سوشل میڈیا قواعد نافذ، اسٹیک ہولڈرز کی شدید مخالفت
اسلام آباد: وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی نے سوشل میڈیا قواعد نوٹیفائیڈ (نافذ) کردیے جنہیں انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والوں کے علاوہ ڈیجیٹل حقوق کے حوالے سے کام کرنے والے ایکٹوسٹ سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز نے سخت ظالمانہ قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 'غیر قانونی آن لائن کانٹینٹ کی بلاکنگ اور انہیں ہٹانا (طریقہ کار، نگرانی اور حفاظت قواعد 2020)' کے عنوان سے یہ رولز برقی جرائم کے روک تھام کے قانون 2016 (پیکا) کے تحت تیار کیے گئے ہیں۔
ان قواعد نے انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والوں کو سوشل میڈیا کمپنیوں کے برابر لاکھڑا کیا ہے یوں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی تمام شائط ان پر بھی لاگو ہوں گی۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت نے ترامیم کے بعد نئے سوشل میڈیا قوانین جاری کردیے
اس میں متعدد ایسی شقیں ہیں جو وقت کی ضرورت ہے کیوں زیادہ تر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز معاشرے کی اقدار کو نظر انداز کررہی ہیں جبکہ انٹرنیٹ سروسز فراہم کرنے والوں نے قواعد میں سخت شرائط پر تحفظات کا اظہار کیا۔
چنانچہ انٹرنیٹ سروس پرووائیڈر آف پاکستان (آئی ایس پی اے کے) نے نئے قواعد کو مسترد کردیا اور ایسوی ایشن کا نئے سوشل میڈیا قواعد کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کا ارادہ ہے۔
آئی ایس پی اے کے کے کنوینر وہاج سراج نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 'ہم ان قواعد کے خلاف ایک حکمت عملی تشکیل دیں گے کیوں کہ یہ پیکا کی متعدد شقوں مثلاً انٹرنیٹ سروسز فراہم کرنے والوں کے لیے مالی ضمانت کی خلاف ورزی ہے'۔
انہوں نے قواعد کی متعدد شقوں کا حوالہ دیا بشمول 9(3) کا جس میں کہا گیا ہے کہ سوشل میڈیا کمپنی اور انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والوں کو کسی شناخت کیے گئے آن لائن مواد کی نشاندہی کے لیے مناسب طریقہ کار مقرر کرنا ہوگا۔
مزید پڑھیں: نئے انٹرنیٹ قواعد پر حکومت اور بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے درمیان جنگ کا آغاز
نئے قواعد میں نشاندہی کی گئی ہے کہ سوشل میڈیا کمپنیوں اور انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والوں کو آن لائن نظام کے استعمال کے لیے پبلک کمیونٹی گائیڈ لائنز کو یقینی بنانا ہوگا۔
قواعد میں کہا گیا کہ اس طرح کی کمیونٹی گائیڈ لائنز، آن لائن نظام کے صارف کو یہ بتائیں کہ کوئی بھی ایسا آن لائن مواد ڈسپلے، اپ لوڈ، ترسیل، ہوسٹ، موڈیفائی، اپ ڈیٹ یا شیئر نہ کریں جو کسی اور شخص سے تعلق رکھتا ہو اور صارف کو اس کا کوئی حق نہ ہو۔
حد سے زیادہ شمولیت
ڈیجیٹل حقوق کے لیے کام کرنے والے ایکٹِوسٹ نے قواعد پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اور دعویٰ کیا کہ حکومت نے نیشنل کوآڈینیٹر کے دفتر کے قیام کے سوا اسٹیک ہولڈرز کے تمام تحفظات کو نظر انداز کردیا ہے۔
ان قواعد کے تحت ملک میں پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی کی یا انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والوں یا سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی فہرست میں شامل 5 لاکھ صارف والے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو پی ٹی اے سے رجسٹر کروانا ہوگا۔
ان کمپنیوں کو 9 ماہ کے عرصے میں حقیقی پتے کے ساتھ اپنا مستقل رجسٹرڈ دفتر ترجیحاً اسلام آباد میں قائم کرنا ہوگا۔
شقیں انتہائی اہم ہیں، پی ٹی اے عہدیدار
ایک سینئر پی ٹی اے عہدیدار کا کہنا تھا کہ یہ شقیں انتہائی اہم ہیں کیوں کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی ملک میں کوئی نمائندگی نہیں ہے باوجود اس کے کہ بھاری رقم کما بھی رہے ہیں اور وی لاگرز کو ان کی ادائیگی بھی کررہے ہیں۔
یہ بھی دیکھیں: سوشل میڈیا پر قابل اعتراض مواد شائع کرنے والوں کو گرفت میں لانے کی تیاریاں مکمل
قواعد میں کہا گیا سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو پاکستان میں حکام کے ساتھ ملکی قوانین پر عملدرآمد کے سلسلے میں تعاون کے لیے ایک فوکل پرسن تعینات کرنا ہوگا۔
اس کے علاوہ یہ قواعد دہشت گردی، انتہا پسندی، نفرت انگیز تقاریر، فحاشی، تشدد کو ہوا دینے والے یا قومی سلامتی کے نقصان دہ مواد دے متعلق ایک آن لائن میکانزم نافذ کر کے سوشل میڈیا کمپنیوں اور انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والوں کے ذریعے لائیو اسٹریمنگ سے بھی روکتے ہیں۔
پی ٹی اے کی ہدایات کی روگردانی پر انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والوں اور سوشل میڈیا کمپنیوں کو 50 کروڑ روپے تک کا جرمانہ ہوسکتا ہے جبکہ پی ٹی اے کے حکم کے خلاف 30 روز میں ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی جاسکتی ہے۔