پاکستان

اثاثہ جات ریفرنس: آغا سراج درانی، اہلخانہ پر فرد جرم عائد

احتساب عدالت تھری کی جج ڈاکٹر شیربانو کریم نے ملزمان پر فرد جرم عائد کی تاہم تمام نے صحت جرم سے انکار کیا۔
|

کراچی کی احتساب عدالت نے سندھ اسمبلی کے اسپیکر و پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما آغا سراج درانی اور اہلخانہ سمیت دیگر 18 افراد پر آمدن سے زائد اثاثوں سے متعلق ریفرنس میں فرد جرم عائد کردی۔

آغا سراج درانی اور دیگر 18 افراد پر ایک ارب 61 کروڑ روپے کے مبینہ طور پر غیر قانونی اثاثے بنانے کا الزام ہے۔

اسپیکر سندھ اسمبلی کو قومی احتساب بیورو (نیب) نے مبینہ طور پر معلوم آمدن سے زائد منقولہ اور غیر منقولہ اثاثے بنانے کی تحقیقات کے سلسلے میں فروری 2019 میں اسلام آباد کی ایک ہوٹل سے گرفتار کیا تھا۔

ان پر 352 غیر قانونی تقرریوں، ایم پی اے ہوسٹل اور سندھ اسمبلی کی نئی عمارت کی تعمیر میں عوامی فنڈز میں بدعنوانی اور ان اسکیمز کے پروجیکٹ ڈائریکٹرز کی تقرریوں کا بھی الزام ہے۔

یہ بھی پڑھیں: آمدن سے زائد اثاثے: اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی گرفتار

نیب نے آغا سراج درانی، ان کی اہلیہ، بچوں، بھائی اور دیگر پر مبینہ طور پر غیر قانونی طریقوں سے بنائے گئے ایک ارب 61 کروڑ روپے کے اثاثے رکھنے کا الزام عائد کیا تھا۔

پیر کے روز احتساب عدالت تھری کی جج ڈاکٹر شیربانو کریم کی عدالت میں ریفرنس کی سماعت ہوئی جہاں ملزمان پیش ہوئے۔

جج نے ملزمان پر فرد جرم عائد کی تاہم انہوں نے صحت جرم سے انکار کیا۔

عدالت نے ریفرنس پر مزید کارروائی کے لیے نیب پراسیکیوٹر کو ہدایت کی کہ وہ آئندہ سماعت پر گواہ پیش کریں، آئندہ سماعت پر گواہان کا بیان ریکارڈ کیا جائے گا۔

قومی احتساب بیورو نے ملی بھگت سے کرپشن کرنے سے متعلق ریفرنس میں 19 افراد کو ملزمان نامزد کیا ہے جن میں آغا سراج درانی، ان کی اہلیہ ناہید، بیٹا شہباز، بیٹیاں صنم، سونیا، شاہانہ اور سارا، بھائی آغا مسیح الدین، ذوالفقار ڈہر، شمشاد خاتون، منور علی، غلام مرتضیٰ، محمد عرفان، شکیل سومرو، گلبہار بلوچ، اسلم لانگاہ، طفیل شاہ، میٹھا خان، محمد شاہ اور گلزار احمد شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: آغا سراج درانی کی درخواست مسترد، ریفرنس سماعت کیلئے مقرر

ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ آغا سراج درانی نے وزیر بلدیات اور پھر صوبائی اسمبلی کے اسپیکر کے عہدے پر رہتے ہوئے دیگر نامزد ملزمان کی ملی بھگت سے غیر قانونی طور پر اثاثے بنائے۔

ریفرنس میں مزید کہا گیا کہ یہ افراد قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے سیکشن 9 کی متعدد شقوں اور سیکشن 10 کے تحت کرپشن کے مرتکب ہوئے ہیں۔