پاکستان

کراچی: مبینہ جعلی پولیس مقابلے پر ایس ایچ کو نوٹس جاری

عدالت نے گزری تھانے کے ایس ایچ او کو 10 دسمبر کو رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت بھی کردی۔
|

کراچی کی مقامی عدالت نے ڈیفنس میں چند روز قبل پولیس کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے 5 مشتبہ افراد کے واقعے کو 'جعلی' مقابلہ قرار دیتے ہوئے مقدمے کے اندراج کے لیے دائر درخواست پر گزری تھانے کے اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) کو نوٹس جاری کردیا۔

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج جنوبی نے ایس ایچ او گزری کو 10 دسمبر کو مذکورہ واقعے کی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کردی۔

خیال رہے کہ 27 نومبر کو پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ ڈیفنس فیز 4 میں یثرب امام بارگاہ کے قریب بنگلے میں فائرنگ سے 5 مبینہ ڈکیتوں کو ہلاک کردیا جو ڈکیتی کی نیت سے بنگلے میں داخل ہوئے تھے۔

مزید پڑھیں: کراچی میں پولیس مقابلہ، 5 مشتبہ ڈاکو ہلاک

بعد ازاں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی خاتون رہنما اور ان کے شوہر نے پولیس پر الزام عائد کیا تھا کہ ان کے ڈرائیور کو قتل کیا گیا ہے۔

لیلیٰ پروین نے کریمنل پروسیجر کوڈ (سی آر پی سی) کے سیکشن 22-اے کے تحت درخواست دائر کی اور عدالت سے استدعا کی تھی کہ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) اور گزری تھانے کے ایس ایچ او کو مبینہ جعلی مقابلے میں ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمے کے اندراج کی ہدایت کی جائے۔

انہوں نے کہا کہ گزری تھانے کے اہلکاروں نے ان کے ڈرائیور عباس کو گھر سے اٹھایا اور تھوڑی دیر بعد انہیں دیگر 4 افراد کے ساتھ قتل کرکے مبینہ ڈکیت ظاہر کیا۔

درخواست گزار نے مزید کہا کہ اہلکاروں نے بتایا کہ پولیس مقابلہ میرے بنگلے میں ہوا ہے لیکن ان کے دعوے کو سچ ثابت کرنے کے لیے گھر میں کہیں بھی گولی کا کوئی نشان تک موجود نہیں ہے۔

لیلیٰ پروین نے اپنی درخواست میں کہا کہ اہلکاروں نے ان کے ڈرائیور عباس کو قتل کیا، جو بے گناہ تھا اور نہ ہی پولیس کو کسی کیس میں مطلوب یا ملوث تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پولیس نے 5 'ڈاکوؤں' کے ساتھ میرے معصوم ڈرائیور کو بھی قتل کیا، پی ٹی آئی رہنما کا دعویٰ

انہوں نے کہا کہ مبینہ جعلی مقابلے کے بعد گزری تھانے کے اہلکاروں نے ثبوت مٹانے کے لیے جائے وقوع کو صاف کردیا جو ایک مجرمانہ فعل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس اہلکاروں نے ان کے ڈرائیور کا آزادانہ پوسٹ مارٹم کی اجازت بھی نہیں دی اور ان کی لاش تاحال سرد خانے میں پڑی ہوئی ہے۔

انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ عدالت ایس پی شکایت سیل اور ایس ایچ او گزری کو ان کے ڈرائیور کے مبینہ جعلی مقابلے میں قتل پر متعلقہ پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کرنے اور حقائق سامنے لانے کے لیے غیر جانبدارانہ انکوائری کی ہدایت کرے۔

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے ابتدائی دلائل سننے کے بعد گزری تھانے کے ایس ایچ او کونوٹس جاری کرتے ہوئے اگلی سماعت میں اس حوالے سے رپورٹ جمع کرنے کی ہدایت کی۔

جج نے سماعت 10 دسمبر تک ملتوی کردی۔

یاد رہے کہ 27 نومبر کو پولیس نے کہا تھا کہ ڈیفنس فیز 4 میں امام بارگاہ کے قریب ایک بنگلے میں ڈکیتی کے دوران مقابلے میں 5 مبینہ ڈاکو مارے گئے۔

