پاکستان

'بداخلاق وکلا' کے خلاف کارروائی نہ ہونے پر جونیئر ججز مایوسی کا شکار

ججز کی شکایات سے ظاہر ہوتا ہے مرد اور خواتین دونوں وکلا عدالتی کارروائی معطل کرنے اور انہیں دھمکیاں دینے کی ہمت رکھتے ہیں، رپورٹ

صوبائی دارالحکومت لاہور میں خدمات انجام دینے والے جونیئر جوڈیشل افسران اپنی ملازمت کی انجام دہی کے دوران وکلا کے ہاتھوں نامناسب رویے اور بدتمیزی کے واقعات سے نمٹنے میں متعلقہ حکام کی ’مایوس کن‘ سوچ پر افسردہ اور مایوسی کا شکار ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس معاملے پر سنجیدگی دکھاتے ہوئے لاہور ہائیکورٹ کے رجسٹرار مشتاق احمد اوجلا نے صوبے کے تمام ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز جج سے کہا تھا کہ وہ گزشتہ 2 سال کے دوران ہوئے اس طرح کے واقعات کا ان کے نتائج کے ساتھ ڈیٹا مرتب کریں۔

ججز کی جانب سے اعلیٰ حکام کو جمع کروائی گئی حالیہ شکایات میں سے کچھ کے مواد سے ظاہر ہوتا ہے کہ مرد اور خواتین دونوں وکلا یہ جرات رکھتے ہیں کہ وہ کسی بھی ڈسٹرکٹ جج کو سماعت کے بیچ میں کارروائی معطل کرنے اور پہلے اپنے چیمبر میں سننے پر مجبور کرتے ہیں اور کمرہ عدالت میں خواتین ججز پر صنفی امتیاز سے متعلق جملے کہتے اور ان سے بدزبانی کرتے ہیں۔

مزید پڑھیں: خاتون جج کا وکلا کی جانب سے ہراساں کیے جانے پر چیف جسٹس پاکستان کو خط

جوڈیشل افسران کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ ان کے باسز ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز ججز یا سینئر سول ججز عام طور پر اس وقت اس عمل کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں جب کوئی ایسے واقعے سے تحریری طور پر آگاہ کرتا ہے بلکہ یہ مشورہ دیتے ہیں کہ یہ جرائم کرنے والوں کے ساتھ صلح کریں۔

اس معاملے پر ایک جج نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈان کو بتایا کہ ہر روز ان کے ساتھی ججز، جن میں خواتین افسران بھی شامل ہیں، وہ وکلا کی جانب سے واٹس ایپ کے ان گروپ میں بدتمیزی کے واقعات کو رپورٹ کرتے ہیں جو انہوں نے ایک دوسرے سے رابطے کے لیے بنائے ہیں۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ شکایت کرنے والے زیادہ تر ججز کو ان کے باسز کی جانب سے وکلا کے غیر مہذب افعال کو حرف بہ حرف بیان نہ کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے صرف اس لیے تاکہ واقعے کی سنگینی کو کم کیا جاسکے۔

انہوں نے تسلیم کیا کہ زیادہ تر کیسز میں یہ عمل کرنے والے وکلا کے ساتھ ’تصفیہ‘ کو ترجیج دی جاتی ہے کیونکہ اس طرح کے معاملات کا اختتام عموماً ان کے تبادلوں کی صورت میں نکلتا ہے اور کوئی صوبائی دارالحکومت میں تقرر کھونا نہیں چاہتا۔

ان کا کہنا تھا کہ زیادہ تر سیشن ججز ضلع لاہور میں اپنی پوسٹنگ کو طول دینے کے لیے بار کے ساتھ محاذ آرائی سے گریز بھی کرتے ہیں۔

ادھر ایک خاتون جج نے اپنی شکایت میں لکھا کہ ’ایک وکیل ایک مخصوص لا چیمبر سے میری عدالت میں آیا اور مجھ پر چلانا شروع کردیا کہ کیوں میں نے کیس کو خارج کیا؟ جس پر میں نے انہیں اپیل دائر کرنے کا کہا تو انہوں نے کھلی عدالت میں بدتمیزی شروع کردی‘۔

جج نے ’(وکیل کی جانب سے مبینہ طور پر کہے گئے الفاظ کو بیان کیا تاہم اخبار نے ان الفاظ کو شائع نہیں کیا)، ساتھ ہی انہوں نے لکھا کہ میں معذرت خواہ ہوں جو یہ فحش گوئی کو یہاں دہرایا لیکن یہ ضروری تھا کہ معلوم ہوسکے کہ ہم کس سطح پر غلاظت کا سامنا کر رہے ہیں‘۔

