صحت

ایک عام ویکسین کووڈ 19 سے تحفظ فراہم کرسکتی ہے، تحقیق

ایسے شواہد مسلسل سامنے آرہے ہیں کہ اس وقت موجود ویکسینز کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کے حوالے سے فائدہ مند ہوسکتی ہیں۔

نئے کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے دنیا بھر میں ویکسینز کی تیاری پر کام ہورہا ہے اور حالیہ دنوں میں کئی کمپنیوں نے مثبت پیشرفت پر مبنی نتائج جاری کیے ہیں۔

مگر ایسے شواہد مسلسل سامنے آرہے ہیں کہ اس وقت موجود ویکسینز کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کے حوالے سے فائدہ مند ہوسکتی ہیں، حالانکہ وہ اس کے لیے تیار نہیں ہوئیں۔

ان میں سے ایک ایم ایم آر (خسرہ، کن پیڑے،روبیلا یا جرمن خسرہ) ویکسین بھی ہے، جس کی کووڈ 19 کے خلاف افادیت جانچنے کے لیے رواں سال جولائی سے کام ہورہا ہے۔

اب محققین نے مزید ثبوت پیش کیے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس ویکسین کے استعمال سے پیدا ہونے والی اینٹی باڈیز کووڈ 19 کے ایسے مریضوں کو بیماری کی سنگین شدت سے بچاتی ہے، جن کو یہ ایم ایم آر 2 ویکسین میں استعمال کرائی گئی۔

ایم ایم آر 2 ویکسین میں خسرے کی ایڈمونسٹن قسم، ممفس کی جیرل لینن (بی لیول) قسم اور ربیولا کی وسٹر آر اے 27/3 قسم کو استعمال کیا گیا۔

طبی جریدے ایم بائیو میں شائع تحقیق میں شامل محققین کا کہنا تھا کہ ہم نے دریافت کیا کہ ایم ایم آر ویکسین 2 استعمال کرنے والےل 42 سال سے کم عمر افراد اور کووڈ 19 کی شدت میں تعلق موجود ہے۔

انہوں نے بتایا کہ نتائج سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ ایم ایم آر ویکسین ممکنہ طور پر کووڈ 19 کے خلاف تحفظ فراہم کرسکتی ہے اور اس سے یہ بھی وضاحت ہوتی ہے کہ بچوں میں اس وبائی بیماری کے کیسز کی شرح بالغ افراد کے مقابلے میں اتنی کم کیوں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بیشتر بچوں کو یہ ویکسین پہلے 12 سے 15 ماہ جبکہ دوسری بار 4 سے 6 سال کی عمر میں لگائی جاتی ہے۔

اس تحقیق کے لیے محققین نے 80 افراد کو 2 گروپس میں تقسیم کیا۔

ایک ایم ایم آر 2 والا گروپ تھا جس میں 50 افراد شامل تھے جبکہ دوسرا گروپ 3 افراد کا جن میں ایم ایم آر 2 ویکسینیشن کی کوئی تاریخ نہیں تھی بلکہ ان میں ایم ایم آر اینتی باڈیز دیگر ذرائع بشمول خسرہ، ممفس یا ربیولا کی بیماری سے بنیں۔

محققین نے ایم ایم آر 2 گروپ والے افراد میں کووڈ 19 کی شدت میں نمایاں تعلق کو دریافت کیا جبکہ دوسرے گروپ میں ایسا تعلق نظر نہیں آیا۔

ایم ایم آر 2 گروپ میں ممفس اینٹی باڈیز کی شدت 134 سے 300 اے یو/ایم ایل ان افراد میں دیکھی گی جو امیون یا بغیر علامات والے مریض تھے۔

اس کے مقابلے میں کووڈ 19 کی معمولی علامات والے مریضوں میں ان اینٹی باڈیز کی شرح 134 اے یو/ایم ایل تھی اور معتدل علامات والے افراد میں 75 اے یو/ایم ایل سے کم تی۔

جن افراد میں کووڈ 19 کی شدت زیادہ تھی اور انہیں ہسپتال داخل کرایا گیا جہاں آکسیجن کی ضرورت پڑی، ان میں یہ شرح 32 اے یو/ایم ایل سے کم تھی۔

محققین کا کہنا تھا کہ یہ پہلی امیونولوجیکل تحقیق ہے جس میں ایم ایم آر 2 ویکسین اور کووڈ 19 کے تعلق کی جانچ پڑتال کی گئی۔

