دنیا

ٹرمپ نے مشیروں سے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کی بات کی، امریکی اخبار کا انکشاف

مشیروں نے امریکی صدر کو خبردار کیا کہ آخری ہفتوں کے دوران اس طرح کا اقدام ایک بڑا تنازع بن سکتا ہے، نیویارک ٹائمز

امریکی اخبار نے انکشاف کیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے اپنے قومی سلامتی کے سینیئر مشیروں سے پوچھا تھا کہ ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کے کیا امکانات ہیں۔

نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں چار موجودہ اور سابق امریکی عہدیداروں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ یہ ملاقات جمعرات کے روز اوول آفس میں ہوئی۔

مزید پڑھیں: امریکا نے ایران کے جوہری سائنسدانوں پر پابندی کا اعلان کردیا

رپورٹ کے مطابق ایک روز قبل بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) نے ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ ایران کے یورینیم کے ذخائر 300 کلوگرام سے 12 گنا تک پہنچ گئے ہیں۔

نیویار ٹائمز کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیروں نے خبردار کیا کہ ان کے دفتر میں آخری ہفتوں کے دوران اس طرح کا اقدام ایک بڑا تنازع کا باعث بن سکتا ہے۔

اخبار نے عہدیداروں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ 'ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے قومی سلامتی کے سینیئر مشیروں سے پوچھا کہ ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کے کون سے آپشن ہیں اور ان کا کیا جواب دیا جائے'۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ حملے کا امکان ایران کے افزودگی پروگرام کے مرکز 'نتنز' پر تھا جس کے بارے میں تہران کا کہنا ہے کہ یہ صرف پرامن مقاصد کے لیے ہے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا کی نئی انتظامیہ ٹرمپ کی غلطیوں کا تدارک کرے، ایران

بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی نے کہا تھا کہ ایران کے پاس 2 ہزار 442 کلو گرام 'کم افزودہ یورینیم' کا ذخیرہ ہے جو 25 اگست تک 2 ہزار 105 کلو گرام تھا۔

ایران نے 2015 میں عالمی طاقتوں کے ساتھ جوہری معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کی بنیاد پر تہران صرف 202.8 کلوگرام یورینیم ذخیرہ کرنے کا حق رکھتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق امریکی نائب صدر مائیک پینس، سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو، قائم مقام دفاعی سیکریٹری کرسٹوفر ملر اور جوائنٹ چیف آف اسٹاف کے چیئرمین جنرل مارک میلے سینیئر مشیروں میں شامل تھے۔

اخبار کے مطابق مذکورہ افراد نے امریکی صدر کو حملے سے دستبردار ہونے پر آمادہ کیا۔

نیویارک ٹائمز نے اجلاس کے بارے میں واقفیت رکھنے والے انتظامیہ کے اہلکاروں کے حوالے سے بتایا کہ مائیک پومپیو اور کرسٹوفر ملی نے امریکی صدر کو تہران پر حملے کے نتیجے میں خطے میں بڑی جنگ کے خطرات سے آگاہ کیا اور حکام یہ سوچتے ہوئے اجلاس سے روانہ ہوگئے کہ ایرانی سرزمین پر میزائل حملے کے امکان کے بارے میں اب کوئی سوال نہیں کرے گا۔

مزید پڑھیں: ایران کی غیر اعلانیہ مقامات پر جوہری مواد کی وضاحت ‘غیر معتبر’ ہے، اقوام متحدہ

لیکن عہدیداروں نے اخبار کو بتایا کہ ٹرمپ، عراق میں ملیشیا جیسے ایرانی اتحادیوں اور اثاثوں پر حملہ کرنے کے منصوبوں کے بارے میں سوچ رہے تھے۔

خیال رہے کہ 8 مئی 2018 کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو خطرناک ملک قرار دیتے ہوئے اس کے ساتھ چین، روس، برطانیہ، جرمنی سمیت عالمی طاقتوں کے ہمراہ سابق صدر براک اوباما کی جانب سے کیے گئے جوہری معاہدے سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا تھا۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے معاہدے سے دستبرداری کا اعلان کیا تھا جس کے بعد معاہدے پر عمل درآمد پر دراڑ آئی تھی کیونکہ ایران پر دوبارہ معاشی پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔

ایران نے جواب میں جوہری سرگرمیوں کی شرائط کو توڑا تھا اور پروگرام میں تیزی لانے کا اعلان کرتے ہوئے یورینیم ذخیرہ کرنے کی حد بھی عبور کرلی تھی۔

افغانستان سے فوجیوں کے جلد بازی میں انخلا کی بھاری قیمت چکانی پڑ سکتی ہے، نیٹو چیف کی تنبیہ

آرمینیا کے وزیر خارجہ نیگورنو-کاراباخ کی 'غیر مقبول' جنگ بندی پر مستعفی

فرانس کے سرکاری ریڈیو نے ملکہ برطانیہ کی 'موت' کی خبر پر معافی مانگ لی