نقطہ نظر

بابر اعظم کو اس کا حق دیجیے، اور فیب فائیو میں اسے شامل کیجیے!

شائقین اور کرکٹ گرو کہتے ہیں کہ بابر کو شامل کرتے ہوئے اس حلقے کو 5 بیٹسمینوں تک پھیلا دیا جائے اور اسے فیب فائیو کا نام دیا جائے۔

یہ ہر کھیل کی خاصیت ہے کہ اس میں کسی خاص دور میں بہترین کارکردگی دکھانے والے کھلاڑیوں کو ایک الگ مقام حاصل ہوتا ہے، اور ایسا ہی کچھ کرکٹ کے کھیل میں بھی ہوتا آرہا ہے۔ 80ء کی دہائی کے دوران دنیائے کرکٹ پر 4 آل راؤنڈرز چھائے ہوئے تھے اور انہیں ایک خاص مقام حاصل تھا۔

اگر انگلینڈ کے پاس ای این بوتھم تھے تو نیوزی لینڈ کے پاس رچرڈ ہیڈلی تھے، انڈیا کے پاس کپیل دیو اور پاکستان کے پاس عمران خان موجود تھے۔ چاروں بہترین فاسٹ باؤلر ہونے کے ساتھ ساتھ عمدہ بیٹسمین بھی تھے۔ چاروں سیدھے ہاتھ کے فاسٹ باؤلر تھے لیکن اس کے باوجود ایک دوسرے سے کافی مختلف تھے۔ رچرڈ ہیڈلی باؤلنگ میں سب سے بہتر تھے تو بیٹنگ میں سب سے کمزور بھی تھے۔

اگر اسی دور میں اپنا نام بنانے والے بیٹمینوں کا ذکر کریں تو ویسٹ انڈیز کے ویوین رچرڈز، انڈیا کے سنیل گاوسکر اور پاکستان کے جاوید میانداد کا چرچا تھا۔ اگرچہ تینوں بالکل مختلف طرز کے بیٹسمین تھے لیکن تینوں بہت کامیاب رہے اور اپنی ٹیم کی کامیابیوں میں نہایت اہم ترین کردار بھی تھے۔

90ء کی دہائی میں باؤلرز میں وسیم اکرم، وقار یونس، کرٹلی امبروز، کارنٹنی والش، ایلن ڈونالڈ اور گلین میگراتھ تھے تو بیٹسمینوں میں سچن ٹنڈولکر اور برائن لارا کا طوطی بولتا تھا۔ ان دونوں کا موازنہ پہلے سعید انور اور مارک وا سے بھی ہوتا رہا لیکن پھر سعید انور اور مارک وا پیچھے رہ گئے اور سچن اور لارا آگے نکل گئے۔ سچن ٹنڈولکر تو ریکارڈز کی دنیا میں بھی بہت آگے نکل گئے لیکن پھر بھی برائن لارا سے ان کا موازنہ جاری رہا اور بہت سے لوگ لارا کو بہتر بیٹسمین سمجھتے تھے، بلکہ اب بھی سمجھتے ہیں۔

پھر رکی پونٹنگ اور کمار سنگاکارا کا دور آیا اور آج کل ویرات کوہلی، اسٹیو اسمتھ، کین ولیمسن اور جوئے روٹ کا دور چل رہا ہے۔ اس بار ان 4 بہترین بیٹسمینوں کو فیب فور کا خطاب بھی دے دیا گیا۔

پرانے لیجنڈز کی طرح ان چاروں کے کھیل کا انداز بھی الگ الگ ہے، کوئی جارحانہ کھیل پیش کرتا ہے تو کوئی پُرسکون انداز میں کھیلنا پسند کرتا ہے، کوئی ون ڈے اور ٹی20 میں بہترین ہے تو کوئی ٹیسٹ کرکٹ میں، لیکن چاروں اپنی اپنی ٹیم کے بہترین بیٹسمین ہیں۔

ایک وقت تھا کہ چاروں اپنی ٹیم کے کپتان بھی تھے لیکن پھر اسمتھ پابندی کے بعد کپتانی برقرار نہیں رکھ سکے اور روٹ کی کپتانی صرف ٹیسٹ کرکٹ تک محدود رہ گئی۔

