مسلم لیگ (ن) میں بڑا عنصر اپنی قیادت کے بیانیے سے متفق نہیں، وزیر خارجہ
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ میری اطلاعات کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے اندر ایک بہت بڑا عنصر موجود ہے جو اپنی قیادت کے بیانیے سے متفق نہیں ہے، وہ اپنی سیاسی مجبوریوں کے سبب اظہار نہیں کرسکتے لیکن اندر سے وہ مطمئن نہیں ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہم ایک بند گلی میں داخل ہوچکے ہیں اور اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مار رہے ہیں۔
ملتان میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ یہ کبھی اتنے مائل ہوجاتے ہیں آئین سے مبرا اسٹیبلشمنٹ سے توقع کرتے ہیں کہ وہ ان کے لیے آسانیاں پیدا کردے، یہ دونوں چیزیں غلط ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ قومی اداروں پر حملہ پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے اور قومی اداروں سے آئین سے مبرا توقع رکھنا آئین کی خلاف ورزی ہے، جن جمہوری قدروں کی آپ بات کررہے ہیں یہ تو اس کی نفی ہے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ یہ جو بوکھلاہٹ مجھے دکھائی دے رہی ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ابھی بھی ان کی صفوں میں یکسوئی نہیں ہے، کراچی واقعے کی انکوائری پر ایک جماعت کا تعریفی بیان آتا ہے تو دوسری اسے مسترد کردیتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:اپوزیشن، حکومت اور فوج کے درمیان دراڑ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے، وزیراعظم
دہشت گردی کے خطرات کے پیش نظر وزیر خارجہ نے کہا کہ ہمارا فرض ہے حقائق سے آگاہ کرنا البتہ فیصلہ انہیں (اپوزیشن کو) خود کرنا ہے ہم انہیں اپنے فیصلے کا پابند نہیں کررہے، انہوں نے کہا کہ اس وقت بھارت کی پاکستان سے متعلق منصوبہ بندی ان کے علم میں ہونی چاہیے۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کی دوسری لہر کو بھی مدِ نظر رکھا جائے۔
بھارت سے متعلق وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ پہلے نان اسٹیٹ ایکٹرز کی بات ہوتی اب تو اسٹیٹ خود ایکٹر ہے، اس سے زیادہ سنجیدہ مسئلہ کیا ہوسکتا ہے جبکہ دونوں ایٹمی قوتیں ہیں، لہٰذا دنیا کو بھارت کے ان ارادوں، گرینڈ ڈیزائن کا نوٹس لینا چاہیے۔
افغانستان کے دورے کے حوالے سے بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مستقبل قریب میں وزیراعظم عمران خان کابل جائیں گے اور مختلف معاملات پر بات چیت کی جائے گی۔
بھارتی منصوبہ بندی سے متعلق معلومات تاخیر سے منظر عام پر لانے سے متعلق سوال کے جواب میں وزیر خارجہ نے کہا کہ معلومات ہوتی ہیں لیکن معلومات کو اکٹھا کر کے ایک تصویر کی شکل میں واضح کیا گیا اور پاکستان نے مناسب سمجھا کہ چونکہ ان کے ارادے سامنے آگئے ہیں اس لیے اب اس بات کو اجاگر کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ایسا نہیں کہ ہم پہلے بات نہیں کررہے تھے ہم سفارتی سطح پر بات کررہے تھے تاہم شواہد کو اکٹھا کرنے کے بعد جب ہمیں یقین ہوگیا کہ ہمارے پاس موجود شواہد واضح اور ٹھوس ہیں، جو اسکروٹنی کے معیار پر اتر سکتے ہیں اس وقت انہیں منظر عام پر لانے کا فیصلہ کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: عالمی برادری کشمیریوں کو بھارتی مظالم سے نجات دلانے کیلئے کردار ادا کرے، وزیر خارجہ
اپوزیشن کے جلسوں کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ اگر میں بات کروں گا تو اسے سیاسی رنگ دیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہ گھبرا گئے لیکن ہم دیانت داری سے سمجھتے ہیں کہ یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے اور اسے قوم کے سامنے رکھنا ہمارا فرض تھا۔
