صحت

کووڈ سے صحتیاب افراد میں کئی ماہ بعد اعضا کو نقصان پہنچنے کا انکشاف

ابتدائی بیماری سے نجات پانے کے کئی ماہ بعد بھی علامات کا سامنا کرنے والے مریضوں کے لیے 'لانگ کووڈ' کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔

کووڈ 19 کے شکار جوان اور پہلے صحت مند افراد کو اس وبائی مرض سے نجات پانے کے 4 ماہ بعد بھی مختلف علامات اور متعدد اعضا میں نقصان کا سامنا کررہے ہیں۔

یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

ابتدائی بیماری سے نجات پانے کے کئی ماہ بعد بھی مختلف علامات کا سامنا کرنے والے مریضوں کے لیے 'لانگ کووڈ' کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔

ایک تخمینے کے مطابق برطانیہ میں 60 ہزار سے زیادہ افراد لانگ کووڈ کی مختلف علامات کا سامنا کررہے ہیں، جن کو تھکاوٹ، دماغی دھند، سانس لینے میں مشکلات اور جسمانی تکلیف جیسی علامات کا سامنا ہوتا ہے۔

اس نئی تحقیق میں 50 ایسے افراد کا تجزیہ کیا جارہا ہے جو جوان اور کووڈ سے پہلے کسی بیماری کے شکار نہیں تھے۔

تحقیق میں ان افراد کے اعضا پر کووڈ 19 کے اثرات کا تجزیہ طویل المعیاد بنیاد پر کیا جائے گا، جس کے لیے ایم آر آئی اسکینز، خون کے ٹیسٹ، جسمانی جانچ پڑتال اور آن لائن سوالناموں کی مدد لی جائے گی۔

اولین 200 مریضوں کے ابتدائی ڈیٹا سے عندیہ ملا کہ ان میں سے لگ بھگ 70 فیصد افراد کے ایک یا اس سے زیادہ اعضا بشمول دل، پھیپھڑوں، جگر اور لبلے کے افعال ابتدائی بیماری کے 4 ماہ بعد متاثر ہوئے ہیں۔

لندن کالج یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر امیتاوا بینرجی نے بتایا 'اچھی خبر یہ ہے کہ افعال میں آنے والی تبدیلی معتل ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ افعال پر کسی حد تک منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں اور 25 فیصد افراد کے 2 یا اس سے زیادہ اعضا پر اثرات مرتب ہوئے ہیں'۔

انہوں نے مزید بتایا 'یہ اہم ہے کیونکہ ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ اعضا کے افعال میں منفی تبدیلیوں کا عمل آگے بڑھتا ہے یا اس میں بہتری آتی ہے یا کچھ مخصوص افراد کو زیادہ سنگین صورتحال کا سامنا تو نہیں ہوسکتا'۔

کچھ کیسز میں محققین نے لوگوں کی لانگ کووڈ کی علامات اور متاثر ہونے والے اعضا کے مقام میں فرق بھی دیکھا گیا، مثال کے طور پر دل یا پھیپھڑوں کے افعال میں مسائل کا سامنا کرنے والے افراد کو سانس لینے میں مشکلات کا سامنا ہوا جبکہ جگر یا لبلبلے کے افعال میں خرابی کا تعلق معدے کی علامات سے پایا گیا۔

تاہم تحقیق میں یہ ثابت نہیں کیا جاسکا کہ اعضا کے افعال میں خرابیاں لانگ کووڈ کی علامات کا حصہ ہیں اور اس کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے۔

پروفیسر امیتاوا بینرجی نے انتباہ کیا کہ ان مریضوں کی اسکیننگ کووڈ 19 کا شکار ہونے سے پہلے نہیں ہوئی تھی، تو ہوسکتا ہے کہ ان میں کچھ پہلے ہی اعضا کے مسائل کا شکار ہووں، تاہم ماضی میں اچھی صحت اور جوان ہونے جیسے عناصر کو دیکھتے ہوئے یہ کافی مشکل لگتا ہے۔

