پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت کیسے بہتر کی جاسکتی ہے؟
آج کل معیشت کے حوالے سے مثبت خبریں آرہی ہیں۔ روپیہ مستحکم ہورہا ہے اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ سرپلس میں بدل گیا ہے۔ روشن پاکستان ڈیجیٹل اکاؤنٹ میں بیرونِ ملک مقیم پاکستانی سرمایہ بھیج رہے ہیں اور برآمدات میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔
لیکن آج کے دور میں کسی بھی ملک کی ترقی صرف اندرونی معاملات بہتر کرنے سے ممکن نہیں ہے۔ بیرونی معاملات کو بہتر کرنا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ بیرونی معاملات میں سب سے اہم پہلو ہمسایہ ممالک سے تعلقات ہیں۔ بڑے بزرگ کہا کرتے تھے کہ ہمسایہ چاہے غریب ہو یا امیر، اگر ان سے بہتر تعلقات قائم ہیں تو آپ دونوں سے فائدہ حاصل کرسکتے ہیں۔
اگر پاکستان کی بات کی جائے تو اس کے ایک طرف جنگوں سے بے حال غریب ملک افغانستان ہے اور دوسری طرف دنیا کی سب سے بڑی تجارتی طاقت چین ہے۔ اگر پاکستان چین سے ٹیکنالوجی درآمد کرتا ہے تو دوسری طرف افغانستان کو بڑی تعداد میں زرعی اجناس برآمد بھی کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے COMTRADE کے مطابق 2019ء کے میں پاکستان نے افغانستان کو ایک ارب 18 کروڑ ڈالرز کی اشیا برآمد کی ہیں۔ جن میں زرعی اجناس کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔
چین سے ہمارے تعلقات بہترین ہیں لیکن پچھلے کچھ عرصے سے افغانستان کے ساتھ تعلقات سرد مہری کا شکار رہے ہیں، جس کا معاشی نقصان پاکستان کو زیادہ ہوتا ہے۔
صوبہ پنجاب کے علاقے اوکاڑہ کے ایک زمیندار ریاض وٹو نے بتایا کہ ’حالیہ دنوں میں جب افغانستان کا بارڈر بند ہوا تھا تو آلو کوڑیوں کے بھاؤ بیچنا پڑے تھے۔ کچھ علاقوں میں تو مفت آلو بیچا گیا اور کئی جگہ مفت آلو دینے کے ساتھ لے جانے کا کرایہ بھی ادا کرنا پڑا‘۔
پاکستان اپنی ضرورت سے زیادہ آلو پیدا کرتا ہے جس کی بہت بڑی منڈی افغانستان ہے۔ ہمسایہ ملک ہونے اور کوالٹی کے سخت قوانین نہ ہونے کی وجہ سے برآمدات آسان ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ پاکستانی کسان کی خوشحالی کا کسی حد تک دار و مدار افغانستان کے ساتھ تجارت پر ہے، تو غلط نہیں ہوگا۔ جو لوگ مٹی سے جڑے ہیں اور ان کی زندگی کا دار و مدار کاشتکاری پر ہے اور وہ اس معاملے کو بخوبی سمجھتے ہیں۔
آج کل پاک افغان تعلقات بہتری کی جانب جاتے دکھائی دے رہے ہیں۔ افغانستان کے وفد پاکستان آرہے ہیں اور پاکستان اپنے نمائندے افغانستان بھجوا رہا ہے۔ پچھلے ماہ اکتوبر میں افغان وفد نے پاکستان کا دورہ کیا جس میں تجارت کو بہتر بنانے کے حوالے سے بات ہوئی۔ نومبر 2020ء کی بات کریں تو پہلے وزیرِاعظم پاکستان کے مشیر برائے تجارت عبدالرزاق داود افغانستان پہنچے اور اس کے بعد وزیرِاعظم عمران خان صاحب نے بھی افغانستان کا دورہ کیا جہاں امن اور تجارتی معاہدوں پر بات ہوئی۔
