وفاقی حکومت کا بلوچستان کے پسماندہ جنوبی اضلاع کیلئے 600ارب کے ترقیاتی پیکج کا اعلان
وفاقی حکومت نے بلوچستان کے پسماندہ ترین جنوبی اضلاع کے لیے بڑے ترقیاتی پیکیج کا اعلان کیا ہے جس کے تحت ان اضلاع میں بجلی، گیس اور سڑکوں کی سہولت کی فراہمی کے لیے تین سال میں 600 ارب روپے خرچ کیے جائیں گے۔
وفاقی وزیر منصوبہ و ترقی اسد عمر نے وزیر اطلاعات شبلی فراز، وفاقی وزیر مواصلات مراد سعید اور وفاقی وزیر دفاعی پیداوار زبیدہ جلال کے ہمراہ اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی یہ ذمے داری ہوتی ہے کہ اپنے معاشرے کے کمزور طبقے کو سہارا دیا جائے اور ملک کے سب سے پسماندہ علاقوں کو ترجیحی بنیادوں پر ترقی دی جائے۔
مزید پڑھیں: سی پیک بلوچستان کیلئے امن و خوشحالی لائے گا، وفاقی وزیر
انہوں نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کے تمام صوبوں کی ترقیاتی ضرورتوں کو دیکھتے ہوئے بحیثیت مجموعی ایک مربوط ترقیاتی پروگرام بنایا جائے کیونکہ کئی چیزیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہوتی ہیں۔
وزیر منصوبہ بندی و ترقی کا کہنا تھا کہ نوجوان اس ملک کا سرمایہ ہیں اور ان کے لیے روزگار اور آمدنی کا ذریعہ پیدا کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہے تو جنوبی بلوچستان میں آمدن کا ذریعہ ذراعت ہو سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جنوبی بلوچستان میں زراعت کے لیے پانی کی ضرورت ہے، وہاں پانی کے لیے بڑے بڑے دریا تو ہیں نہیں لہٰذا وہاں ڈیم بنانے ہیں جو پہلے ہوا بھی ہے لیکن اس سے آگے جو زراعت ہونی تھی وہ نہیں ہو پائی اور زراعت اس لیے نہیں ہو پائی کیونکہ وہاں ڈیم نہیں بنے ہوئے۔
ان کا کہنا تھا کہ آپ جب بھی چاہتے ہیں کہ کسان کو اس کی پیداوار کی پوری قیمت اور معاوضہ ملے تو اس کی اجناس کے استعمال کا ذریعہ اگر وہیں ہو تو سب سے زیادہ بہتر قیمت اس وقت مل سکتی ہے اور اس کے لیے صنعت کی ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سی پیک بلوچستان کی خوشحالی کا منصوبہ ہے: آرمی چیف
وفاقی وزیر نے کہا کہ ہم نے ترجیحاتی طریقے سے حکمت عمی مرتب کی ہے جس کے تحت فاٹا کے اندر پاکستان کے ضم اضلاع کے لیے پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا ترقیاتی پیکج بنا اور اس پر کام شروع کیا اور اس کے بعد یہی کام کراچی کے لیے کیا اور سندھ حکومت کے ساتھ مل کر کام شروع کیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے اسی طرح سے جنوبی بلوچستان کے لیے بھی کیا ہے اور اگلا قدم یہ ہوگا کہ بلوچستان کے شمالی اضلاع کے لیے ایک مربوط حکمت عملی پر کام ہو گا جبکہ اندرون سندھ بھی مربوط حکمت عملی کرنے جا رہے ہیں۔
اسد عمر نے کہا کہ گلگت بلتستان کے عوام نے بڑا سیاسی فیصلہ کیا ہے اور انہوں نے عمران خان پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا ہے، وہاں الیکشن ختم ہوا ہے اور جلد تحریک انصاف کی حکومت بن جائے گی جس کے بعد ایسا ہی ایک مربوط ترقیاتی پیکج وہاں کے لیے بھی دیں گے۔