اس تحقیق میں شامل افراد کی اوسط عمر 44 سال تھی۔

ان افراد کی مانیٹرنگ کا سلسلہ جاری رہے گا اور محققین کی جانب سے ان افراد کی اسکیننگ بھی کی جائے گی جو کووڈ 19 سے متاثر نہیں یا انہٰں دیگر وائرل انفیکشن جیسے فلو کا تجربہ ہوا۔

کووڈ 19 کے باعث ہسپتال میں زیرعلاج رہنے والے 58 مریضوں پر ہونے والی ایک اور تحقیق کے ابتدائی ڈیٹا میں بھی اسی طرح کے نتائج سامنے آئے تھے۔

تحقیق میں ابتدائی بیماری کے 2 سے 3 ماہ بعد 60 فیصد مریضوں کے پھیپھڑوں کے افعال میں 60 فیصد خلاف معمول تبدیلیاں آئیں، 29 فیصد کے گردوں، 26 فیصد کے دل اور 10 فیصد کے جگر کے افعال میں مسائل دیکھے گئے، جبکہ دماغی ٹشوز کے حصوں میں بھی تبدیلیوں کو دریافت کیا گیا۔

امپرئیل کالج لندن کے امیونولوجی پروفیسر ڈینی الٹمان نے بتایا 'دنیا بھر میں جن لوگوں کو بھی لانگ کووڈ کا سامنا ہے، اسے سنجیدگی سے لینا چاہیے اور سمجھنا چاہیے کہ اعضا میں کیا چل رہا ہے، تاکہ ٹھوس شواہد کو اکھٹا کیا جاسکے'۔

ان کا کہنا تھا 'میرے خیال میں یہ نتائج ایک طویل سفر کا پہلا قدم ہے، جس سے ان مریضوں کی علامات کے میکنزم کا کچھ حصہ سامنے آیا ہے اور بتدریج ایسے افراد کے لیے علاج بھی سامنے آسکے گا'۔

نئے نتائج سے یہ عندیہ بھی ملتا ہے کہ طبی ماہرین کے درمیان زیادہ شراکت داری کی ضرورت ہے۔

لانگ کووڈ کے حوالے سے حالیہ دنوں میں کئی ممالک کے ماہرین نے اپنے تحقیقی کام کے نتائج جاری کیے۔

مشی گن ہیلتھ سسٹم کی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ اس بیماری کو شکست دینے والے افراد کو کئی ماہ بعد بھی طبی اور مالی مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے۔

مشی گن یونیورسٹی ہیلتھ سسٹم کی اس تحقیق میں کووڈ 19 کے ایسے 488 مریضوں کا جائزہ لیا گیا، جو مشی گن کے ہسپتالوں میں زیرعلاج رہنے کے بعد ڈسچارج ہوچکے تھے۔

16 مارچ سے یکم جولائی کے دوران ہسپتال سے ڈسچارج ہونے والے ان افراد کا جائزہ 2 ماہ بعد لیا گیا۔

طبی جریدے جرنل اینالز آف انٹرنل میڈیسین میں شائع تحقیق کے مطابق ایک تہائی افراد نے طبی مسائل جیسے کھانسی کے ساتھ نئے یا پہلے سے بدتر علامات اور سونگھنے یا چکھنے کی حس سے مسلسل محرومی کو رپورٹ کیا۔

لگ بھگ 50 فیصد کا کہنا تھا کہ وہ اس بیماری کے باعث 'جذباتی طور پر متاثر' ہوئے جبکہ 28 فیصد نے ذہنی صحت کے مراکز کے لیے رجوع کیا۔

36 فیصد نے ہسپتال میں زیرعلاج رہنے پر معمولی مالی مشکلات کو رپورٹ کیا جبکہ 40 فیصد اپنی ملازمتوں سے فارغ یا اتنے کمزور ہوگئے کہ کام پر واپس نہیں جاسکے۔