انہوں نے بتایا کہ اعدادوشمار سے ثابت ہوتا ہے کہ ممفس اینٹی باڈیز اور کووڈ 19 کے درمیان مضبوط تعلق موجود ہے اور اس حوالے سے مزید تحقیقات ہونی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایم ایم آر 2 کو ایک محفوظ ویکسین تصور کیا جاتا ہے جس کے مضر اثرات بہت کم ہیں اور اگر وہ کووڈ 19 کی روک تھام اور اسے پھیلانے کے لیے مفید ہو یا شدت کم کرسکے، تو یہ ایک بہترین ٹول ثابت ہوسکتی ہے۔

اس سے پہلے جولائی میں ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ اس ویکسین کے استعمال سے کووڈ 19 کے مریضوں میں شدید ترین ورم اور اموات کا خطرہ کم ہوسکتا ہے۔

تحقیقی رپورٹس میں ثابت ہوا ہے کہ اس طرح کی ویکسینز مدافعتی نظام کی 'تربیت' کرکے دیگر بیماریوں سے بھی تحفظ فراہم کرتی ہیں۔

یہ ویکسینز غیر روایتی مدافعتی ردعمل میں مدد فراہم کرتی ہیں اور بیماری کے خلاف اولین دفاعی دیوار ثابت ہوتی ہیں۔

جولائی میں ہونے والی تحقیق میں شامل لوزیانے اسٹیٹ یونیورسٹی ہیلتھ اسکول آف ڈینٹسیٹی کے ایسوسی ایٹ ڈین ڈاکٹر پال فیڈل جونیئر نے بتایا کہ ایسی ویکسینز کسی مخصوص جراثیم کے خلاف مدافعت بڑھانے کے ساتھ ساتھ غیرروایتی فوائد بھی فراہم کرتی ہیں۔

ڈاکٹر پال فیڈل نے تولان یونیورسٹی آف میڈیسین کے مائیکرو بائیولوجی اور امیونولوجی کی پروفیسر ڈاکٹر میری نوور کے ساتھ مل کر کام کیا اور نتائج سے معلوم ہوا کہ ان ویکسینز سے تحفظ مدافعتی خلیات کی ایک قسم ایم ڈی ایس سی کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔

طبی ماہرین نے چوہوں پر تجربات میں ثابت کیا ہے کہ یہ خلیات کسی بیماری سے ورم اور اموات کا خطرہ کم کرتے ہیں جبکہ اس نئی تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا کہ اس طرح کی ویکسینز سے عفونت کے مرض سے بھی ایم ڈی ایس سی کی بدولت ممکنہ تحفظ مل سکتا ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ ایک ایم ایم آر ویکسین کووڈ 19 کے شکار افراد میں ایم ڈی ایس سی خلیات کو شامل کرکے پھیپھڑوں کے ورم اور عفونت سے لڑنے میں مدد فراہم کرسکتی ہے جو اس بیماری کے سنگین کیسسز میں عام مسائل ہیں۔

اس کے ثبوت کے طور پر انہوں نے یو ایس ایس روزویلٹ کے 955 ملاحوں کو ٹیسٹ کیس کے طور پر پیش کیا جن میں کووڈ 19 کی تصدیق ہوئی مگر اس کی شدت معتدل تھی۔

محققین کا کہنا تھا کہ ایسا ممکنہ طور پر اس لیے ہوا ککیونکہ امریکی بحریہ میں تمام افراد ایم ایم آر ویکسینیشن کے عمل سے گزرتے ہیں، تاہم ان افراد کی عمریں اور جسمانی فٹنس بھی بحالی صحت میں کردار ادا کرنے والے عوامل ہیں۔

دیگر شواہد بھی ایم ایم آر ویکسین اور کووڈ 19 کے درمیان ایک تعلق کو سپورٹ کرتے ہیں، ڈیٹا کو دیکھ کر دریافت کیا گیا کہ ایسے علاقوں میں رہنے والے افراد جہاں ایم ایم آر ویکسین معمول ہے، وہاں کووڈ 19 سے ہلاکتوں کی شرح کم دیکھی گئی۔

کووڈ 19 ممکنہ طور پر بچوں کو بھی کم متاثر کرنے والی بیماری ہے اور اس کی وجہ بھی ویکسینیشن ہیں، یعنی ٹی بی یا ایم ایم آر جیسی ویکسینز بچوں کے تحفظ میں ممکنہ کردار ادا کررہی ہیں۔

کورونا وائرس کے 50 فیصد سے زیادہ کیسز کی بڑی وجہ سامنے آگئی

وہ ملک جہاں 10 لاکھ افراد کو تجرباتی کورونا ویکسین استعمال کرائی گئی

ایک گھر کے اندر کووڈ 19 کتنی تیزی سے پھیل سکتا ہے؟