دوسری جانب ایک سول جج متعلقہ حکام کی جانب سے لاہور بار ایسوسی ایشن کے عہدیدار اور دیگر کے خلاف ’جسمانی تشدد، بدزبانی، جان سے مارنے کی دھمکی دینے اور عدالتی معاملے میں دخل اندازی‘ کے الزامات پر کوئی کارروائی نہ کرنے پر بظاہر بطور احتجاج طویل چھٹیوں پر چلے گئے۔

اس واقعے سے متعلق لاہور ہائیکورٹ کو تحریری طور پر انہوں نے بیان کیا کہ جس روز یہ واقعہ ہوا اس دن سماعت کے دوران مسلسل انہیں بتایا جاتا رہا کہ لاہور بار ایسوسی ایشن کا عہدیدار اور کچھ دیگر وکلا انہیں ان کے چیمبر میں بلا رہے ہیں جو کمرہ عدالت سے متصل ہے۔

جج کی جانب سے کہا گیا کہ ایک وکیل بھی مسلسل کورٹ ریڈر کے پاس آتا رہا اور یہ پیغام دیتا رہا کہ انہیں (جج) کو بار کے عہدیدار کی جانب سے چیمبر میں بلایا جارہا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ صورتحال اس وقت سنگین ہوئی جب انہوں نے وہ بار سیکریٹری کی سربراہی میں 6 وکلا کو تلاش کرنے کے لیے چیمبر گئے، انہوں نے الزام لگایا کہ بار کے لیڈر نے انہیں’سنگین نتائج‘ کی دھمکی کے ساتھ من پسند حکم جاری کرنے پر مجبور کیا۔

جج نے دعویٰ کیا کہ جب انہوں نے وکلا کے غیرقانونی مطالبے کو پورا کرنے سے انکار کردیا تو انہوں نے نہ صرف ان سے بدزبانی کی بلکہ ان کو گھیسٹا بھی، جس کے بعد کچھ شور ہونے پر دیگر وکلا چیمبر کے اندر آئے اور وہ لوگ وہاں سے چلے گئے۔

بعد ازاں بار کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ جج اور بار حکام کے درمیان تنازع ’خوش اسلوبی‘ سے حل کرلیا گیا تاہم درخواست سامنے آنا یہ ظاہر کرتی ہے کہ کوئی سمجھوتہ نہیں ہوا تھا۔

جج کی جانب سے ایک اور واقعے کا ذکر کیا گیا جس میں وکیل نے من پسند فیصلہ نہ ملنے پر ان کے کمرہ عدالت کو بند کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: جج پر وکیل کا تشدد: عدالت نے تمام فریقین کو نوٹس جاری کردیئے

ادھر ایک خاتون سول جج کی جانب سے دائر ایک شکایت میں ایک خاتون وکیل پر عدالت میں بدتمیزی اور ان کے حق میں درخواست پر فیصلہ نہ کرنے کے لیے دھمکیاں دینے کا الزام لگایا۔

ایک اور خاتون جج نے اپنا تجربہ بیان کیا کہ ’ایک وکیل (نام ظاہر نہیں کیا جارہا) نے مجھے دوسرے وکیل کو سنے بغیر حکم جاری کرنے کے لیے ہراساں کیا اور دباؤ ڈالا جبکہ مجھے کمرہ عدالت سے باہر پھینکنے کی بھی دھمکی دی‘۔

علاوہ ازیں ہفتہ کو ہونے والے حالیہ واقعے میں مختلف وکلا نے کمرہ عدالت میں ایک سول جج پر جسمانی حملہ کیا۔

ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ ایک سینئر جج نے متاثرہ سول جج کو واقعے کی تفصیلات منظر عام پر نہ لانے کا مشورہ دیا اور انہیں 2 دن میں قصورواروں کے خلاف کارروائی کی یقین دہانی کروائی تاہم ایک ہفتہ گزر جانے کے باوجود کوئی کارروائی عمل میں نہیں آئی۔

تاہم ایک سول جج اور وومن فیملی جج کی شکایات پر بار کابینہ نے جرم کرنے والے وکلا کی رکنیت معطل کردی اور معاملے پر مزید کارروائی کے لیے اسے پنجاب بار کونسل بھیج دیا۔

اس حوالے سے ڈان سے گفتگو میں لاہور بار ایسوسی ایشن کے صدر جی اے خان طارق نے دعویٰ کیا کہ اس طرح کے واقعات کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔

ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ ماضی کی نسبت ان کے دور میں عدالتوں میں وکلا کی جانب سے بدتمیزی کے واقعات بہت کم ہوئے ہیں۔

شہباز شریف، حمزہ شہباز کی پیرول پر رہائی کی درخواست

کووڈ 19: حکومتِ سندھ ایس او پیز پر سختی سے عمل درآمد پر تذبذب کا شکار

بین الاقوامی اداروں نے اسلام آباد ماسٹر پلان پر نظرثانی کیلئے بولی جمع کرادی