امید کی جارہی ہے کہ جنوری 2020ء تک افغان پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدہ حتمی شکل اختیار کر لے گا۔ ان معاہدوں میں کن معاملات کو اہمیت دی گئی ہے اس کا علم آنے والے دنوں میں ہوجائے گا۔ لیکن آئیے پہلے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کن اقدامات سے پاک افغان تجارت میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔
شہریت کا معاملہ
یہ سرمایہ کاری کا دور ہے، تجارت دنیا کی سب سے بڑی طاقت بن چکی ہے اور تاجر ناقابلِ شکست سپاہیوں کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔ پوری دنیا میں جو پروٹوکول تاجروں کو دیا جا رہا ہے ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ لیکن پاکستان میں حالات یکسر مختلف ہیں۔
اگر افغان تاجروں کی بات کی جائے تو ان کو پاکستان میں سہولیات ملنا تو دُور کی بات، ان کے لیے اپنی شناخت ظاہر کرنا ہی مسائل کو جنم دیتا ہے۔ اکثر تاجر اپنا تعلق افغانستان سے بتانے کے بجائے پشاور سے ظاہر کرتے ہیں۔ نہ وہ بینک اکاؤنٹ کھلوا سکتے ہیں، نہ کمپنی بنا سکتے ہیں اور نہ ہی جائیداد خرید سکتے ہیں۔
حکومتِ پاکستان کو چاہیے کہ ترقی یافتہ ممالک کی طرز پر پاکستان میں بھی سرمایہ کاری کی بنیاد پر شہریت کی پالیسی متعارف کروائے۔ مثال کے طور پر اگر آپ برطانیہ کی شہریت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو 2 لاکھ پاؤنڈ کے کاروبار سے آپ یہ سہولت حاصل کرسکتے ہیں۔ پاکستان جیسے کمزور معاشی ملک اور جنگ سے تباہ حال افغانستان جیسے ملکوں کے شہری بھی اس پالیسی سے فائدہ اٹھا کر برطانیہ میں کاروبار کر رہے ہیں اور ان کی معیشت کو بہتر بنانے میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔
حکومتِ پاکستان کو چاہیے کہ جو افغان شہری پاکستان میں 5 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں، انہیں پاکستانی شناختی کارڈ جاری کیا جائے۔ وہ اپنی شناخت چھپائے بغیر اتنی ہی آسانی سے کمپنی اور بینک اکاؤنٹ کھول سکیں جتنی آسانی سے کوئی عام پاکستانی کھلوا سکتا ہے۔
اس عمل سے باہمی تجارت کو فروغ ملے گا اور پاکستانی معیشت میں ٹیکس آمدن میں اضافہ ہوگا۔ یوں نوکریاں پیدا ہوں گی اور غیر قانونی طریقے سے ہونی والی تجارت کا سدِباب کیا جاسکے گا۔
افغانستان سے تعلق رکھنے والے ایک تاجر شاہد خان نے بتایا کہ ’حکومتی مشکلات کے باوجود بھی وہ افغانستان سے مال پاکستان لے آتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اگر حکومت قانونی طور پر سہولت دے تو ٹیکس حکومت کے اکاؤنٹ میں جمع کروا سکیں گے جبکہ دوسری صورت میں پیسے رشوت کے طور پر ادا کرنے پڑتے ہیں۔ اس سے حکومت کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ دونوں صورتوں میں ہمارا کام ہوجاتا ہے اور خرچ بھی تقریباً ایک جتنا آتا ہے‘۔
افغان ٹرکوں کا پاکستان میں داخلہ کیوں ضروری؟