انہوں نے بلوچستان میں ترقیاتی منصوبوں کی فراہمی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وہاں بڑی آبادی کے پاس بجلی کا کنکشن نہیں ہے، اس وقت صرف 12فیصد گھروں میں بجلی کا نظام ہے، اس کو بڑھا کر ہم 9اضلاع کے 57فیصد گھروں کو بجلی فراہم کریں گے ، اس میں سے کچھ کو نیشنل گرڈ سے جوڑے جائیں گے۔
مزید پڑھیں: 'میں لعنت بھیجتا ہوں اس پر جو آزاد بلوچستان کا نعرہ لگائے'
ان کا کہنا تھا کہ وہاں کُل 3 لاکھ 20ہزار گھروں کا اضافہ ہو گا جس میں سے 2لاکھ گھروں میں قابل ترجدید شمسی توانائی کے ذریعے بجلی پہنچائے جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ وہاں گیس کی فراہمی کے لیے ڈسٹری بیوشن کا جدید نظام بنایا جا رہا ہے اور وہ لوگ جو زیادہ استطاعت نہیں رکھتے اور وہ مہنگی گیس نہیں خرید سکتے، ان کے لیے ہمارے سماجی تحفظ کے احساس پروگرام کے ذریعے ان کی مدد کی جائے گی تاکہ وہ یہ گیس خرید سکیں۔
وزیر منصوبہ بندی نے کہا کہ 16 نئے ڈیمز بننے جا رہے ہیں اور اس سے ایک لاکھ 50ہزار ایکڑ اراضی زیر کاشت آئے گی اور اس سے بہت بڑی تعداد میں روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ سب سے زیادہ پیسہ سڑکوں کی تعمیر پر خرچ ہو رہا ہے جبکہ تعلیم کے لیے وفاقی وزارت کے پروگرام کے ذریعے 6لاکھ 40ہزار بچوں کو ریموٹ لرننگ فراہم کی جائے گی جس کی بدولت بڑے شہروں کے اساتذہ کی مدد سے جدید طرز پر تعلیم دی جائے گی جبکہ بچوں کو تعلیمی وظیفہ بھی دیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ وہاں صحت کی بھی شدید مشکلات درپیش ہیں جس کی وجہ سے وہاں 200 سے زائد صحت کے بنیادی مراکز کو اپ گریڈ کیا جا رہا ہے، وہاں جدید آلات نصب کیے جائیں گے اور اس سے آدھی سے زائد آبادی استفادہ کر سکے گی۔
یہ بھی پڑھیں: بلوچستان میں ایف سی اہلکار کے ہاتھوں شہری کی ہلاکت ناقابل قبول ہے، شیریں مزاری
اسد عمر نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ کا اس پسماندہ ترین علاقے کے لیے سب سے بڑا ترقیاتی پروگرام تین سال کے اندر 600ارب روپے پاکستان کے 9 پسماندہ ترین اضلاع میں خرچ کیے جائیں گے، یہ مربوط حکمت عملی کے تحت کیے جا رہے ہیں اور جب یہ کام مکمل ہو گا تو اس علاقے میں خوشحالی بھی نظر آئے گی اور امن عامہ کی صورتحال بھی مزید بہتر ہوتی ہوئی نظر آئے گی۔
انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی اور ترقی لازم و ملزوم ہوتے ہیں، ماضی میں فاٹا اور سوات میں ترقی اور عوام کو سہولیات کی فراہمی کے لیے کچھ نہیں کیا گیا، اگر ان علاقوں کے نوجوانوں کو بھی روزگار اور یکساں سہولیات فراہم کی جائیں گی تو وہ بھی دوسرے علاقوں سے بہتر کام کر کے دکھائیں گے۔
وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ پی ڈی ایم کا بیانیہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، ہمارے دروازے کھلے ہیں، پاکستان کے عوام کے جس مسئلہ پر بھی بات کرنا چاہیں ہم تیار ہیں لیکن ہم این آر او نہیں دیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم این آر او مانگ نہیں رہے، اگر این آر او نہیں مانگ رہے تو محاذ آرائی کس بات کی ہے، ایف اے ٹی ایف پر قانون سازی کے دوران بھی یہ چاہتے تھے کہ نیب کے قانون میں 34 ترامیم کی جائیں تاکہ جو لوگ کرپشن میں