اب ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ خواتین میں پائے جانے والے تولیدی ہارمونز ایسٹروجن اور پروجسٹرون کووڈ 19 کے خلاف تحفظ فراہم کرنے کا کردار ادا کرتے ہیں، جس کی وجہ ان کی ورم کش خصوصیات اور مدافعتی نظام پر مثبت اثرات مرتب کرنا ہے۔
طبی جریدے جرنل ٹرینڈز اینڈ اینڈوکرینولوجی اینڈ میٹابولزم میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ اس سے ممکنہ وضاحت ہوتی ہے کہ مرد کووڈ 19 سے خواتین سے زیادہ متاثر کیوں ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ دیگر بیماریوں کے مقابلے میں کورونا سے حاملہ خواتین میں ہلاکت کا امکان بہت کم ہوتا ہے۔
امریکا کی الینواس یونیورسٹی کی اس تحقیق میں اس بات پر توجہ مرکوز کی گی کہ بڑی تعداد میں حاملہ خواتین میں کووڈ 19 کی علامات حمل کے دوران ظاہر نہیں ہوئیں، مگر بچے کی پیدائش کے بعد اچانک بدترین علامات نمودار ہوئیں۔
زچگی کے بعد خواتین میں مخصوص ہارمونز کی سطح میں نمایاں کمی آتی ہے جو ان علامات کے نمودار ہونے کا باعث بنتی ہیں۔
محققین کا کہنا تھا کہ حمل کو مستحکم رکھنے والے ہارمونز جیسے پروجسٹرون حمل کی تیسری سہ ماہی کے دوران سوگنا زیادہ ہوتے ہیں، یہ سب ہارمونز ورم کش افعال کے حامل ہوتے ہیں اور مدافعتی نظام پر اثرات مرتب کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس سے عندیہ ملتا ہے کہ حاملہ خواتین کو بچے کی پیدائش کے بعد زیادہ سنگین بیماری کا سامنا ہوتا ہے کیونکہ ان ہارمونز کی سطح میں ڈرامائی کمی آتی ہے۔
تحقیق میں خیال ظاہر کیا گیا کہ خواتین کے مخصوص ہارمونز کووڈ 19 کی سنگین شدت کو ٹالنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔
اس تحقیق میں ان شواہد پر روشنی ڈالی گی جن سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ہارمونز وائرس سے متاثر ہونے پر پھیپھڑوں کے خلیاتا کی مرمت کا عمل تیز کرتے ہیں اور وائرس کو خلیات میں داخل ہونے میں مدد دینے والے ایس ٹو ریسیپٹر کو بھی روکتے ہیں۔
تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ یہ ہارمونز ممکنہ طور پر مدافعتی نظام کے شدید ردعمل کی روک تھام میں بھی مدد فراہم کرتے ہیں۔
اس سے قبل اگست میں امریکا کی یالے یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ خواتین کے جسم مردوں کے مقابلے میں زیادہ مضبوط مدافعتی ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔
طبی جریدے جرنل نیچر میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ معمر خواتین بھی مردوں کے مقابلے میں زیادہ ٹی سیلز تیار کرتی ہیں جو وائرس کو پھیلنے سے روکتے ہیں۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ 19 سے بیمار خواتین میں مرد مریضوں کے مقابلے میں ٹی سیلز کی سرگرمیاں نمایاں حد تک زیادہ ہوتی ہیں، اور یہ سرگرمیاں زیادہ عمر والی خواتین میں بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