اس کے علاوہ پاکستانی ٹرکوں کو آذربائیجان، ترکمانستان اور تاجکستان جانے کی اجازت کو بحال کیا جانا چاہیے۔ 2017ء میں افغان صدر اشرف غنی نے پاکستانی ٹرکوں پر پابندی عائد کردی تھی۔ ان کا مؤقف تھا کہ پاکستانی ٹرک پورے افغانستان میں آزادانہ گھومتے ہیں لیکن افغان ٹرکوں کو پاکستانی بارڈر پر روک کر سامان اتار لیا جاتا ہے۔ اگر پاکستان چاہتا ہے کہ اس کے ٹرک تجارت کے لیے افغانستان کا راستہ استعمال کریں تو افغان ٹرکوں کو بھی کراچی اور گوادر کی بندرگاہوں تک جانے کی اجازت دی جائے۔
مقامی تاجر رانا خلیل نے بتایا کہ ’حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی ٹرکوں کو افغان بارڈر پر روک کر سارا سامان اتار لیا جاتا ہے۔ پھر اسے کھول کر چیک کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد افغان ٹرکوں پر لادا جاتا ہے۔ اس سے اجناس کا معیار خراب ہوجاتا ہے۔ جب مطلوبہ مقام پر مال پہنچتا ہے تو کوالٹی کے مسائل کی شکایت سامنے آتی ہے۔ باہمی مشاورت سے اس مسئلے کو ختم کیا جا سکتا ہے‘۔
حکومتِ پاکستان کو چاہیے کہ افغان ٹرکوں کو بارڈر پر آف لوڈ نہ کرے۔ یہ جدید ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ اگر کرنا چاہیں تو سامان سمیت پورا ٹرک چند منٹوں میں سکین ہوجاتا ہے۔ اس ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اگر مزید سیکیورٹی درکار ہو تو افغان ڈرائیوروں کے ساتھ پاکستانی سیکیورٹی فورس کے اہلکار تعینات کیے جائیں جو سامان کو مطلوبہ جگہ تک پہنچا کر ڈرائیور اور ٹرک سمیت واپس آئیں۔ اس سے سیکیورٹی کا عمل بھی بہتر ہوگا اور افغانستان کے راستے بھی پاکستان کے لیے کھولے جا سکیں گے۔
مشترکہ چیمبر آف کامرس کا کردار
کامیاب تجارتی تعلقات ایک نظام کے تحت ممکن ہیں جن میں چیمبر آف کامرس کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ یہ دراصل کاروباری افراد کے مسائل اور ان کے حل پیش کرنے کا سرکاری پلیٹ فارم ہوتا ہے۔ یہاں تمام نمائندے بروقت اپنے مسائل پیش کرسکتے ہیں اور ان کے حل بھی نکالے جاسکتے ہیں۔ ہر مسئلہ قومی سطح کا نہیں ہوتا۔ بہت بڑے کام بعض اوقات ایک چھوٹے سے مسئلے کی وجہ سے رک جاتے ہیں جنہیں تاجروں کی باہمی مشاورت سے باآسانی حل کیا جا سکتا ہے، لیکن مناسب پلیٹ فارم نہ ہونے کی وجہ سے چھوٹے مسائل کئی سالوں سے حل طلب ہی رہ جاتے ہیں۔
اس مسئلے کے حل کے لیے طورخم اور کابل میں مشترکہ چمبر آف کامرس کے دفاتر فعال کیے جانے ضروری ہیں جہاں روزانہ کی بنیاد پر ملاقاتیں ہوں اور کارکردگی کا جائزہ لیا جائے۔
کسٹم ڈیوٹی اور ٹیکسوں کی کمی کیوں ضروری؟
اس کے علاوہ کراچی کی بندرگاہ پر کارگو کلیئر کروانے کا خرچ تقریباً 6 لاکھ پاکستانی روپے ہے، جو افغانستان جیسے ملک کے لیے بہت زیادہ ہے۔ کسٹم ڈیوٹی اور ٹیکسوں کو باہمی مشاورت کے ساتھ کم کرکے تجارت کو بڑھایا جاسکتا ہے۔ ٹیکس کی زیادہ شرح، زیادہ آمدن کی ضمانت نہیں ہوتی بلکہ زیادہ تجارت آمدن بڑھانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ اس سے ایک طرف کاروبار کرنے میں آسانی پیدا ہوسکے گی اور دوسری طرف عام آدمی کو اشیا کم قیمت پر دستیاب ہوں گی۔
پاک افغان مشترکہ تجارت
