نقطہ نظر

ہمارے لیے اب گھبرانا کیوں ضروری ہوگیا؟

حکومت کیلئے اپوزیشن کو مورد الزام ٹھہرانا آسان ہےمگر مشکل ہےایک اور لاک ڈاؤن کا فیصلہ کرنا۔ پاکستان میں کورونا بھی سیاسی ہوگیا ہے

آج ہم ایک نہایت ہی پریشان کن موڑ پر کھڑے ہیں۔ حالات اور واقعات ایک الگ سمت کی طرف جارہے ہیں جبکہ سیاست ایک اور ہی طرف۔ یہ وہی سیاست ہے جس کی گھن گرج بروقت فیصلہ سازی کو ہڑپ کر رہی ہے اور خوب کر رہی ہے۔

یعنی کہ ریاستی معاملہ سازی ایک طرف، حکومت اور اپوزیشن ایک اور ہی طرف۔ یہ ریاستی فیصلہ سازی کوئی معمولی معاملات کے حوالے سے نہیں، بلکہ یہ وہ معاملات ہیں جن میں سے اکثر کا تعلق قومی سلامتی سے ہے۔ مگر لگتا یوں ہے کہ ان سے نمٹنے کے لیے نہ ہی وقت ہے، نہ ہی فرصت ہے اور شاید نہ ہی شوق ہے۔

3 ہفتے کے وقفے کے بعد اپوزیشن کی حکومت مخالف مہم ایک بار پھر زور و شور سے شروع ہوچکی ہے۔ اُدھر کورونا وائرس کی دوسری لہر روزانہ کی بنیاد پر شدت اختیار کر رہی ہے۔ گویا کہ یہ وبا ہمارے گرد گھیرا تنگ کر رہی ہے۔

مزید پڑھیے: کیا موجودہ ملکی حالات مذاکرات کا اشارہ دے رہے ہیں؟

آئے دن اس کے شکار ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور ویکسین ابھی بھی کئی ماہ دُور ہے۔ پھر ہمیں درپیش یہ واحد مسئلہ نہیں ہے۔ بلکہ بھارت الگ آنکھیں دکھا رہا ہے، افغانستان میں مذاکرات کا سلسلہ رکا ہوا ہے، ایران اور خلیجی ممالک کے درمیان کشیدگی بڑھتی جارہی ہے اور آئی ایم ایف کا پروگرام بھی اپنی چھریاں تیز کر رہا ہے۔

ناظرین ہم ایک پریشان کن موڑ پر کھڑے ہیں۔ وزیرِاعظم صاحب کہتے ہیں کہ گھبرانا نہیں ہے، مگر شاید وقت کا تقاضہ کچھ اور ہے، اور گھبرا لینے سے شاید ان تقاضوں کا اعتراف بھی ہوجائے گا۔

چنانچہ آئیں آج ہم سب مل کر تھوڑا سا گھبرا لیں۔ اس وبا سے، جس کو روکنے کے لیے ہمارے پاس نہ تو دوا ہے اور نہ ہی نظم و ضبط۔

آئیں گھبرا لیں اس بات پر کہ پاکستان میں روزانہ کی بنیاد پر لوگ ناصرف کورونا کا شکار ہورہے ہیں بلکہ اس دنیا سے رخصت بھی ہورہے ہیں۔ حکومت اپوزیشن کو جلسوں سے منع کرے گی مگر خود دل کھول کر جلسے کرچکی ہے۔ اپوزیشن حکومت کو لاک ڈاؤن کی تاکید کرتی رہی ہے اور اب خود لاک ڈاؤن کے بجائے جلسوں کے ذریعے حکومت کو رن ڈاؤن کرنے میں مصروف ہے۔

حکومت کے لیے اپوزیشن کو موردِ الزام ٹھہرانا آسان ہے مگر مشکل ہے ایک اور لاک ڈاؤن کا فیصلہ کرنا۔ پاکستان میں کورونا بھی سیاسی ہوگیا ہے۔

اس لیے آئیں آج ہم سب مل کر تھوڑا سا گھبرا لیں۔ گلگت بلتستان کو صوبائی اسٹیٹس دینے کے حوالے سے، کیونکہ اس اہم ترین معاملے پر بھی حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے سے بات کرنے کے لیے تیار نہیں۔ بات چیت چھوڑیں، یہ دونوں تو ایک میز پر بیٹھنے کو بھی تیار نہیں، میز پر بیٹھنا چھوڑیں، یہ دونوں تو ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کو بھی تیار نہیں۔ ایسے ماحول میں خاک یہ معاملات سلجھائیں گے؟

اس لیے آئیں آج ہم سب مل کر تھوڑا سا گھبرا لیں۔ اس خطرے سے جو بھارت کی طرف سے امڈنا شروع ہو رہا ہے۔ بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی نے ایک بار پھر پاکستان پر دہشت گردی کے حوالے سے بے بنیاد الزامات لگانا شروع کردیے ہیں۔ عین ممکن ہے یہ ان شواہد سے بھری رپورٹ کا ردِعمل ہو، جو پاکستان نے گزشتہ ہفتے شائع کی۔ دفاعی اور خارجہ پالیسی ماہرین اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ بھارت کسی بھی وقت لائن آف کنٹرول پر شرارت کرسکتا ہے۔

مگر پاکستانی سیاست میں آج اس خطرے کا احساس آپ کو ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گا۔

مزید پڑھیے: موجودہ سیاسی صورتحال میں مذاکرات ناگزیر کیوں؟

اور جب گھبرا ہی رہے ہیں تو آئیے ذرا مل کر تھوڑا سے گھبرا لیں، اس مفلوج ہوتے سیاسی نظام پر، جو اس ملک کے معاملات کو چلانے کا دعوٰی کرتا ہے۔ آج اس نظام میں صرف لڑائی جھگڑا ہے، دنگا فساد ہے مار کٹائی ہے، گالم گلوچ ہے اور نفرتوں کا ایک گرم بازار ہے۔

اس نظام میں حکمرانی کی سکت کہاں؟ پالیسی سازی کی سکت کہاں؟ ملک ایسے چلائے جاتے ہیں؟ معاملات ایسے سلجھائے جاتے ہیں؟ اور بڑے بڑے ایشوز ایسے نمٹائے جاتے ہیں؟

اس پورے ماحول میں، ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم سب مل کر تھوڑا سا گھبرا لیں۔

فہد حسین

لکھاری اسلام آباد میں ڈان کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