بابر اعظم کی بین الاقوامی کرکٹ میں آمد 2015ء میں ہوئی اور 2016ء سے بابر ون ڈے اور ٹی20 میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کررہے ہیں لیکن بابر اعظم کو ماہرین کی نظر میں صحیح شناخت گزشتہ 2 سال میں اس وقت حاصل ہوئی جب انہوں نے ٹیسٹ کرکٹ میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنا شروع کیا۔

مزید پڑھیے: بابر اعظم پہلی بار ٹاپ10 ٹیسٹ بلے بازوں کی فہرست میں شامل

بابر اعظم ون ڈے کرکٹ میں سنچریاں تو بنارہے تھے اور ٹی20 میں بھی بہترین کارکردگی پیش کررہے تھے لیکن ٹیسٹ کرکٹ میں ہونے والی ناکامیاں انہیں کرکٹ کا ایک بڑا نام بننے سے روکے ہوئے تھی۔ بابر کی ٹیسٹ کرکٹ میں مسلسل ناکامی کے بعد شاید انہیں اس فارمیٹ سے باہر نکال دیا جاتا لیکن اس وقت کے کوچ مکی آرتھر کو بابر کی صلاحیتوں پر مکمل یقین تھا۔

2018ء کے دورہ انگلینڈ میں لارڈز کے تاریخی میدان پر بابر ایک بہترین اننگ کھیل رہے تھے اور ایسا لگ رہا تھا کہ شاید وہ اپنی پہلی سنچری مکمل کرلیں گے لیکن بین اسٹوکس کے ایک باؤنسر نے ناصرف بابر کو سنچری سے محروم کر دیا بلکہ چند ماہ کے لیے کرکٹ سے بھی دُور کر دیا۔

لیکن پھر بابر اعظم نے اسی سال نیوزی لینڈ کے خلاف اپنی پہلی ٹیسٹ سنچری بنا ڈالی۔ پھر دورہ جنوبی افریقہ میں بھی انہوں نے اپنی فارم برقرار رکھی۔ بات یہیں پر نہیں رکی بلکہ دورہ آسٹریلیا، جہاں بڑے بڑے نام گھبرا جاتے ہیں، وہاں بھی بابر نے اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے اور ٹیسٹ کرکٹ کی اپنی دوسری ٹیسٹ سنچری بھی وہیں بنائی۔

ان مشکل محاذوں پر جب بابر کامیاب رہے تو بھلا سری لنکا اور بنگلہ دیش جیسے نسبتاً کمزور حریفوں کو وہ کیسے چھوڑتے، لہٰذا ان کے خلاف بھی بابر نے سنچریاں بنائیں اور کسی حد تک ثابت کردیا کہ وہ ٹیسٹ کرکٹ میں بھی ایک کامیاب بیٹسمین بن چکے ہیں۔

گزشتہ تین سالوں میں بابر اعظم نے ناصرف ون ڈے اور ٹی20 بلکہ ٹیسٹ کرکٹ میں بھی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ بابر کی اس عرصے میں کارکردگی فیب فور میں شامل تمام بیٹسمینوں کے مقابلے کی رہی ہے۔

آئیے اب اس عرصے میں بابر کی کارکردگی کا موازنہ ان چاروں بہترین بیٹسمینوں سے کرکے دیکھتے ہیں۔


ٹیسٹ کرکٹ


جوئے روٹ

جوئے روٹ نے گزشتہ 3 سالوں میں 33 ٹیسٹ میچ کھیلتے ہوئے 2263 رنز بنائے، جن میں صرف 4 سنچریاں اسکور کیں، جبکہ ان کا اوسط بھی 40 سے کم رہا۔

اسٹیو اسمتھ

اسی دوران اسٹیو اسمتھ نے 13 ٹیسٹ میچوں میں 3 سنچریوں اور 60 کی اوسط سے 1253 رنز بنائے۔

کین ولیمسن

کین ولیمسن نے 17 ٹیسٹ میچوں میں 4 سنچریوں اور 53 کی اوسط کے ساتھ 1262 رنز بنائے۔

ویرات کوہلی

اور ویرات کوہلی نے 23 ٹیسٹ میچوں میں 7 سنچریوں اور 53 کی اوسط سے 1972 رنز بنائے

بابر اعظم

جبکہ اسی دورانیے میں بابر اعظم نے 18 ٹیسٹ میچوں میں 62 کی اوسط سے 1570 رنز بنائے، جبکہ انہوں نے 5 سنچریاں بھی بنائیں۔


