قصہ پاکستانی جادوئی ڈبے کا
صاحبو، ’خدا کی بستی’ میں خوش آمدید۔
ایک ایسی بستی میں خوش آمدید، جہاں کی ‘ہوائیں‘ اور’ تنہائیاں‘ ایک ‘ان کہی’ کہانی سناتی ہیں۔ یہ کہانی ہے ‘وارث’ کی، ’دھوپ کنارے’ کی، ‘آنگن ٹیڑھا’، ‘دھواں‘ اور ‘الفا براوو چارلی’ کی۔ یہ کہانی ہے، پاکستان ٹیلی ویژن کی، جس کے سنہری دور سے کروڑوں پاکستانیوں کی حسین یادیں وابستہ ہیں۔ اور پاکستان ہی کیا، اس کے ڈراموں نے تو ایک عرصے بھارتیوں کو بھی گرویدہ بنائے رکھا۔
آج اس یاد کو تازہ کرنے کا سبب یہ ہے کہ سال 1964ء میں اسی ماہ، یعنی نومبر کی 26 تاریخ کو اس باکمال ادارے کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ گو پی ٹی وی اپنی ساکھ برقرار نہیں رکھ سکا، پرائیویٹ چینلز کی بہتات میں آج کہیں دکھائی نہیں دیتا، مگر اس کے سنہری دور کی کہانی عجب ہے۔
یہ وہ زمانہ تھا، جب ناظرین پر پی ٹی وی کا سحر طاری تھا۔ ایک کے بعد ایک گرویدہ بنا لینے والے پروگرام، یادگار کھیل، متاثر کن ڈرامے۔ بات تو افسانوی لگتی ہے، مگر ہے حقیقت کہ جب پی ٹی وی کے ڈرامے نشر ہوتے، تو سڑکیں سنسان، بازار ویران ہوجاتے۔ ناظرین اس جادوئی دنیا میں داخل ہونے کے لیے اپنی تمام مصروفیات ترک کردیتے۔ تقریبات کی تاریخوں کا تعین کرتے ہوئے بھی یہ پیش نظر رکھا جاتا کہ کہیں اس روز ‘خدا کی بستی’ یا ’وارث’ تو ٹیلی کاسٹ نہیں ہورہا۔
کہانی کا ابتدائیہ
گو ریڈیو کے برعکس پی ٹی وی کی کہانی قیامِ پاکستان سے شروع نہیں ہوتی، مگر قوم کو آگاہی، شعور اور معیاری تفریح کی فراہمی میں اس کا کردار بھی ریڈیو جتنا ہی مؤثر رہا۔ پاکستان دنیا کا 52واں ملک تھا، جو ٹی وی نشریات کے نقشے پر ابھرا۔ کہانی کا آغاز 5 اکتوبر 1960 کو ہوا، جب وفاقی کابینہ نے تعلیمی مقاصد کے لیے ٹی وی کے قیام کی منظوری دی۔
صدر ایوب خان کو اس قصے میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ 1961ء میں دورہ جاپان کے موقع پر ان کے ذہن میں عوام اور حکومت کے درمیان براہِ راست رابطے کے لیے پہلی بار ٹیلی ویژن اسٹیشن کے قیام کے خیال نے جنم لیا۔ اسی برس حکومتی دعوت پر جاپانی ماہرین نے پاکستان میں ٹیلی ویژن کے قیام کے امکانات کا تفصیلی جائزہ لیا اور اپنی رپورٹ میں تجویز دی کہ پاکستان میں ٹی وی کو تعلیم تک محدود رکھنے کے بجائے عمومی مقاصد کے لیے متعارف کرایا جائے۔
اچھا، چند ریسرچرز کے مطابق حکومت کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ سیکٹر میں بھی اس آئیڈیے پر کام شروع ہوچکا تھا۔ اس ضمن میں ممتاز صنعت کار، سید واجد علی کا بالخصوص تذکرہ کیا جاتا ہے۔
دراصل 1961ء میں ایک جاپانی کمپنی کے تعاون سے نجی شعبے میں ٹیلی ویژن کی داغ بیل ڈالی گئی تھی۔ بعدازاں ملک کے وسیع تر قومی مفاد میں اس منصوبے کو قومیا لیا گیا، مگر آغاز جہاں سے بھی ہوا ہو، کہانی کا اہم ترین موڑ 12 اکتوبر 1962ء کو روشنیوں کے شہر کراچی میں ہونے والی وہ صنعتی نمائش تھی، جہاں حکومتی سرپرستی میں ایک تجرباتی ٹیلی ویژن اسٹوڈیو قائم کیا گیا۔