پکڑے گئے ہیں انہیں چھڑایا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ اپوزیشن حکومت کے جانے کی باتیں کر کے اپنا وقت برباد کرتی رہی ہے، حکومت اپنی مدت پوری کرے گی۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جب منصوبوں کو الگ الگ کیا جائے تو ان کا آپس میں ربط نہیں ہوتا اور علاقے کے لوگوں کو فائدہ نہیں ہوتا، اس پورے پروگرام کا مرکز ان 9 اضلاع کے نوجوان ہیں، اس کے لیے نظم و نسق کا ایک باقاعدہ ڈھانچہ وضع کیا گیا ہے۔
اس موقع پر وفاقی وزیر مواصلات مراد سعید نے کہا کہ بلوچستان میں ایم۔70 اور ایم۔22 سمیت مختلف سڑکیں بنائی جائیں گی، بلوچستان میں 3 ہزار 83 کلو میٹر طویل سڑکیں بنانے جا رہے ہیں اور سابق حکومت سے دوگنی سے بھی زیادہ ہم سڑکیں بنانے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں اس وقت کمیونیکیشن وزارت کے اندر جو منصوبے ہیں اس کی لاگت 250 ارب روپے ہے، وزیراعظم کی قیادت میں ہم جنوبی بلوچستان کے لوگوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ تین ہزار 83 کلو میٹر کی سڑکیں اسی مالی سال کے دوران شروع کریں گے، مغربی روٹ سمیت مختلف منصوبوں پر کام شروع ہو گیا ہے اور خضدار۔بسیمہ شاہراہ پر بھی کام ہو رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جنوبی بلوچستان کے لیے متعدد مواصلاتی منصوبوں کی منظوری دی جا چکی ہے، پی ایس ڈی پی میں فنڈز مختص کیے گئے ہیں اور تربت، ہوشاب، آواران شاہراہ کا سنگ بنیاد رکھا جا چکا ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ بلوچستان کی ترقی ملکی ترقی کا باعث بنے گی، وزیراعظم پیکیج بلوچستان کے عوام کے لیے خوشحالی کی نوید ثابت ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ معاشی و سماجی ترقی کے ذریعے صوبے کے عوام کا احساس محرومی دور کریں گے اورآگے بڑھنے کے یکساں مواقع سمیت عوام کی ترقی کے ایک نئے عہد کا آغاز ہوگا۔
پریس کانفرنس کے دوران وفاقی وزیر دفاعی پیداوار محترمہ زبیدہ جلال نے کہا کہ بلوچستان ہی نہیں پورے پاکستان کے لیے 13 نومبر 2020 ایک بہت ہی تاریخی دن تھا، وزیراعظم کا وژن اور احساس قابل تحسین ہے، 47 سال بعد ایک وزیراعظم کیچ ضلع تربت آئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے عوام کی وزیراعظم عمران خان کے ساتھ بہت امیدیں وابستہ ہیں، وزیراعظم کے اس پیکیج کے بعد چند سالوں میں بلوچستان کے عوام کی امیدیں پوری ہو جائیں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلے مرحلے میں بلوچستان کے 9 اضلاع کا ہدف مقرر کیا گیا ہے، یہ منصوبے اس علاقے کے لوگوں کی زندگیاں تبدیل کرنے کے لیے ہیں۔
زبیدہ جلال نے کہا کہ دفاعی پیداوار نے بلوچستان پیکیج میں کچھ حصہ ڈالا ہے، آئندہ ہفتے تک وزیراعلیٰ بلوچستان کے ساتھ مفاہمتی یادداشت پر دستخط کرنے جارہے ہیں، پہلا شپ یارڈ 74 سال کے بعد بلوچستان میں بنانے جا رہے ہیں اور یہ معاہدہ ایکویٹی بنیادوں پر ہورہا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ماضی کی حکومتوں اور موجودہ حکومت میں واضح فرق یہ ہے کہ پہلی دفعہ بلوچستان کے پسماندہ ترین علاقوں کے لیے میگا پراجیکٹس لائے جا رہے ہیں۔