برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی کے تحت تیار ہونے والے کووڈ 19 ویکسین کی انسانوں پر آزمائش اپریل میں شروع ہوئی تھی۔
اب 7 ماہ بعد اس کے آخری مرحلے کے ٹرائل کے ابتدائی نتائج جاری کیے گئے ہیں جن کے مطابق یہ ویکسین لوگوں کو بیمار ہونے سے بچانے میں 70.4 فیصد تک تحفظ فراہم کرسکتی ہے بلکہ محققین کے مطابق ڈوز کی مقدار میں کمی سے یہ شرح 90 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔
امریکا کی فائزر/جرمنی کی بائیو این ٹیک، امریکی کمپنی موڈرینا اور روس کے بعد یہ چوتھی ویکسین ہے جس کے آخری مرحلے کے ٹرال کے نتائج جاری ہوئے ہیں۔
فائزر اور موڈرینا کی ویکسینز میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی آکسفورڈ کی تجرباتی ویکسین سے مختلف ہے اور دونوں کے مطابق ان کی ویکسینز 95 فیصد حد تک موثر ہیں، جبکہ فائزر نے امریکا اور برطانیہ میں لائسنس کے لیے درخواست بھی جمع کرادی ہے۔
آکسفورڈ کے نتائج بظاہر امریکی ویکسینز جتنے اچھے نظر نہیں آتے، مگر اسے بنانے والے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ویکسینز کا موازنہ نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ ان کے ٹرائل میں معتدل حد تک بیمار افراد کے ساتھ سنگین حد تک بیمار افراد کو بھی شامل کیا گیا تھا، جبکہ امریکی ویکسینز میں ایسا نہیں ہوا۔
امریکی ویکسینز کے مقابلے میں آکسفورڈ کی ویکسین زیادہ سستی ہے اور دنیا کے کونے میں آسانی سے پہنچا کر اسٹور کی جاسکتی ہے۔
اس ویکسین کی تیاری کی معمار پروفیسر سارہ گلبرٹ نے بتایا 'آج کا اعلان ہمیں اس وقت کے مزید قریب لے گیا ہے جب ہم ویکسین کو استعمال کرکے اس وائرس سے ہونے والی تباہی کا خاتمہ کرسکیں گے'۔
ان کا کہنا تھا 'ہم اپنا کام جاری رکھیں گے تاکہ ریگولیٹرز کو تفصیلی معلومات فراہم کرسکیں'۔
برطانوی حکومت پہلے ہی اس ویکسین کے 10 کروڑ ڈوز کو خرید چکی ہے جبکہ آسترا زینیکا کا کہنا ہے کہ وہ اگلے سال 3 ارب ڈوز تیار کرے گی۔
اس ویکسین کو 10 ماہ کے اندر تیار کیا گیا ہے اور یہ ابتدائی نتائج برطانیہ اور برازیل میں 20 ہزار سے زائد رضاکاروں پر ہونے والے ٹرائل کے ہیں۔
مجموعی طور پر ان رضاکاروں میں 131 کووڈ کیسز رپورٹ ہوئے، جن میں ویکسین کے 2 ڈوز لینے والے 30 جبکہ ڈمی انجیکشن لینے والے رضاکاروں کی تعداد 101 ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ویکسین بیماری سے بچانے کے لیے 70 فیصد تک تحفظ فراہم کرتی ہے۔
ویکسین والے کسی بھی رضاکار میں کووڈ 19 کی شدت زیادہ نہیں تھی اور نہ ہی انہیں ہسپتال جانے کی ضرورت پڑی۔
ٹرائل کرنے والی ٹیم کے قائد پروفیسر اینڈریو پولارڈ نے بتایا کہ وہ نتائج سے مطمئن ہیں کیونکہ اس کا مطلب ہے کہ ہمارے پاس اب اس وبا پر قابو پانے کے لیے ایک ویکسین موجود ہے۔
تاہم 90 فیصد تحفظ کی بنیاد 3 ہزار افراد پر ہونے والا ایک ٹرائل ہے جس میں انہیں دیگر افراد کے مقابلے میں پہلا ڈوز 50 فیصد کم مقدار میں دیا گیا جبکہ دوسرا ڈوز معمول کی مقدار میں دیا گیا۔
پروفیسر اینڈریو پولارڈ نے بتایا کہ وہ ابھی درست طور پر نہیں بتاسکتے کہ آخر کم مقدار میں ڈوز زیادہ تحفظ فراہم کیوں کرتا ہے 'ہمارے خیال میں کم مقدار میں پہلا ڈوز دینے سے مدافعتی نظام مختلف انداز سے کام کرتا ہے'۔
ان کا کہنا تھا 'اس وقت ہمیں معلوم نہیں یہ مدافعتی نظام کے معیار کا ہے یا اس کی مقدار کا، اس پر آنے والے ہفتوں میں ہم مزید کام کریں گے'۔
پروفیسر سارہ گلبرٹ نے اس حوالے سے بتایا 'ممکنہ طور پر کم مقدار میں ویکسین دیکر آغاز اور پھر زیادہ مقدار میں دوسرا ڈوز میں دینے سے مدافعتی نظام کو زیادہ بہتر انداز سے متحرک ہونے میں مدد ملتی ہے'۔
خیال رہے کہ آکسفورڈ کی ویکسین کے 2 ڈوز 4 ہفتوں کے اندر استعمال کرائے جاتے ہیں اور نتائج کے حوالے سے آسترازینیکا کا کہنا ہے کہ وہ ڈیٹا اکٹھا کررہی ہے مگر شواہد کو دنیا بھر میں ویکسین کو ایمرجنسی استعمال کی منظوری کے لیے جمع کرائے گی۔
آسترازییکا کے چیف ایگزیکٹیو پاسل سوریوٹ نے بتایا 'ویکسین کی افادیت اور محفوظ ہونے سے یہ تصدیق ہوتی ہے کہ یہ کووڈ 19 کے خلاف بہت زیادہ موثر ہے اور یہ وبا کی صورتحال پر فوری اثرات مرتب کرے گی'۔
انہوں نے مزید بتایا 'اس ویکسین کی سپلائی چین بہت سادہ ہے اور ہم نے اس کی تقسیم کے لیے کوئی منافع نہ لینے کا وعدہ کیا ہے، بلکہ مساوی بنیاد پر بروقت رسائئی یقینی بنائے گی، یعنی یہ سستی ہونے کے ساتھ دنیا بھر میں دستیاب ہوگی، منظوری ملنے پر کروڑوں ڈوز سپلائی کیے جائیں گے'۔
ٹرائل سے یہ بھی عندیہ ملا کہ ویکسین کے استعمال سے ایسے افراد کی تعداد میں کمی آئی جن میں کووڈ 19 کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں، جو اس وبا کو پھیلانے کا بہت بڑا ذریعہ ہیں۔