کراچی سے لاہور تک کی کہانی
وہ دن کراچی کے لیے تجسس، مسرت اور حیرت لے کر آیا۔ اس اسٹوڈیو سے غیر ملکی فلموں اور ڈراموں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں تیار کردہ خصوصی پروگرام بھی نشر کیے گئے، جن میں معروف شخصیات کے انٹرویوز، مشاعرے، مزاحیہ پروگرام اور کوکنگ شو شامل تھے۔
ان پروگراموں کو ایک ٹرانسمیٹر کے ذریعے شہر میں نصب 200 ٹی وی سیٹس پر براہِ راست نشر کیا گیا۔ یہ ٹی وی سیٹس وہ دروازے تھے، جو ناظرین کو ایک نئی دنیا میں لے گئے۔ اگلے روز صدر ایوب خان کی تقریر نشر ہوئی، جنہوں نے پاکستان میں ٹیلی ویژن کے قیام کا عندیہ دے دیا۔ لاہور اوّلین مرکز ٹھہرا، اور اس میگا پراجیکٹ پر کام شروع کردیا گیا۔
وہ 26 نومبر 1964ء کو لاہور پر اترنے والی ایک خوشگوار شام تھی، جب اچانک شہر کے چوکوں چوراہوں پر ایک ہجوم امڈ آیا۔ رش اتنا تھا کہ سڑکوں پر ٹریفک جام ہوگیا۔ سب کی نظریں حکومت کی نصب کردہ جادوئی اسکرینوں پر ٹکی تھیں۔ برِصغیر کی تاریخ میں ایک اہم واقعہ رونما ہونے کو تھا۔ کراچی کی صنعتی نمائش سے شروع ہونے والی پُرتجسس داستان 26 نومبر 1964ء کو اپنے عروج پر پہنچ گئی۔
شام 4 بجے ‘پی ٹی وی’ کا افتتاح ہوا اور پاکستان ابلاغی دوڑ میں اپنے پڑوسیوں پر سبقت لے گیا۔ قاری علی حسین صدیقی نے تلاوت قرآن پاک پیش کی۔ صدر ایوب خان نے افتتاحی تقریر کی۔ طارق عزیز اور کنول نصیر اوّلین اناؤنسر ٹھہرے۔ انیس احمد پاکستان ٹیلی ویژن کے پہلے کیمرا مین قرار پائے۔ معروف گلوکار طفیل نیازی نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔
اس روز انگریزی اور اردو میں بلیٹن کے علاوہ مذہبی اور کوئز پروگرام بھی پیش کیے گئے، اور 2 ہی روز بعد، 28 نومبر کو پاکستان نے اپنا پہلا ڈراما ‘نذرانہ‘ پیش کرکے نئی تاریخ رقم کردی۔ فضل کمال کی اس پیشکش میں قوی خان، بختیار احمد، کنول نصیر نے اداکاری کے جوہر دکھائے۔
پی ٹی وی کی تشکیل میں ریڈیو کا کردار
یہ ریڈیو ہی تھا، جس کے زیرِ سایہ اس عظیم ادارے کی بنیاد رکھی گئی۔ لاہور کے معروف ثقافتی مرکز الحمرا میں اگست 1964ء میں قائم ہونے والا عارضی دفتر ریڈیو پاکستان (لاہور) کی تاریخی عمارت میں منتقل ہوچکا تھا۔ ریڈیو اور تھیٹر کا وسیع تجربہ رکھنے والے اسلم اظہر پہلے منیجنگ ڈائریکٹر تھے۔
پرانے کردار نئی کہانی میں، نئے روپ میں جلوہ گر ہوئے۔ زیڈ اے بخاری ہوں، اسلم اظہر یا آغا ناصر، پی ٹی وی کی تشکیل و ترقی میں ریڈیو کے تجربہ کار افراد نے کلیدی کردار ادا کیا۔
ریڈیو کے مشہورِ زمانہ پروگرام ‘اسٹوڈیو نمبر 9’ سے شناخت حاصل کرنے والے قاضی واجد، طلعت حسین، جمشید انصاری، عشرت ہاشمی اور زینت یاسمین جیسے فنکار پی ٹی وی کا نیا چہرہ بنے۔
طلسم کدے کا دروازہ کھل چکا تھا۔ پی ٹی وی نے معلومات، آگاہی اور تفریحی کے نئے در وا کردیے۔ 25 دسمبر 1964ء کو ڈھاکا میں ٹیلی ویڑن اسٹیشن کا افتتاح ہوا۔ سیکڑوں میل کے فاصلے پر موجود پاکستان کے یہ دونوں اسٹیشن تب یومیہ 3، 3 گھنٹے کی نشریات کا اہتمام کیا کرتے تھے۔
کہانی ’کسوٹی‘ کی!