پاکستانی کمپنیوں کے افغانی کمپنیوں کے ساتھ مشترکہ منصوبے شروع کیے جانے کی بھی ضرورت ہے۔ خاص طور پر چھوٹی اور درمیانی کاروباری کمپنیوں کے مل کر کام کرنے کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔
سیکیورٹی کو بہتر کرنے کے لیے کیا کیا جائے؟
مزدوروں اور ماہرین کی سیکیورٹی کا بندوبست بھی ضروری ہے۔ جب تک جانی اور مالی نقصان کا ڈر رہے گا تو نہ تجارت پروان چڑھے گی اور نہ ہی ماہرین کی خدمات حاصل کی جا سکیں گی۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور دی افغانستان بینک کے درمیان معاہدوں کے نتیجے میں ادائیگیوں کے نظام کو آسان بنایا جانا چاہیے اور دونوں طرف بینکوں کی شاخیں کھولی جانی چاہئیں۔
پابندی نقصاندہ کیوں؟
افغان آٹو اسپئر پارٹس اور سگریٹ پاکستان کی منفی فہرست میں شامل ہیں۔ جو اشیا منفی فہرست میں شامل ہوتی ہیں ان کی تجارت نہیں کی جاسکتی۔ یعنی کہ افغانستان سے آٹو اسپئر پارٹس اور سگریٹ پاکستان درآمد نہیں کیے جا سکتے۔
اس وجہ سے مقامی مارکیٹ میں اشیا مہنگی ہوگئی ہیں۔ پاکستان میں ڈالر کی قدر بڑھنے کے بعد نئی گاڑیاں تو عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوچکی ہیں، لیکن جن کی امید استعمال شدہ گاڑیاں تھیں وہ بھی پریشان ہیں کیونکہ پابندی کے باعث اسپئر پارٹس بھی مہنگے مل رہے ہیں۔ ان پابندیوں سے بظاہر کوئی فائدہ ہوتا دکھائی نہیں دے رہا، بلکہ اسمگلنگ کے امکانات بڑھ رہے ہیں اور معیشت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
یہاں ایک بات کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ تجارت ہمیشہ کچھ لینے اور دینے کا نام ہے۔ یک طرفہ پالیسی کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ صرف اپنا فائدہ سوچیں اور دوسرے کے مفادات نظر انداز کر دیں۔ بلاشبہ پابندی ختم ہونے سے زیادہ فائدہ افغانستان کو ہوسکتا ہے لیکن پاکستان اس کے بدلے افغانستان سے تجارت کے مزید راستے حاصل کرسکتا ہے۔
ٹیکس کنسلٹنٹ ہونے کی وجہ سے بہت سے ایسے لوگوں سے ملاقات ہوتی رہتی ہے جو افغان پاکستان تجارت سے منسلک ہیں۔ ایک کلائنٹ نے بتایا کہ ’پاکستان سے افغانستان بھیجا جانے والا اکثر مال پاک افغان بارڈر پر ہی بیچ دیا جاتا ہے۔ مہریں لگا کر اور کاغذ ڈال کر فائلوں کا پیٹ بھر دیا جاتا ہے۔ برآمدات کے نتیجے میں جو ڈالر پاکستان آنے ہوتے ہیں وہ نہیں آتے بلکہ پاکستانی روپوں میں ہی لین دین ہوجاتی ہے‘۔
اس لیے بارڈر پر سیکیورٹی سخت کرکے اس مسئلے پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ نہ کیا گیا تو تجارت کا اصل فائدہ حاصل نہیں ہو سکے گا اور ڈالر کے ذخائر بڑھنے کی بجائے کم ہوتے رہیں گے کیونکہ اسی راستے کو ڈالر اسمگلنگ کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
بلاگر نے آکسفورڈ بروکس یونیورسٹی لندن سے گریجویشن کر رکھا ہے۔ پیشے کے اعتبار سے کالم نگار ہیں، جبکہ ورلڈ کالمسٹ کلب اور پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ کے ممبر بھی ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