’32 سال میں ایسے حالات نہیں دیکھے، میرے 90 لاکھ روپے ڈوب گئے‘
اپنے فارم میں مکھیوں کا معائنہ کرنے والے شیر زمان انتہائی مایوس نظر آرہے ہیں۔ وہ گزشتہ 6 ماہ میں کم و بیش ایک کروڑ شہد کی مکھیاں کھوچکے ہیں جس سے انہیں لاکھوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔
شیر زمان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ کورونا کی وجہ سے شہد کی تجارت پر اتنے گہرے اور منفی اثرات پڑسکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس مکھیاں پالنے کے 2 ہزار بکسے موجود ہیں تاہم کورونا کے دوران مکھیوں کو ادویات بروقت نہیں فراہم کی گئیں جس کی وجہ سے ان میں پیچش کی بیماری ہوگئی اور ہزاروں مکھیاں ضائع ہوگئیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’لاک ڈاؤن کی وجہ سے شہد کی مکھیوں کے 300 بکسے خالی ہوگئے جس سے مجھے اب تک تقریباً 90 لاکھ روپے نقصان ہوچکا ہے‘۔
ان کے بقول سستے سے سستا شہد جس میں پالوسہ، شیشم، سورج مکھی، مالٹا اور سرسوں شامل ہے، ان سے بھی ایک کلو شہد کا حصول تک ممکن نہیں ہوسکا جبکہ بیر جیسے مہنگے شہد کی پیداوار میں 40 فیصد تک کمی آئی ہے۔ شیر زمان نے آہ بھرتے ہوئے کہا کہ ’پشاور میں 32 سال سے شہد کے کاروبار سے منسلک ہوں مگر ایسے پریشان کن حالات پہلی بار دیکھے ہیں‘۔
پشاور کے ترناب فارم اور ہنی مارکیٹ، ملک کی سب سے بڑی شہد کی منڈیاں سمجھی جاتی ہیں۔ یہاں تقریباً 1200 کے قریب دکانیں ہیں جبکہ صوبہ بھر میں اس کاروبار سے 6 لاکھ کے قریب افراد وابستہ ہیں۔ یہاں سے شہد زیادہ تر خلیجی ممالک کو بھجوایا جاتا ہے تاہم باقاعدہ معاہدے نہ ہونے کی وجہ سے یورپ اور امریکا کو یہاں سے شہد برآمد نہیں ہوسکتا۔
80 کی دہائی میں جب پڑوسی ملک افغانستان میں روس کے خلاف ’جہاد‘ کا آغاز ہوا تو لاکھوں افغان پناہ گزینوں نے پشاور کا رخ کیا اور اس کاروبار سے بڑے پیمانے پر منسلک ہوگئے۔ صوبے میں سالانہ 15 ہزار ٹن سے زائد شہد کی پیداوار ہوتی ہے۔
شیخ گل بادشاہ پشاور میں گزشتہ 3 دہائیوں سے شہد کے کاروبار سے منسلک ہونے کے ساتھ ساتھ آل پاکستان بی کیپرز، ایکسپورٹرز اینڈ ہنی ایسوسی ایشن کے سینئر نائب صدر بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ رواں سال بیماریوں کے باعث لاکھوں کی تعداد میں مکھیاں ضائع ہوگئیں ہیں جس سے شہد کا کاروبار کرنے والے افراد کو بڑے پیمانے پر نقصان برداشت کرنا پڑا۔
انہوں نے کہا کہ لاک ڈاؤن لگنے کی وجہ سے بیشتر علاقوں میں گاڑیوں کی آمد و رفت بند رہی اور ادویات بروقت نہیں پہنچائی جاسکیں جس کے باعث مکھیوں پر فالج کا حملہ ہوا اور ان میں پیچش کی بیماری لگ گئی۔ ان کے مطابق مختلف اقسام کے مائٹ نے بھی مکھیوں کو سخت تکلیف سے دوچار کیا جبکہ رہی سہی کسر امریکی فاول بروڈ اور یورپین فاول بروڈ بیماریوں نے پوری کردی اور اس طرح لاکھوں مکھیاں ضائع ہوگئیں۔