ون ڈے کرکٹ


جوئے روٹ

ون ڈے کرکٹ میں جوئے روٹ نے 52 میچوں میں 50 کی اوسط اور 6 سنچریوں کی مدد سے 1962 رنز بنائے۔

اسٹیو اسمتھ

اسٹیو اسمتھ نے 24 میچوں میں 3 سنچریوں اور 45 کی اوسط سے 1042 رنز بنائے۔

کین ولیمسن

کین ولیمسن نے 33 میچوں میں 4 سنچریوں اور 52 کی اوسط سے 1457 رنز بنائے

ویرات کوہلی

ویرات کوہلی نے 48 میچوں میں 11 سنچریوں اور 74 کی اوسط سے 2947 رنز بنائے

بابر اعظم

جبکہ بابر اعظم نے 41 میچوں میں 5 سنچریوں اور 53 کی اوسط سے 1822 رنز بنائے ہیں۔


ٹی20 کرکٹ


جوئے روٹ

بات ہو ٹی20 کی تو وہاں جوئے روٹ نے 7 میچوں میں 25 کی اوسط سے 150 رنز بنائے۔

اسٹیو اسمتھ

اسٹیو اسمتھ نے 12 میچوں میں 47 کی اوسط سے 281 رنز بنائے

کین ولیمسن

کین ولیمسن نے 18 میچوں میں 29 کی اوسط سے 492 رنز بنائے۔

ویرات کوہلی

ویرات کوہلی نے 27 میچوں میں 47 کی اوسط سے 838 رنز بنائے

بابر اعظم

جبکہ بابر اعظم نے 30 میچوں میں 53 کی اوسط سے 1213 رنز بنائے ہیں۔

ان اعداد و شمار سے صاف ظاہر ہے کہ بابر اعظم کی کارکردگی اس عرصے میں اسٹیو اسمتھ اور کین ولیمسن سے بہتر رہی، جبکہ انہوں نے ویرات کوہلی کے برابر کارکردگی پیش کی ہے۔ جہاں تک بات ہے جوئے روٹ کی، تو وہ اس پورے عرصے میں بجھے بجھے رہے۔

روٹ کی کارکردگی ون ڈے کرکٹ میں تو متاثر کن رہی، لیکن ٹیسٹ کرکٹ میں جہاں روٹ کپتان بھی ہیں، وہاں پرفارمنس میں کافی کمی آئی ہے۔ اس لیے ان حالات میں یہ سوال بنتا ہے کہ کیا جوئے روٹ کو فیب فور میں شامل رکھنا انصاف ہے؟ کیا بابر اعظم کی کارکردگی انہیں جوئے روٹ کی جگہ فیب فور میں شمولیت کا حقدار نہیں بناتی۔

بابر اعظم جو اب تینوں فارمیٹ کی کرکٹ میں پاکستان کے کپتان بھی بن چکے ہیں اپنی کارکردگی سے اس فہرست میں خود کو شمولیت کا حقدار ثابت کرچکے ہیں۔ بہت سے کرکٹ شائقین اور کرکٹ گرو یہ بھی کہتے ہیں کہ بابر اعظم کو شامل کرتے ہوئے اس حلقے کو 4 کے بجائے 5 بیٹسمینوں تک پھیلا دیا جائے اور اسے فیب فائیو کا نام دیا جائے۔

اب بات کرکٹ ماہرین پر ہے کہ وہ بابر اعظم کو جوئے روٹ کی جگہ فیب فور میں شامل کرتے ہیں یا جوئے روٹ کو نکالے بغیر بابر اعظم کو اس حلقے میں شامل کرتے ہوئے اسے فیب فائیو یا کوئی اور نام دیا جاتا ہے۔

شہزاد فاروق

ایم بی اے مارکیٹنگ کرنے کے بعد نوکری سیلز کے شعبے میں کررہا ہوں۔ کرکٹ دیکھنے اور کھیلنے کا بچپن سے جنون تھا ۔ پڑھنے کا بچپن سے شوق ہےاور اسی شوق نے لکھنے کا حوصلہ بھی دیا۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