محققین کا کہنا تھا کہ اس بیماری کو شکست دینے والے بیشتر افراد کے لیے معمول کی سرگرمیاں بحال کرنے کی صلاحیت جسمانی اور جذباتی علامات کے باعث کمزور ہوجاتی ہے جبکہ مالی نقصانات بھی عام ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ڈیٹا سے تصدیق ہوتی ہے کہ کووڈ 19 کا اثر ہسپتال سے فارغ ہونے کے بعد بھی ختم نہیں ہوتا۔

رواں ہفتے ہی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ 19 کے نصف سے زیادہ صحتیاب مریضوں کو ابتدائی بیماری کے 10 ہفتوں بعد مسلسل یا ہر وقت تھکاوٹ کا سامنا ہوتا ہے۔

طبی جریدے جرنل پلوس ون میں شائع یہ تحقیق آئرلینڈ کے ٹرینیٹی کالج کے محققین نے کی۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ اگرچہ کووڈ کے حوالے سے کافی کچھ سامنے آچکا ہے مگر طویل المعیاد اثرات کے بارے میں ابھی بہت کچھ معلوم نہیں ہوسکا۔

تھکاوٹ کورونا وائرس کی چند عام علامات میں سے ایک ہے جس کا سامنا بیماری کے آغاز پر بیشتر افراد کو ہوتا ہے۔

کووڈ کے طویل المعیاد اثرات پر ابھی بھی کافی کام ہورہا ہے اور اس تحقیق میں صحتیاب مریضوں میں تھکاوٹ کو ٹریک کرنے کے ساتھ ساتھ ان میں کووڈ 19 کی شدت، لیبارٹری کے اشاریے، ورم کے اشاریوں کی سطح اور پہلے سے بیماریوں کو دیکھا گیا۔

اس تحقیق میں 128 ایسے افراد کو شامل کیا گیا تھا جو کووڈ 19 کو شکست دے چکے تھے، جن میں 54 فیصد خواتین تھیں جبکہ اوسط عمر 49.5 سال تھی۔

کووڈ 19 کے دوران 55 فیصد سے زیادہ ہسپتال میں زیرعلاج رہے تھے جبکہ دیگر کا علاج ہسپتال سے باہر رہتے ہوئے ہوا تھا۔

تحقیق کے دوران ان افراد کا جائزہ ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کے 72 دن بعد کیا گیا تھا جبکہ گھر میں علاج کرانے والوں کے لیے بتدائئی تشخیص کے 14 دن کے بعد کے وقت کو پیمانہ بنایا گیا۔

تحقیق میں شامل 52 فیصد سے زائد نے تھکاوٹ کی شکایت کی جبکہ صرف 42 فیصد نے مکمل بحالی کو رپورٹ کیا۔

اہم بات یہ تھی کہ تھکاوٹ کے شکار رہنے والے افراد میں کووڈ 19 کی شدت، ہسپتال میں داخلے یا دیگر کا کوئی تعلق نہیں تھا۔

محققین کے مطابق اگرچہ یہ تحقیق محدود تھی مگر انہوں نے ماضی میں ذہنی بے چینی یا ڈپریشن کی شکار رہنے والی خواتین میں کووڈ سے صحتیاب ہونے کے بعد بہت زیادہ تھکاوٹ کی شرح کو زیادہ دیکھا۔

انہوں نے کہا کہ یہ تحقیق ثابت کرتی ہے کہ کووڈ 19 کے بعد ہر وقت تھکاوٹ کا بیماری کی شدت سے تعلق ننہیں رکھتی، تو اس حوالے سے پیشگوئی کرنا آسان نہیں۔

ملک میں کورونا وائرس سے دوبارہ متاثر ہونے کا پہلا کیس سامنے آگیا

وہ عام احتیاط جس سے کورونا وائرس کی وبا پر قابو پانا ممکن

بل گیٹس دنیا کے ہر فرد تک کورونا ویکسین پہنچانے کے لیے پرعزم