نقطہ نظر

پختونوں کی پہچان سمجھے جانے والے ‘حجرے‘ خطرات سے دوچار کیوں؟

’اگر پشتون حجروں کی تجدید میں ناکام ہوگئےتو پشتون نوجوان اکیلے پن کا شکار ہوجائیں گے، جس کا نتیجہ ذہنی مسائل کی صورت میں نکلے گا‘۔

یہ مردان کے علاقے کاٹلنگ کی ایک سرد شام تھی۔ یاسر علی ازی خیل گاؤں کے حجرے میں آئے ایک مہمان کو کھانا پیش کر رہے تھے۔ یہ مہمان ایک بوڑھا شخص تھا جو کوہستان سے آیا تھا۔ مہمان نے یاسر سے دریافت کیا کہ ’پہلے جب میں یہاں آتا تھا تو ایک وجیہ، دراز قد اور سفید ریش بزرگ مجھے کھانا لاکر دیتے تھے۔ وہ کہاں ہیں؟’

‘اوہ، آپ غلام نبی کاکا کی بات کر رہے ہیں’، یاسر نے جواب دیا۔ ’وہ اب ہم میں نہیں رہے، گزشتہ عید کے موقع پر ان کا انتقال ہوگیا تھا’، اس نے آہ بھرتے ہوئے کہا۔

مہمان نے ساکت نظروں سے یاسر کو دیکھا۔ ’انتقال ہوگیا؟’، مہمان کی آنکھیں کھلی رہ گئیں اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔

’میں نے اپنی زندگی میں اس جیسا فیاض آدمی کبھی نہیں دیکھا’، بوڑھے مہمان نے اپنی مدھم آواز میں کہا۔

‘جی ہاں، وہ ہمارے گاؤں کے سب سے زیادہ مہمان نواز شخص تھے۔ وہ غریب ہونے کے باوجود بھی فیاض تھے۔ انہیں حجرہ بہت پسند تھا اور وہ ہمیں تاکید کرتے تھے کہ اس حجرے اور اس میں آنے والے مہمانوں کا خیال رکھا جائے’، یاسر نے کہا۔

یاسر نے مہمان کو بتایا کہ حجرے کی پرانی عمارت گرنے کے بعد گاؤں کے لوگوں نے چندہ جمع کرکے اسے دوبارہ تعمیر کیا۔ گاؤں کے تمام 100 گھرانوں نے اس کے لیے چندہ دیا۔ یہاں تک کہ گاؤں کے سب سے غریب شخص سرتاج خان نے بھی اس کے لیے 50 روپے دیے۔

پختون معاشرے میں حجرے کے بغیر کسی گاؤں کا تصور ممکن نہیں ہے۔ حجرہ مرد حضرات کے لیے مخصوص ایک ایسی کثیر المقاصد جگہ ہوتی ہے جس کا انتظام اجتماعی طور پر پورے گاؤں کے ذمے ہوتا ہے۔

معروف پشتو شاعر اباسین یوسف زئی کے مطابق پختونوں کی تاریخ 5 ہزار سال پرانی ہے اور حجرے کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے جتنی پختونوں کی تاریخ۔ حجرے کی ابتدا بھی پختونوں کی سماجی زندگی کے ساتھ ہوئی ’کیونکہ مہمان نوازی ان کی فطرت کا حصہ ہے اور مہمان نوازی کے لیے انہیں حجرے کی ضرورت تھی’۔

گاؤں میں حجرے کی حیثیت کسی عام عمارت سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ اس کی حیثیت ایک مرکزِ علم کی بھی ہے جہاں نوجوانوں کو پختون ثقافت اور پشتون ولی سے روشناس کروایا جاتا ہے، جو پختون معاشرے کا ضابطہ اخلاق ہے۔

اباسین یوسفزئی کے مطابق ‘پختون معاشرے میں حجرے کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی جیسی ہے۔ دیگر معاشروں میں بھی مہمان خانے، شادی ہال، کھیل کے میدان اور کمیونٹی سینٹر ہوتے ہیں لیکن پختون معاشرے میں یہ ساری سرگرمیاں حجرے میں انجام پاتی ہیں جو پختون ثقافت کا عکاس ہے’۔

پشتو ثقافت اور ادب کے ایک محقق ڈاکٹر نور الامین یوسفزئی کا کہنا ہے کہ ’لوگ حجرے میں اخلاقیات سیکھا کرتے تھے جیسے کہ بڑوں کا احترام کرنا اور فضول باتیں نہ کرنا۔ جو شخص حجرے کے ضابطوں سے بخوبی واقف ہوتا ہے اسے حجرہ پاس کہا جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص پی ایچ ڈی ہی کیوں نہ ہو لیکن اگر اسے حجرے کے ضابطوں کا معلوم نہ ہو تو اسے ایک ایسا شخص سمجھا جاتا ہے جسے پختون ثقافت کا بخوبی علم نہ ہو‘۔

وہ مزید بتاتے ہیں کہ ’پختونوں کے لیے حجرہ ایک طرح کی پارلیمنٹ کا کام کرتا ہے جہاں وہ اجتماعی معاملات، جیسے کسی کی تدفین کے لیے مناسب جگہ کا انتخاب اور حفاظت کے مسائل کو حل کرتے ہیں، نوجوان یہاں تنازعات کو حل کرنے کا ہنر سیکھتے ہیں‘۔

ڈسپیوٹ ریزولوشن کونسل (ڈی آر سی) کاٹلنگ کے رجسٹرار گل فراز خان نے حجرے اور ڈی آر سی کے تعلق کو واضح کرتے ہوئے بتایا کہ ’پختونخوا پولیس کو ڈی آر سی کا خیال بھی حجروں میں ہونے والے جرگوں سے آیا‘۔

