جبری مذہب تبدیلی کی وضاحت اسلامی نظریاتی کونسل کرے گا، پارلیمانی کمیٹی
مذہب کی جبری تبدیلی کے حوالے سے اقلیتوں کے تحفظ کے لیے قائم پارلیمانی کمیٹی نے مشاہدہ کیا ہے کہ جبری اور رضاکارانہ طور پر مذہب کی تبدیلی کے حوالے سے وضاحت ہونی چاہیے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کمیٹی چیئرمین سینیٹر انوار الحق کاکڑ نے اجلاس کے دوران ممبران کو آگاہ کیا کہ اسلامی نظریاتی کونسل (سی آئی آئی) سے جبری مذہبی تبدیلی کے حوالے سے وضاحت کے لیے ایک مسودہ تیار کرنے کا کام پہلے ہی سونپا جاچکا ہے۔
سی آئی آئی کے ڈائریکٹر جنرل انعام الحق نے کمیٹی کو بتایا کہ کونسل کا ریسرچ ونگ اس معاملے کا حل تلاش کرنے کے لیے اس موضوع پر کام کر رہا ہے۔
مزید پڑھیں: اقلیتی کمیشن نے جبری مذہبی تبدیلی کے خلاف قانون کا مسودہ تیار کرلیا
انہوں نے کہا کہ 'ہم اس معاملے پر تحقیق کر رہے ہیں اور ایک جامع نقطہ نظر اپنایا گیا ہے، اس تحقیق کو مکمل ہونے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے'۔
بعد ازاں سی آئی آئی کے ایک عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ اس تحقیق میں 4 سے 6 ہفتے لگ سکتے ہیں کیونکہ کونسل دیگر مسلم ممالک میں بھی اس موضوع پر ہونے والی بات چیت کا مطالعہ کرے گی جن کے معاشرتی حالات پاکستان کی طرح ہی تھے۔
جب اجلاس میں ملک میں جبری مذہبی تبدیلی کے معاملے پر تبادلہ خیال ہوا اور چند ممبران نے یہاں تک کہ مختلف میڈیا اور سول سوسائٹیز کی رپورٹس کا حوالہ بھی دیا تو کمیٹی کے چیئرمین نے کہا کہ جبری طور پر تبدیلیوں اور دوسرے معاملات میں بھی فرق ہے جیسے لڑکوں اور لڑکیوں کو لالچ دینا یا لڑکوں اور لڑکیوں کا موجودہ صورتحال سے فرار ہونا۔
سینیٹر انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ جبری مذہب تبدیل کرنا زبردستی ہے جس میں جسمانی طاقت کو دھمکانے یا مجرمانہ انداز میں استعمال کیا جاتا ہے تاہم سارے کیسز میں ایسا نہیں ہوتا ہے، چند لالچ میں مبتلا ہوتے ہیں لیکن یہ بھی غلط ہے، ہمیں ایسی چیزوں کو روکنے کی ضرورت ہے تاہم یہ ضروری ہے کہ جبری طور پر مذہب کی تبدیلی کی وضاحت کی جائے'۔
کمیٹی نے جبری طور پر تبدیلیوں کے معاملے اور اس کو روکنے کے طریقوں پر وزارت انسانی حقوق سے بھی رائے طلب کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: نو تشکیل شدہ اقلیتی کمیشن کا نوٹیفکیشن جاری
کمیٹی کو وزارت کے عہدیداروں نے بتایا کہ دنیا کے چند ممالک میں جبری طور پر مذہب کی تبدیلیوں کے خلاف اقدامات اور قانون سازی کو مثال کے طور پر کمیٹی کے سیکریٹریٹ میں پیش کیا گیا ہے۔
کمیٹی نے وزارت انسانی حقوق کے ذریعے پیش کردہ دستاویزات کو وزارت قانون بھجوادیا اور کہا کہ تین ہفتوں میں اس پر قانونی رائے پیش کی جائے۔
جبری تبدیلیوں کے خلاف مجوزہ قانون کو دیکھنے کے لیے ایک ذیلی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے تاکہ اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرنے کے لیے ایک جامع قانون وضع کیا جاسکے۔
سینیٹر سکندر میندھرو اس ذیلی کمیٹی کے کنوینئر ہوں گے جس میں سینیٹر محمد علی خان اور ایم این اے لال چند اور عامر نوید جیوا شامل ہوں گے۔