اپوزیشن کا حوالہ دیتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ وہ بھی قوم کا حصہ ہیں ان کی حفاظت بھی ہمیں مطلوب ہے خدانخواستہ کسی جلسے میں کسی سیاسی شخصیت پر ایسا نا خوشگوار واقعہ پیش آجاتا ہے تو اس کی ذمہ داری ہم پر حکومت وقت پر عائد ہوتی ہے۔
بات کو جاری رکھتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ اس لیے انہیں آگاہ کرنا اور حقائق ان کے سامنے رکھنا ہمارا فرض ہے، فیصلہ انہیں کرنا ہے، ہم انہیں اپنے فیصلے کا پابند نہیں کررہے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ دنوں اپوزیشن رہنما لاک ڈاؤن کے مطالبات کرتے تھے، ہم نے کیا اور اس میں کامیابی حاصل کی لیکن اب جو مثبت شرح کم ہوگئی تھی وہ دوبارہ بڑھنا شروع ہوگئی ہے خاص کر ملتان میں بہت تیزی سے مثبت شرح بڑھ رہی ہے۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ملک کے 11 بڑے شہروں میں ملتان اور حیدرآباد ہاٹ اسپاٹ کے لحاظ سے پہلے اور دوسرے نمبر پر ہیں اس لیے ملتان کے شہریوں کو بھی احتیاط برتنی چاہیے اور اپوزیشن کو اس پر غور کرنا چاہیے کہ جہاں حکومت کی ذمہ داریاں ہیں، کیا ان کی نہیں ہیں، اس لیے انہیں ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرنا چاہیے۔
اپوزیشن کے اس دعوے کہ جنوری میں حکومت ختم ہوجائے گی کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں وزیر خارجہ نے کہا کہ یہ ان کی خواہش ہوسکتی ہے اگر ان کی خواہش پر چلا جائے تو یہ حکومت بننی ہی نہیں چاہیے تھی۔
مزید پڑھیں: پاکستان، چین کا مشترکہ مفادات کے تحفظ کیلئے مل کر اقدامات کرنے پر اتفاق
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اس میں کوئی عیب نہیں ہر اپوزیشن یہ خواہش کرتی ہے، جنوری بھی آجائے گا تو دیکھ لیں گے، اپوزیشن فیصلہ کرے کہ وہ چاہتے کیا ہیں، اس وقت پی ڈی ایم کی قیادت کنفیوژن کا شکار ہے کبھی اسٹیبلشمنٹ پر حملہ آور ہوجاتے ہیں، کبھی جوش خطابت میں اپنے اداروں کو ہی روند دیتے ہیں اور نہ چاہتے ہوئے بھی ان لوگوں کو خوش کرتے ہیں جو پاکستان کو نیچا دکھانا چاہتے ہیں۔
گلگت بلتستان میں قبل از انتخاب دھاندلی کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اپوزیشن خود کہہ رہی تھی کہ 15 تاریخ کو کامیابی کا جشن منائیں گے تو دھاندلی کا ذکر کہاں سے آگیا یہی تو کنفیوژن ہے 4 لوگوں کو جمع دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ بڑا انقلاب آگیا لیکن ووٹر اپنی مرضی سے ووٹ دیتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 2013 میں پی ٹی آئی نے بہت بڑے بڑے جلسے کیے، انہیں دیکھا جائے تو اس وقت بھی پی ٹی آئی کو کامیاب ہونا چاہیے تھا لیکن ہمیں توقع کے مطابق نشستیں نہیں ملی تھیں اس لیے یہ بھی 4 لوگ دیکھ کر یہ توقع نہ لگالیں کہ انہیں وہ نشستیں ملیں گی۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ اپوزیشن کو پورا موقع ملا انہوں نے پوری دل جمعی کے ساتھ مہم چلائی وہاں پڑاؤ ڈال کر بیٹھے رہے، کھلا ماحول تھا پر امن طریقے سے انتخابی مہم مکمل ہوئی۔
بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میرے جائزے کے مطابق اپوزیشن کی توقعات شاید پوری نہ ہوں، اب اگر میری توقع پوری نہ ہو اور میں اسے دھاندلی کی شکل دے دوں تو یہ تو سیاست نہ ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں ہونے والی ملاقات میں اپوزیشن کو دعوت دی گئی کہ تجاویز دیں کہ گلگت بلتستان کے انتخابات کس طرح شفاف کیے جاسکتے ہیں، دو مرتبہ انہیں نشستوں میں مدعو کیا گیا لیکن نہیں آئے۔
دہشت گردی میں را کے ملوث ہونے پر افغانستان سے بات چیت کرنے کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ان معاملات کے لیے افغانستان پاکستان ایکشن پلان فار پیس اینڈ سولیڈیریٹی میکانزم کو استعمال کریں گے۔