لیکن اپنی اس طویل تاریخ کے باوجود یہ حجرہ اب خطرات کا شکار ہے۔ کئی پختون علاقوں میں نامور اور تجربہ کار افراد نے حجروں کی سرپرستی کرنا چھوڑ دی ہے، اور حجرے اب نشے کے عادی افراد اور ان پڑھ لوگوں کا اڈہ بن گئے ہیں۔ اس عمل نے پختون ثقافت کے صدیوں سے چلتے اس ادارے کو خطرات سے دوچار کردیا ہے۔

اباسین یوسفزئی کا کہنا تھا کہ ’چونکہ گزشتہ دور میں ریڈیو، ٹی وی اور موبائل فون نہیں ہوتے تھے اس لیے لوگوں کے پاس وقت بھی زیادہ ہوتا تھا اور لوگ یہ وقت حجروں میں گزارتے تھے۔ لیکن آج کے جدید دور میں حجروں کا استعمال کم ہوتا جا رہا ہے۔ اگرچہ حجرے کو کبھی بھی پختون ثقافت سے پوری طرح نہیں نکالا جاسکتا تاہم اس ادارے کی تجدید کی ضرورت بہرحال موجود ہے تاکہ پختونوں کی سماجی اور ثقافتی ضروریات کو پورا کیا جاسکے‘۔

اباسین یوسفزئی کے مطابق ’حجروں کی تجدید کوئی ناممکن کام نہیں ہے۔ حجروں میں وائی فائی کا انتظام ہونا چاہیے تاکہ نوجوان اپنی تعلیمی اور تفریحی ضروریات کو بڑوں کی نگرانی میں پورا کرسکیں۔ اس کے علاوہ ٹیبل ٹینس اور دیگر انڈور گیمز کا بھی انتظام ہونا چاہیے تاکہ حجروں میں نوجوانوں کی موجودگی کو بڑھایا جائے۔

پشاور میں مقیم حقوقِ نسواں کی کارکن ثنا اعجاز کا خیال ہے کہ اگر پشتون حجروں کی تجدید میں ناکام ہوگئے تو پشتون نوجوان اکیلے پن کا شکار ہوجائیں گے، جس کا نتیجہ ذہنی مسائل کی صورت میں نکلے گا۔ یہ مقامی سیاست کے لیے بھی نقصاندہ ثابت ہوگا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ایک کثیر الجہتی جگہ ہونے کی وجہ سے یہ مباحث اور تنازعات کو حل کرنے کے لیے ایک بہترین جگہ ہے‘۔

ایک روایتی پختون معاشرے میں حجرہ صرف مردوں کے لیے مخصوص ہوتا ہے۔ ثنا کا کہنا کہ دیہاتوں میں خواتین کے لیے بھی کمیونٹی سینٹر موجود ہونے چاہیئں جہاں لائبریری بھی ہوں، تاکہ وہ ایک دوسرے کے تجربات سے سیکھ سکیں اور کتب بینی کے ذریعے جدید دنیا کے ساتھ چل سکیں۔

پروفیسر نور الامین کا کہنا ہے کہ پختون معاشرے میں انتشار کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ صوبائی اسمبلی میں حجروں کی تعمیرِ نو کا معاملہ اٹھایا جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہمیں چاہیے کہ حکومت، مقامی افراد، اداروں اور پختون ثقافت کے ماہرین کے اتفاق رائے سے حجروں کے قیامِ نو کا آغاز کریں’۔

اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ‘حکومت کو چاہیے کہ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ذریعے حجروں کی تعمیر کا منصوبہ بنائے جس میں لائبریری، انڈور گیمز، میٹنگ ہال، مہمانوں کا کمرہ، فرنیچر اور انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ قریب میں کچھ دکانیں بھی ہوں تاکہ وہاں سے ہونے والی آمدن سے حجرے کے اخراجات کو پورا کیا جاسکے‘۔

خیبر پختونخوا کے سابق وزیرِ اعلیٰ اور موجودہ ممبر قومی اسمبلی امیر حیدر خان ہوتی کے مطابق ’اے این پی کی حکومت (2013ء-2008ء) نے لوگوں کی اجتماعی ملکیت کے 700 حجروں کے لیے خصوصی فنڈز جاری کیے تھے۔ ان فنڈز سے حجروں کو کمیونٹی سینٹر میں تبدیل کیا گیا تاکہ لوگ سیاسی، سماجی اور تفریحی سرگرمیوں میں حصہ لے سکیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ بحیثیت وزیرِ اعلیٰ انہوں نے خالص انتظامی اور ترقیاتی بنیادوں پر حجروں کی تجدید کا قدم اٹھایا جس کے لیے قانون سازی سے زیادہ ارادے کی ضرورت تھی۔ انہوں نے تجویز دی کہ موجودہ اور مستقبل کی حکومتوں کو بھی اسی راستے کا انتخاب کرنے کی ضرورت ہے۔

معاشرے پر ہونے والے عسکریت پسندی کے اثرات کو دیکھا جائے تو حجرے نوجوانوں کو ان کی بنیاد سے جوڑ سکتے ہیں۔ یہ حجرے نوجوان پختونوں کو عسکریت پسندی سے دُور کرکے ان میں برداشت اور انہیں مکالمے کے رجحان کی طرف لاسکتے ہیں۔


یہ مضمون 11 اکتوبر 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔


تصاویر: لکھاری

اعجاز علی

لکھاری دیہی ترقی سے متعلق مہارت رکھتے ہیں اور یورپی اسٹڈیز میں ماسٹرز کرچکے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