دنیا

آذربائیجان کی فوج آرمینیا کے واپس کیے گئے پہلے شہر میں داخل

اغدام کے لوگوں کو ان کی آبائی زمینیں واپس کی جائیں گی جبکہ آرمینیائی افراد تمام چیزوں کو آگ لگا رہے ہیں، صدر آذربائیجان

آذربائیجان کی فوج نیگورنو-کاراباخ میں آرمینیا کی جانب سے واپس کیے گئے پہلے علاقے ضلع اغدام میں داخل ہوگئی۔

خبر ایجنسی 'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق آذربائیجان کا کہنا تھا کہ روس کی ثالثی میں ہونے والے معاہدے کے تحت آرمینیائی علیحدگی پسندوں کی جانب سے نیگورنو-کاراباخ میں ضلع اغدام کا قبضہ واپس کیا گیا جہاں آذربائیجان کی فورسز داخل ہوگئی ہیں۔

آذربائیجان کی وزارت دفاع کا کہنا تھا کہ آذربائیجان کو واپس ملنے والے تین علاقوں میں سے ایک اغدام میں فوج پہنچ گئی ہے جبکہ ایک روز قبل ہی آرمینیا کی فوج اور سپاہی علاقے کو خالی کرچکے تھے۔

مزید پڑھیں: آرمینیا، آذربائیجان اور روس نے نیگورنو۔کاراباخ میں لڑائی کے خاتمے کے معاہدے پر دستخط کردیے

آرمینیا 25 نومبر کو نیگورنو-کاراباخ کا ایک اور ضلع کلبجر اور یکم دسمبر کو تیسرا ضلع لاچین آذربائیجان کو واپس کرے گا۔

اغدام میں مقیم آرمینیائی افراد علاقے کو خالی کرتے وقت درختوں پر لگے پھل اور دیگر اشیا گاڑیوں میں لاد کر لے گئے اور پہاڑی سلسلے سے ڈھکے صوبے کو خالی کردیا۔

رپورٹ کے مطابق آرمینیائی افراد نے علاقہ چھوڑنے سے گھنٹوں قبل اپنے گھروں کو آگ لگا دی اور آذربائیجان کے لیے کچھ بھی ثابت نہیں چھوڑا۔

آذربائیجان کے صدر الہام علیوف نے ٹی وی پر خطاب میں کہا کہ آرمینیائی افراد علاقے خالی کرتے وقت تمام چیزوں کو نذرآتش کر رہے ہیں، وہ خود کو دنیا کے سامنے بدنام کر رہے ہیں۔

دارالحکومت باکو میں گزشتہ روز شہریوں نے فتح کا زبردست جشن منایا تھا جہاں گاڑیوں کی قطاریں لگی تھیں اور آذربائیجان کے قومی پرچم کے ساتھ ساتھ ترکی اور روس جیسے اتحادیوں کے پرچم بھی لہرائے جارہے تھے۔

انہوں نے اغدام کے شہریوں کو ان کی آبائی زمینیں واپس کرنے کا وعدہ کیا۔

واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے ہونے والے معاہدے کے تحت آرمینیا نے نیگورنو-کاراباخ میں آذربائیجان سے حاصل کیے گئے 15 سے 20 فیصد علاقے کو خالی کرنے کی حامی بھری تھی جس میں تاریخی شہر شوشا بھی شامل ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ترک پارلیمنٹ میں آذربائیجان میں فوج کی تعیناتی کیلئے بل پیش

جنگ بندی معاہدے کے تحت نیگورنو-کاراباخ میں روس اور ترک افواج نگرانی کریں گی جبکہ آرمینیائی افراد متنازع خطہ چھوڑ دیں گے۔

روس اور ترک وزرائے دفاع نے ایک یادداشت پر دستخط کیے تھے اور طے پایا تھا کہ آذربائیجان میں مشترکہ طور پر نگرانی کے لیے ایک سینٹر قائم کیا جائے گا۔

جنگ بندی معاہدے کے بعد آرمینیا میں وزیراعظم نیکول پاشینیان کے خلاف شدید احتجاج ہوا تھا اور مظاہرین ان کو غدار قرار دیتے ہوئے استعفے کا مطالبہ کر رہے تھے۔

انہوں نے مظاہرین سے مسلح احتجاج سے گریز کرنے پر زور دیا اور توقع ظاہر کی کہ اپوزیشن بھی اس اقدام کی نفی کرے گی۔

آرمینیا اور آذربائیجان نے بدترین لڑائی کے بعد 10 نومبر کو جنگ بندی معاہدے کا اعلان کیا تھا اور آذربائیجان میں اس کو فتح کے طور پر منایا گیا تھا۔

آرمینیا کے وزیراعظم نے اس کو سانحہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ شکست کے آثار کو دیکھتے ہوئے اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔

جنگ بندی معاہدے کے بعد عالمی سطح پر تسلیم شدہ آذربائیجان کے علاقے نیگورنو-کاراباخ میں لڑائی ختم ہوگئی ہے۔

نیگورنو-کاراباخ تنازع

آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان 1990 میں سوویت یونین سے آزادی کے ساتھ ہی کاراباخ میں علیحدگی پسندوں سے تنازع شروع ہوا تھا اور ابتدائی برسوں میں 30 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔

دونوں ممالک کے درمیان 1994 سے حالیہ لڑائی تک تنازع کے حل کے لیے مذاکرات میں واضح پیش رفت نہیں ہوسکی تھی تاہم جنگ بندی کے متعدد معاہدے ہوتے رہے۔

آرمینیا کے پشت پناہی کے ساتھ آرمینیائی نسل کے علیحدگی پسندوں نے 1990 کی دہائی میں ہونے والی لڑائی میں نیگورنو-کاراباخ خطے کا قبضہ باکو سے حاصل کرلیا تھا لیکن نیگورنو-کاراباخ کو بین الاقوامی سطح پر آذربائیجان کا حصہ تسلیم کیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: آذربائیجان، آرمینیا کے درمیان ثالثی کی پہلی کوشش، لڑائی بدستور جاری

بعد ازاں فرانس، روس اور امریکا نے ثالثی کا کردار ادا کیا تھا لیکن 2010 میں امن معاہدہ ایک مرتبہ پھر ختم ہوگیا تھا۔

نیگورنو-کاراباخ میں تازہ جھڑپیں 27 ستمبر کو شروع ہوئی تھیں اور پہلے روز کم ازکم 23 افراد ہلاک ہوگئے تھے جبکہ فوری طور پر روس اور ترکی کشیدگی روکنے کا مطالبہ کیا تھا۔

نیگورنو-کاراباخ کا علاقہ 4 ہزار 400 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے اور 50 کلومیٹر آرمینیا کی سرحد سے جڑا ہے۔

منی لانڈرنگ کی تحقیقات: ایف آئی اے کا سندھ، پنجاب پولیس سے مفاہمتی یادداشت پر دستخط

متحدہ عرب امارات میں ‘جدت پسندی’ کو نمایاں کرنے کیلئے قوانین میں تبدیلی

سعودی عرب کے فلم فیسٹیول میں 11 فلموں کی نمائش