صحت

کووڈ سے بچانے والی اب تک کی سب سے موثر ویکسین کے نتائج جاری

موڈرینا کمپنی نے سب سے پہلے مارچ میں اپنی ویکسین کا انسانی ٹرائل شروع کیا تھا اور اب آخری مرحلے کے ابتدائی نتائج جاری ہوئے۔

نئے کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کی روک تھام کے لیے گزشتہ ہفتے فائرز اور بائیو این ٹیک نے اپنی ویکسین کے انسانی ٹرائل کے تیسرے مرحلے کے ابتدائی نتائج جاری کیے تھے، جس میں اسے بیماری سے تحفظ کے لیے 90 فیصد موثر قرار دیا۔

اس کے بعد روس کی جانب جاری نتائج میں ویکسین کو بیماری سے بچانے میں 92 فیصد موثر قرار دیا گیا اور اب امریکا کی موڈرینا کمپنی نے انسانی ٹرائل کے تیسرے مرحلے کے نتائج جاری کیے ہیں۔

اس کمپنی کے نتائج گزشتہ ہفتے جاری ہونے والے نتائج کے مقابلے میں زیادہ متاثر کن ہیں۔

موڈرینا کمپنی نے سب سے پہلے رواں سال مارچ میں اپنی ویکسین کا انسانی ٹرائل شروع کیا تھا اور اب آخری مرحلے کے ابتدائی نتائج کے مطابق یہ ویکسین کووڈ 19 سے تحفظ کے لیے لگ بھگ 95 فیصد موثر ہے۔

یہ ابتدائی نتائج 95 مریضوں پر مبنی ہیں جن میں کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی تھی اور دریافت کیا گیا کہ اس ویکسین کی افادیت 94.5 فیصد ہے۔

کمپنی کا کہنا ہے کہ اس کی جانب سے ویکسین کے ایمرجنس استعمال کی اجازت کے لیے آنے والے ہفتوں میں امریکا کے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کو درخواست دینے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔

ٹرائل کے نتائج میں بتایا گیا کہ جن 95 افراد میں کووڈ کی تشخیص ہوئی، ان میں سے 90 پلیسبو استعمال کررہے تھے جبکہ باقی 5 کو ویکسین استعمال کرائی گئی تھی۔

موڈرینا کی ویکسین کی آزمائش 30 ہزار سے زیادہ افراد پر ہورہی ہے اور یہ امریکا سے باہر اگلے سال تک دستیاب نہیں ہوسکے گی۔

کمپنی کے مطابق وہ 2020 کے آخر تک 2 کوڑ ڈوز امریکا میں ترسیل کرے گی اور توقع ہے کہ اگلے سال 50 کروڑ سے ایک ارب ڈوز دنیا بھر میں تیار کیے جائیں گے۔

موڈرینا پہلے ہی 10 کروڑ ڈوز امریکا کو فروخت کرنے کے لیے تیار ہوچکی ہے جبکہ مزید 40 کروڑ ڈوز فروخت کرنے کا آپشن دیا گیا ہے۔

جاپان، کینیڈا، سوئٹزرلینڈ، قطر اور اسرائیل نے بھی اس طرح کے معاہدے کیے ہیں جبکہ یورپی کمیشن بھی 8 سے 16 کروڑ ڈوز خریدنا چاہتی ہے۔

موڈرینا ویکسین میں وہی ایم آر این اے ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے جو فائزر اور بائیو این ٹیک کی ویکسین میں استعمال ہوئی۔

موڈرینا ویکسین کے تیسرے مرحلے کے ٹرائل کے حتمی نتائج اس وقت جاری ہوں گے جب اس میں شریک 151 رضاکاروں میں کووڈ کیسز سامنے نہیں آتے، جن کا جائزہ اوسطاً 2 ماہ سے زیادہ عرصے تک لیا جائے گا۔

اگر ٹرائل کے حتمی نتائج بھی ایسے ہی متاثرکن رہے تو موڈرینا ویکسین کو فائزر ویکسین پر ایک اہم سبقت حاصل ہوگی۔

فائزر ویکسین کو منفی 70 سے 80 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت کی ضرورت ہوگی جبکہ موڈرینا کا کہنا ہے کہ اس نے اپنی ویکسین کی شیلف لائف اور استحکام کو بہتر کیا ہے۔

یعنی یہ ویکسین عام فریج کے درجہ حرارت یعنی 2 سے 8 سینٹی گریڈ پر 30 دن کے لیے اسٹور کی جاسکتی ہے جبکہ منفی 20 سینٹی گریڈ درجہ حرارت پر اسے 6 ماہ تک اسٹور کیا جاسکتا ہے۔

یہ ویکسین 2 ڈوز میں استعمال کرائی جائے گی اور قیمت 50 سے 59 ڈالرز ہوگی، یعنی یہ دیگر ویکسینز سے زیادہ مہنگی ہے۔

آسترازینیکا اور آکسفورڈ یونیورسٹی کی ویکسین کا ایک ڈوز لگ بھگ 4 ڈالرز کا ہوگا جبکہ جانسن اینڈ جانسن اور سنوفی کی ویکسینز کی لاگت 10 ڈالرز فی ڈوز ہونے کا امکان ہے۔

فائزر کی جانب سے 2 ڈوز کے لیے امریکا سے لگ بھگ 40 ڈالرز لیے جائیں گے۔

موڈرینا کی ویکسین ممیں جینیاتی مواد ایم آر این اے جسم میں داخل کیا جائے گا، جو اسپائیک پروٹین کو خلیات کو متاثر کرنے سے روکے گی۔

فائزر ویکسین کے نتائج میں سنگین بیماری کی روک تھام کے حوالے سے کچھ نہیں بتایا گیا تھا، مگر موڈرینا کے نتائج کو ایک خودمختار ڈیٹا سیفٹی مانیٹرنگ بورڈ نے جاری کیا ہے، جس میں اس پہلو کا خیال رکھا گیا۔

نتائج سے بتایا گیا کہ ٹرائل کے دوران 11 رضاکاروں میں کووڈ کی سنگین شدت دیکھی گئی اور وہ سب پلیسبو گروپ میں شامل تھے۔

نتائج میں یہ عندیہ بھی دیا گیا کہ یہ ویکسین معمر افراد اور اقلیتی پس منظر رکھنے والے افراد کے لیے بھی موثر ہے۔

کمپنی کا کہنا ہے کہ اب تک رضاکاروں کے تحفظ کے لیے حوالے سے کوئی نمایاں خدشات دریافت نہیں ہوئے، بلکہ معمولی سے معتدل ری ایکشن نظر آیا جس کی مدت مختصع تھی۔

ٹرائل میں شامل 2.7 فیصد رضاکاروں نے پہلے ڈوز کے بعد انجیکشن کے مقام پر تکلیف کو رپورٹ کیا جبکہ دوسرے ڈوز کے بعد 9.7 فیصد نے تھکاوٹ، 9 فیصد نے مسلز کی تکلیف اور 5 فیصد نے جوڑوں کی تکلیف کو رپورٹ کیا، کچھ کو سردرد یا انجیکشن کے مقام پر سرخی جیسے مسائل کا سامنا ہوا۔

کورونا وائرس کی پہلی ویکسین کے انسانوں پر ابتدائی نتائج سامنے آگئے

امریکی کمپنی کی کورونا ویکسین مطلوبہ مدافعتی ردعمل فراہم کرنے میں کامیاب

سیکڑوں کورونا ویکسینز میں سے کونسی دنیا کی توجہ کا مرکز؟