازمہ پر تشدد کے الزام میں ایک شخص گرفتار

صدف کی رانا منیر کے بچوں کے ساتھ لڑائی ہوئی تھی جس کے بعد اس پر تشدد کیا گیا، پولیس
|

فیصل آباد: مدینہ ٹاؤن پولیس نے ایڈن ویلی ہاؤسنگ اسکیم میں ایک کم سن لڑکی پر تشدد کے الزام میں ایک خاتون اور ایک مرد کے خلاف مقدمہ درج کرکے مرکزی ملزم کو گرفتار کرلیا۔

سوشل میڈیا پر ہفتہ کے روز 11 سالہ گھریلو ملازمہ صدف پر تشدد کی ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں ایک لڑکے، اس کی والدہ اور انکل، جن کی شناخت رانا منیر کے نام سے ہوئی، انہیں سڑک پر ایک لڑکی کو مارتے اور دھکا دیتے دیکھا گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پولیس کا کہنا تھا کہ صدف کی رانا منیر کے بچوں کے ساتھ لڑائی ہوئی تھی جس کے بعد اس پر تشدد کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: ملازمہ تشدد کیس: لیڈی ڈاکٹر 3 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے

ملزمان کے خلاف مقدمہ فیصل آباد چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو کی چائلڈ پروٹیکشن افسر ثمینہ نادر کی شکایت پر پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کی دفعہ 34 اور 328 اے کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

ثمینہ نادر نے کہا کہ شہری نے سی پی اینڈ ڈبلیو بی کی ہیلپ لائن پر کال کی تھی اور تشدد کی ویڈیو بھی شیئر کی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ تشدد کا واقعہ 3 دسمبر کو پیش آیا۔

پنجاب پولیس نے ٹوئٹر پر ایک پیغام میں ملزم کی گرفتاری کی تصدیق کی۔

سٹی پولیس افسر سہیل چوہدری نے کہا کہ ملزم رانا منیر کو گرفتار کرلیا گیا ہے جبکہ لڑکی کو اس کے والدین کے حوالے کردیا گیا۔

مزید پڑھیں: گھریلو ملازمہ کے ساتھ جنسی زیادتی و تشدد، 3 خواتین سمیت 7 افراد کے خلاف مقدمہ درج

پولیس افسر نے کہا کہ تشدد کا شکار بننے والی گھریلو ملازمہ کو انصاف فراہم کیا جائے گا۔

قبل ازیں رواں برس یکم جنوری کو چونگ پولیس نے نوجوان ملازمہ کی ہلاکت کے سلسلے میں خاتون ڈاکٹر اور ان کے شوہر کو گرفتار کیا تھا جس کی موت مبینہ طور پر گھر کے اندر ہونے والے تشدد کے باعث ہوئی تھی۔

تفتیشی افسر کے مطابق ڈاکٹر حمیرا نے کچھ روز قبل ثنا کو بیلن سے شدید تشدد کا نشانہ بنایا تھا جس کے باعث اس کے جسم پر خطرناک زخم آئے تھے جس کی وجہ سیڑھیوں سے گرنا قرار دیا اور مناسب علاج نہ ہونے کے باعث وہ دم توڑ گئی۔

قبل ازیں 17 مئی 2019 کو چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو نے مالکن کی جانب سے تشدد کا نشانہ بننے والی 10 سالہ گھریلو ملازمہ کو لاہور کے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کے ایک گھر سے بازیاب کروا کر مالکن کو گرفتار کیا تھا۔

علاوہ ازیں گزشتہ برس جنوری میں گھریلو ملازمہ عظمیٰ کو مالکن نے اپنی بیٹی کی پلیٹ سے نوالہ اٹھانے پر بطور سزا ایک بڑے چمچے سے حملہ کیا، جس سے عظمیٰ کو سر پر شدید زخم آئے اور وہ بیہوش ہوگئی۔

13 جنوری کو پیش آنے والے اس واقعے کے بعد اندرونی طور پر خون بہنے کے باوجود عظمیٰ کو ہسپتال منتقل نہیں کیا گیا اور اہل خانہ نے اسے ایک کمرے میں رکھا جہاں 16 جنوری کو اس نے زخموں کی تاب نہ لا کر دم توڑدیا۔

بعد ازاں ایک اور رات میں اہل خانہ نے لڑکی کی لاش کو علامہ اقبال ٹاؤن کی مون مارکیٹ کے قریب نالی میں پھینک دیا تھا جس کے ملنے کے بعد کی گئی تفتیش کے تناظر میں تین خواتین کو گرفتار کیا گیا تھا۔

اس سے قبل 20 اکتوبر 2018 کو راولپنڈی میں 11 سالہ بچی پر تشدد کا واقعہ سامنے آیا تھا جس کے الزام میں خاتون فوجی افسر اور ان کے شوہر کے خلاف پولیس نے مقدمہ درج کیا تھا۔

اسی طرح 28 اکتوبر 2018 کو لاہور میں پولیس نے 11 سالہ ملازمہ کو گرم استری سے تشدد کا نشانہ بنانے پر میاں بیوی کو گرفتار کیا تھا۔

پولیس کے مطابق 11 سالہ بچی چائنہ اسکیم کے علاقے میں اعجاز نامی شخص کے گھر ملازمت کرتی تھی جہاں اسے مبینہ طور پر گرم استری سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

27 دسمبر 2016 کو اسلام آباد کی گھریلو ملازمہ طیبہ پر مالکان کی جانب سے بہیمانہ تشدد کا واقعہ سامنے آیا تھا جس کے خلاف طویل قانونی کارروائی کی گئی تو بچی کے والدین نے ملزمان کو معاف کردیا تھا۔

بچی کے بیان کے مطابق چائے والی ڈوئی سے مار کر ہاتھ جلایا گیا، پھر پانی کی ٹنکی سے باندھ دیا گیا میڈیکل بورڈ کے مطابق بچی کے 22 زخم پرانے اور تین زخم نئے تھے۔

اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے واقعے کا ازخود نوٹس لے کر اسے جاری رکھا اور 8 مئی کو اس کا فیصلہ محفوظ کیا گیا تھا۔

نیب کو عالمی سطح پر بلیک لسٹ کرواؤں گا، ڈپٹی چیئرمین سینیٹ

'ڈنک' ڈرامے کے پوسٹر پر کرکٹر بین ڈنک کا بلال عباس کو ہیئر کٹ کا مشورہ

بھارت دہشت گردی سےمتعلق پاکستانی ڈوزیئر کا جواب دینے میں ناکام رہا، وزیر خارجہ