مزید پڑھیں: کراچی کے علاقے ڈیفنس میں پولیس مقابلے کا تنازع حل نہ ہو سکا

گزری تھانے کے ایس ایچ او آغا معشوق نے بتایا تھا کہ ڈیفنس میں امام بارگاہ یثرب کے قریب ایک بنگلے میں ڈاکو داخل ہوئے تھے تاہم پولیس نے انہیں گھیرے میں لے لیا۔

انہوں نے بتایا تھا کہ پولیس کے گھیرے سے نکلنے کے لیے انہوں نے دیوار پھلانگ کر ساتھ والے بنگلے میں جانے کی کوشش کی اور ساتھ ہی فائرنگ بھی کی۔

پولیس عہدیدار کے مطابق اس موقع پر پولیس اور ڈاکوؤں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس کے نتیجے میں پانچوں ڈاکو ہلاک ہوگئے۔

ہلاک ہونے والوں کی شناخت 44 سالہ غلام محمد، 65 سالہ ریاض اور 36 سالہ عابد کے نام سے ہوئی جبکہ دیگر دو افراد کی شناخت نہیں ہوسکی، تاہم ان کی عمریں 30 کے قریب بتائی گئی ہیں۔

دوسری جانب پی ٹی آئی رہنما لیلیٰ پروین اور ان کے شوہر ایڈووکیٹ علی حسنین نے پولیس کے برخلاف بیان جاری کیا اور کہا کہ ہلاک 5 افراد میں ان کا ڈرائیور غلام عباس بھی شامل تھا اور یہ مقابلہ جعلی تھا۔

سوشل میڈیا پر جاری اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ پولیس نے ہمارے ڈرائیور غلام عباس کو ڈیفنس فیز فور میں ہمارے گھر سے اٹھایا اور ملزمان سے برآمد کی گئی گاڑی میری ملکیت ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ مقابلہ ہمارے بنگلے کے پیچھے ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: ڈکیتی کے شبہے میں شہری کے قتل میں ملوث 6 پولیس اہلکار گرفتار

لیلیٰ پروین کا کہنا تھا کہ میری ساس اور میری نند گھر میں موجود تھیں کہ رات کے تقریباً ساڑھے 4 بجے پولیس اور سادہ لباس اہلکار گھر میں داخل ہوئے اور پارکنگ میں کھڑی گاڑی کے ساتھ ہمارے ڈرائیور کو لے گئے۔

انہوں نے کہا کہ تھوڑی دیر کے بعد انہوں نے غلام عباس کو قتل کردیا اور پولیس ملزمان سے جس ڈبل کیبن گاڑی برآمد کرنے کا دعویٰ کر رہی ہے وہ میری ملکیت ہے۔

علی حسنین کا کہنا تھا کہ عباس ہمارے ساتھ گزشتہ 5 سال سے ڈرائیور کے طور پر کام کر رہا تھا اور شریف آدمی تھا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ نہ تو میری گاڑی کا کوئی کریمنل ریکارڈ ہے اور نہ ہی میرے ڈرائیور کا کریمنل ریکارڈ ہے اورپولیس کی فائرنگ میں مارے گئے دیگر 4 افراد کو میں نہیں جانتا۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈرائیور کو گھر سے لے جانے پر میری والدہ اور پڑوسی نے مزاحمت کی کوشش بھی کی تھی لیکن پولیس نے میری والدہ سے بدتمیزی کی۔

علی حسنین نے کہا کہ میرے گھر میں سی سی ٹی وی کیمرے بھی لگے ہوئے ہیں اور اگر پولیس نے فوٹیج ضائع نہیں کی ہیں تو سارے حقائق سامنے آئیں گے۔

پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا کہ ہمارا ڈرائیور معصوم تھا اور حکام انہیں انصاف فراہم کریں۔

کراچی کوآرڈینیشن کمیٹی اجلاس، 'کے-4 منصوبے کیلئے واپڈا سے مدد لی جائے گی'

عدالت نے حریم شاہ اور صندل خٹک کے خلاف اندراج مقدمہ کی درخواست نمٹادی

نواز شریف کو اشتہاری قرار دینے کا تحریری فیصلہ جاری، ضامن کارروائی کیلئے طلب