شیخ گل بادشاہ نے وبا کے باعث ہونے والے نقصانات کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ انہیں چند ماہ میں 60 لاکھ روپے کا نقصان اٹھانا پڑا جبکہ سالانہ شہد کا ہدف پورا کرنا تو درکنار کاروبار کرنے والوں کو اپنی روزی روٹی کی فکر لاحق ہوگئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بڑی تعداد میں مکھیوں کے ضائع ہونے سے اگلے سال ٹارگٹ پورا کرنے کا خواب بھی پورا نہیں ہوسکے گا۔
شہد کے کاروبار کی بنیادی طور پر 3 اکائیاں ہوتی ہیں، جس میں
- مکھیاں پالنے والے افراد،
- ملک کے اندر کاروبار کرنے والے اور
- شہد کو بیرون ملک بھیجنے والے شامل ہیں۔
مکھیاں پالنے والوں کو کورونا کے دوران لاک ڈاؤن کی وجہ سے آمد و رفت میں دشواریوں کا سامنا رہا۔ اس کے علاوہ کورونا کے دوران پُرفضا مقامات بند ہونے سے گرمیوں میں مکھیوں کو موافق مقامات تک منتقل نہیں کیا جاسکا۔ شہد کی مقدار میں کمی کے باعث کاروبار کرنے والے اسٹاک کیے گئے شہد سے گزشتہ سال کے اخراجات بھی پورے نہیں کرسکے ہیں۔ وبا سے قبل بیرونِ ملک بھجوائے گئے شہد کی قیمت کی وصولی میں تاخیر نے بھی بیوپاریوں کو نقصان پہنچایا ہے۔
پاکستان میں شہد کی مکھیوں کی زیادہ تر ادویات چین اور دیگر ممالک سے منگوائی جاتی ہیں۔ تاہم وبائی صورتحال میں اندرونِ ملک لاک ڈاؤن کے ساتھ ساتھ بارڈر کی بندش کے باعث ادویات کا حصول ناممکن ہوگیا تھا۔
شہد کی مکھیوں میں پانے جانے والے امراض کے ماہر ڈاکٹر محمد شکیل نے بیماریوں کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ’پروٹوزون جراثیم کے باعث شہد کی مکھیاں پیچش (نوسیما) میں مبتلا ہوجاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی اور ہوا میں نمی اس بیماری کا سبب ہے جبکہ مکھیوں کو پیچش سے بچانے کے لیے ٹیرامائسین اور فیومیڈل بی ادویات استعمال کی جاتی ہے۔
ملکی سطح پر شہد کے کاروبار کی تنظیم کے مطابق پاکستان بھر میں شہد کے کل 30 ہزار فارم موجود ہیں جس سے لگ بھگ 12 لاکھ افراد منسلک ہیں جبکہ سالانہ قریباً 30 ہزار ٹن تک شہد کی پیداوار ہوتی ہے۔ تاہم رواں سال کورونا کی وجہ سے پیداوار میں واضح کمی آئی ہے۔
تنظیم نے مطالبہ کیا ہے کہ کورونا کی دوسری لہر کے دوران جراثیم کش اسپرے کرنے کے اوقات ترتیب دیے جائیں تاکہ شہد کی مکھیوں کو پہلے سے محفوظ مقامات پر منتقل کردیا جائے۔
ادھر شہد کی پیداوار میں کمی کے حوالے سے سیکرٹری ذراعت محمد اسرار کہتے ہیں کہ انہیں لاک ڈاؤن کے دوران بی کیپرز کے مسائل کا اندازہ ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ’کورونا کی دوسری لہر سے قبل حکومت نے ان مسائل سے نمٹنے کے لیے جامع حکمتِ عملی پر کام شروع کردیا ہے جس کے تحت بی کیپرز کو ریلیف دیا جائے گا تاکہ مکھیاں ضائع ہونے سے بچ جائیں۔
لکھاری 4 سال سے ڈان نیوز سے وابستہ ہیں۔ سیاست، ماحولیات، سماجی مسائل اور تحفظ حیوانات جیسے امور پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