اپنے دور میں ڈرون حملوں کا حکم دے کر کبھی خوشی محسوس نہیں کی، براک اوباما
امریکا کے سابق صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ انہیں اپنے دور میں ڈرون حملوں کا حکم دینے میں کوئی خوشی نہیں ہوتی تھی جس میں ہزاروں دیگر جانوں کا ضیاع ہوا لیکن ’دہشت گردی کے خلاف نرم پہلو‘ رکھنے کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا۔
براک اوباما نے 17 نومبر کو شائع ہونے والی اپنی نئی سوانح عمری ‘اے پرومسڈ لینڈ' میں ڈرون حملوں میں معصوم جانوں کے ضیاع سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
مزید پڑھیں: پاک- افغان سرحد پر ڈرون حملہ، 2 طالبان کمانڈر ہلاک
بزنس انسائیڈر میں شائع خلاصے میں کہا گیا کہ براک اوباما نے دعویٰ کیا کہ ان کے پہلے چیف آف اسٹاف راہم ایمانوئیل دہشت گردوں کی فہرست کے حوالے سے ’جنونی‘ تھے۔
انہوں نے کہا کہ ’راہم ایمانوئیل نے ’واشنگٹن میں یہ جاننے کے لیے کافی وقت گزارا کہ ان کا نیا اور آزاد خیال صدر دہشت گردی کے خلاف نرم گوشے کا متحمل نہیں ہے‘۔
سابق صدر نے کہا کہ ’یمن اور افغانستان، پاکستان اور عراق جیسی جگہوں پر لاکھوں نوجوان مایوسی، جہالت، شاندار مذہبی دور کا خواب، پرتشدد یا اپنے بزرگوں کی اسکیموں کی وجہ سے تنگ آچکے ہیں'۔
انہوں نے کہا کہ یہ نوجوان خطرناک بھی ہوئے اور اکثر دانستہ اور لاشعوری طور پر ظالمانہ کارروائیوں کا حصہ بنے۔
براک اباما نے کہا کہ میں کم از کم چاہتا تھا کہ انہیں بچا سکوں، انہیں اسکول بھیجا جا سکے، انہیں تجارتی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا موقع ملے اور ان کے دماغ سے نفرت کو نکالا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ ’اور اس کے باوجود وہ دنیا کا حصہ تھے اور جس مشینری (ڈرون) کا میں نے حکم دیا تھا اس میں اکثر ان کی موت ہو جایا کرتی تھی‘۔
یہ پھی پڑھیں: پاک-افغان سرحد کے قریب ڈرون حملہ، 5 افراد ہلاک
سابق امریکی صدر نے کہا کہ ’میں نے کبھی بھی خوشی محسوس نہیں کی اور نہ ہی کبھی خود کو طاقتور محسوس کیا‘۔
انہوں نے کہا کہ ’میں بچوں کی بہتر تعلیم، ان کے اہلخانہ کو صحت کی سہولیات فراہم کرنے، غریب ممالک کو زیادہ سے زیادہ خوراک کے حصول کے لیے مدد کرنے کی نیت سے سیاست میں داخل ہوا تھا‘۔
بزنس انسائیڈر کی رپورٹ میں کہا گیا کہ ’لیکن یہ کام ضروری تھا اور یہ میری ذمہ داری تھی کہ ہم یہ یقینی بنائیں کہ ہمارے آپریشن زیادہ سے زیادہ موثر ہوں‘۔
براک اوباما نے مزید لکھا کہ ملک کی سلامتی کے اداروں کو ’جنگ کی نئی شکلیں‘ تیار کرنے کا چیلنج دیا گیا تھا کیونکہ القاعدہ منتشر ہو کر زیر زمین چلی گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ چونکہ القاعدہ روپوش ہوگئی تھی اور انٹرنیٹ اور برنرز فون کے ذریعے اپنے ہمدردوں، آپریٹوز اور سلیپر سیلز سے رابطہ قائم کرنے کا پیچیدہ نظام بنا چکی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: 14 سال میں ڈرون حملوں کے باعث ہزاروں افراد کی ہلاکت
سابق صدر نے کہا کہ لہٰذا ہماری قومی سلامتی کے اداروں کو چیلنج کیا گیا تھا کہ وہ زیادہ سے زیادہ ہدف طے کریں، غیر روایتی جنگ کی نئی شکلیں تیار کریں جس میں پاکستان کے علاقے میں القاعدہ کے سرگرم کارکنوں کو نکالنے کے لیے مہلک ڈرونز بھی شامل تھے‘۔
قومی انسداد دہشت گردی اتھارٹی (نیکٹا) کی جانب سے نومبر 2018 میں پیش کی جانے والی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ پاکستان میں جنوری 2004 سے اب تک 409 ڈرون حملے ہوچکے ہیں جن میں 2 ہزار 7 سو 14 افراد ہلاک اور 7 سو 28 افراد زخمی ہوئے تھے۔
نیکٹا کے مطابق زیادہ تر حملے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے دور حکومت (2013-2008) میں ہوئے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت (2018-2013) کے درمیان 65 ڈرون حملے ہوئے جن میں 301 افراد ہلاک اور 70 زخمی ہوئے۔
14 سال سے جاری ان حملوں میں باجوڑ، بنوں، ہنگو، خیبر، کرم، مہمند، شمالی وزیرستان، نوشکی، اورکزئی اور جنوبی وزیرستان کے علاقوں کو نشانہ بنایا گیا۔