ایوی ایشن سیکریٹری کا بطور قائم مقام ڈی جی سی اے اے کام کرنا غیرقانونی قرار
اسلام آباد ہائیکورٹ (آئی ایچ سی) نے وفاقی ایوی ایشن سیکریٹری حسن ناصر کے بطور قائم مقام ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) کام کرنے کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وہ 8 دسمبر تک ڈی جی س اے اے کے خالی عہدے پر بھرتی کرے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سی اے اے کے مستقل ڈی جی کی تعیناتی اور مبینہ طور پر جعلی لائسنس پر برطرف کیے جانے والے پائلٹ کی دائر کردہ درخواستوں کی مشترکہ سماعت کی۔
عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ سی اے اے قانون کے تحت قائم ہونے والی سب سے اہم ریگولیٹری باڈی میں سے ایک تھی اور اس کو غیرفعال رکھنا کمرشل پائلٹس کے مبینہ جعلی لائسنس کے اجرا کے معاملے میں ناقابل معافی غلط بیانی کی ایک وجہ ہوسکتی ہے۔
مزید پڑھیں: ’262 پائلٹس کے لائسنس جعلی ہونے کا بیان دیا گیا، آج کہہ رہے ہیں صرف 82 ہیں‘
سماعت کے دوران عدالتی سوال پر اس بات سے بھی آگاہ کیا گیا کہ اب تک 50 پائلٹس کے لائسنسز منسوخ کیے گئے جبکہ دیگر 20 کی تحقیقات جاری ہے، جس پر عدالت عالیہ نے ریمارکس دیے کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قومی اسمبلی کے فلور پر وزیر ہوا بازی کی جانب سے دیا گیا بیان غلط تھا۔
اس موقع پر اٹارنی جنرل خالد جاوید خان ایوی ایشن سیکریٹری حسن ناصر کے ساتھ پیش ہوئے۔
انہوں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ وفاقی حکومت نے پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی آرڈیننس 1982 کی دفعات کی روشنی میں ڈی جی سی اے اے کے تقرر کے عمل کا آغاز کیا تھا۔
اس پر عدالت کی جانب سے مشاہدہ کیا گیا کہ 14 جولائی 2020 کا حکم، جس پر اعتراض اٹھایا گیا تھا، ڈی جی سی اے اے کی جانب سے ارادتاً منظور کیا گیا، اس بات کا اعتراف ہے کہ ڈی جی کا چارج آفس ایوی ایشن سیکریٹری کو دیا گیا۔
1982 کے آرڈیننس کی شق 7 (2) میں سی اے اے بورڈ کی تشکیل کی وضاحت کی گئی ہے اور قانون واضح کرتا ہے کہ سیکریٹری ایوی ایشن چیئرمین بورڈ ہوں گے، دفعہ 9 صریحی طور پر ڈائریکٹر جنرل کے تقرر پر غور کرتی ہے جس میں کہا گیا کہ وہ اتھارٹی کا ایگزیکٹو سربراہ ہوگا۔
آرڈیننس کی اسکیم سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ڈائریکٹر جنرل کا ایک آزاد دفتر ہوگا اور وہ بورڈ کے اراکین میں سے ایک ہوگا۔
علاوہ ازیں عدالتی حکم میں کہا گیا کہ آئندہ سماعت پر اٹارنی جنرل یا ان کی جانب سے مقرر کردہ قانونی افسر ڈی جی آفس کا چارچ سیکریٹری کو دینے یا ان کے بطور ڈی جی سی اے اے تعینات ہونے کی وضاحت کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں: سول ایوی ایشن کا مشتبہ لائسنسز پر عہدیداروں کو نوٹس
عدالتی حکم میں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ بادی النظر میں ایسا لگتا ہے کہ ایسا انتظام کیا گیا تھا کہ جس کے تحت سیکریٹری ایوی ایشن ڈویژن کو عارضی طور پر کام کی اجازت دی گئی تھی یا کسی مقصد کے طور پر اتھارٹی کا ڈائریکٹر جنرل تعینات کیا گیا تھا جو 1982 کے آرڈیننس کے خلاف تھا لہٰذا یہ غیرقانونی ہے۔
اس میں مزید کہا گیا کہ یہ انتظام 2 سال سے زائد عرصے سے جاری ہے لہٰذا اس عرصے میں منظور کیے گئے احکامات کی حیثیت کو بھی دیکھنا ہوگا، جس میں فوری درخواست میں قابل اعتراض احکامات بھی شامل ہیں۔
قبل ازیں 3 نومبر کو چیف جسٹس اطہر من اللہ نے یہ آبزرو کیا تھا کہ متعلقہ اتھارٹیز کی غفلت کے باعث ڈی جی سی اے اے کا اہم عہدہ خالی ہے۔
یہ خبر 25 نومبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