ان دنوں پیر کو نشریات کی چُھٹی ہوا کرتی تھی۔ شہری اس روز اداس دکھائی دیتے۔ ریکارڈنگ کی سہولت میسر نہ ہونے کی وجہ سے تمام پروگرام براہِ راست نشر کیے جاتے۔ جب ایک لائیو پروگرام ختم ہوتا، تو اس کے بعد درآمدی یا دستاویزی فلم لگا دی جاتی اور اس وقفے میں دوسرے لائیو پروگرام کا سیٹ لگ جاتا۔
اچھا، اس زمانے میں پی ٹی وی نشریات کا بڑا حصہ غیر ملکی دستاویزی فلموں پر مشتمل ہوتا تھا، مگر جلد ہی پی ٹی وی نے اس مشکل میدان میں بھی قدم رکھ دیا۔ شکاریات، جنگلات اور تعمیرات کے موضوع پر بننے والی ان دستاویزی فلموں کو عبیداللہ بیگ اور قریش پور جیسے ناموں نے پروڈیوس کیا، جنہوں نے بعد ازاں ‘کسوٹی‘ جیسی دلچسپ اور معلوماتی پیشکش کے ذریعے کوئز پروگرامز کو ایک نیا روپ دے ڈالا۔
مزید پڑھیے: ہر دور کے سب سے مقبول 20 پاکستانی ڈرامے
سن 67ء میں شروع ہونے والے کوئز پروگرام ’کسوٹی’ نے 3 نسلوں کو متاثر کیا۔ پروگرام کے میزبان تھے قریش پور، جبکہ 20 سوالات میں مہمان شخصیات کے ذہن میں موجود نام تک پہنچنے کا فریضہ انجام دیا کرتے تھے عبید اللہ بیگ اور افتخار عارف، پھر بعد ازاں غازی صلاح الدین نے افتخار عارف کی جگہ سنبھال لی۔ یہ مقبول پروگرام کئی برس تک کامیابی سے جاری رہا۔
پی ٹی وی کی یہ کہانی ابھی ادھوری ہے، یہ تب ہی مکمل ہوگی، جب ان یادگار ڈراموں کا تذکرہ آئے گا، جنہوں نے کروڑوں افراد کو اپنی زلف کا اسیر بنا لیا تھا۔
پاکستان کو ٹیلی ویژن کے آغاز کے میدان میں ملائیشیا اور بھارت سمیت کئی ایشیائی ممالک پر فوقیت حاصل رہی، اور اس فوقیت پر پاکستانی ڈراموں نے تصدیق کی مہر ثبت کردی۔ یہ پاکستانی فنکاروں کی محنت کا ثمر تھا کہ ایشیا کے مختلف ممالک میں پاکستانی ڈراما پڑھایا جانے لگا۔ یہ پڑوسی ممالک میں رول ماڈل ٹھہرا۔ یورپی فیسٹولز میں اعزازت سے نوازا گیا۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب پاکستانی ڈراما بذات خود ایک ‘درس گاہ’ کا درجہ حاصل کرگیا تھا۔
پاکستانی ڈرامے کا آغاز تو سن 64ء میں اس کے افتتاح کے ساتھ ہی ہوگیا تھا، مگر نئے سینٹرز کے قیام کے ساتھ مسابقت کی صحت مند فضا نے جنم لیا۔ شوکت صدیقی، کمال احمد رضوی، اشفاق احمد، امجد اسلام امجد، عبید اللہ بیگ، بانو قدسیہ جیسے قد آور کہانی کاروں نے پی ٹی وی میں قدم رکھا، اور یوں گرویدہ بنا لینے والے ان ڈراموں کا جنم ہوا، جن کے مکالمے آج بھی ہمارے کانوں میں گونجتے ہیں۔
سن 66ء میں کراچی مرکز کا قیام عمل آیا، جو پہلا مکمل ترین ٹیلی ویژن سینٹر تھا، جس کے جنرل منیجر تھے، زیڈ اے بخاری۔ بہترین کہانی، موزوں کاسٹ اور ہدایت کاروں کی ان تھک محنت کے وسیلے پاکستانی ڈرامے نے ترقی کی سمت جست لگائی، اور اس کا نقطہ آغاز تھا، 29 جون 1965ء کو لاہور مرکز سے شروع ہونے والا مزاحیہ کھیل ‘الف نون’۔ کمال احمد رضوی کے اس کھیل نے سماجی بُرائیوں پر ایسی چوٹ کی کہ ‘الن’ اور ’ننھا’ کے کردار ناظرین کے دل میں اتر گئے۔ یہ ڈراما بعد میں کئی بار ری پروڈیوس ہوا، اور ہر بار کمال احمد رضوی اور رفیع خاور نے ناظرین پر ان مٹ نقوش چھوڑے۔
مزید پڑھیے: اک شخص کتابوں جیسا تھا
’خدا کی بستی’ اور دیگر ڈرامے
حضرات، کہانی کا اہم ترین موڑ آن پہنچا۔ چند لازوال کردار ظاہر ہونے کو ہیں۔ کردار جو ’خدا کی بستی‘ کے باسی ہیں۔ جی ہاں، جولائی 1969ء میں کراچی مرکز سے ممتاز ادیب، شوکت صدیقی کے ناول پر مبنی ڈراما سیریل ‘خدا کی بستی‘ کا آغاز ہوا، جس نے ناصرف اس اسٹیشن، بلکہ خود کراچی کو ایک اساطیری جہت عطا کردی۔