یوکوہاما یونیورسٹی کی اس تحقیق میں شامل 98 فیصد مریضوں میں اینٹی باڈیز کو 6 ماہ بعد بھی دریافت کیا گیا۔
اب محققین اس تحقیق کو آگے بڑھا کر دیکھیں گے کہ ایسے افراد میں یہ اینٹی باڈیز بیماری کے ایک سال بعد بھی برقرار رہتی ہیں یا نہیں۔
اس تحقیق کے دوران کووڈ کے 376 ایسے مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جو اس بیماری کو شکست دے چکے تھے اور ان کے نمونے صحتیابی کے 6 بعد جمع کیے گئے۔
محققین کا کہنا تھا کہ جن افراد میں یہ اینٹی باڈیز ہوتی ہیں ان میں دوبارہ بیماری کا خطرہ دیگر کے مقابلے میں کم ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ نتائج سے ویکسینز کے حوالے سے امید بڑھتی ہے کیونک ہتحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ بیماری کے خلاف مدافعت کم از کم 6 ماہ تک برقرار رہتی ہے۔
تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ یہ مدافعتی بیماری کے نتیجے میں قدرتی طور پر حاصل ہوئی اور ضروری نہیں ایسا کسی ویکسین سے بھی ہو۔
اس تحقیق میں مردوں اور خواتین کی تعداد برابر تھی اور اوسط عمر 49 سال تھی۔
تحقیق میں شامل 71 فیصد میں بیماری کی شدت معمولی، 19 فیصد میں معتدل اور 6 فیصد میں سنگین تھی جبکہ 4 فیصد میں کوئی علامات ظاہر نہیں ہوئی تھیں۔
محققین نے دریافت کیا کہ بغیر علامات والے یا معمولی حد تک بیمار ہونے والے 97 فیصد مریضوں میں وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کو دیکھا گیا جبکہ معتدل یا سنگین حد تک بیمار افراد میں یہ شرح سوفیصد تک رہی۔
تحقیق کے لیے ماہرین نے بندروں کے خلیات کو جینیاتی طور پر تبدیل کرکے استعمال کیا جو نوول کورونا وائرس سے ملتے جلتے وائرس سے آسانی سے متاثر ہوسکتے تھے۔