عمران طاہر اور شاہد آفریدی کی افادیت اور تجربے پر کوئی دو رائے نہیں لیکن آفریدی کئی سال سے کچھ خاص کرکٹ نہیں کھیل رہے تھے اور پاکستان سپر لیگ کے لیگ میچوں کے بعد سے کرکٹ سے دور تھے۔
دوسری طرف کراچی کنگز نے آل راؤنڈر عامر یامین اور کیمرون ڈیلپورٹ کو موقع نہیں دیا۔ کیمرون ڈیلپورٹ کراچی کے لیے کئی اچھی اننگز کھیل چکے ہیں اور عامر یامین نیشنل ٹی20 کپ میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔
ملتان سلطان کے بلے باز کچھ عجیب سی جلدی میں تھے اور اگر روی بوپارہ اننگ کو نہیں سنبھالتے اور آخر میں سہیل تنویر کچھ عمدہ ہٹس نہ لگاتے تو سلطانز شاید 100 رنز بھی نہ بنا پاتے۔
دوسری جانب کراچی کنگز کی اننگ کے پہلے 16 اوورز تک میچ مکمل طور پر یکطرفہ لگ رہا تھا لیکن بابر کی وکٹ گرنے کی دیر تھی کہ میچ سنسنی خیز مرحلے میں داخل ہو گیا۔ بابر اعظم نے میچ کے حالات کے مطابق ایک عمدہ اننگ کھیلی، خاص طور پر آفریدی کی گیندوں پر لگائے گئے چھکے تو بہت ہی دلکش نظارہ پیش کر رہے تھے۔
اگرچہ بابر نے زبردست اننگ کھیلی تھی، لیکن جب میچ سپر اوور تک گیا تو وہ بیٹنگ کے لیے نہ آئے، بالکل اسی طرح جب زمبابوے کے خلاف میچ سپر اوور تک گیا تھا اور سنچری اسکور کرنے کے باوجود بابر اعظم سپر اوور میں بیٹنگ کے لیے نہیں آئے تھے۔ حالانکہ سپر اوور میں تمام ٹیموں کی کوشش ہوتی ہے کہ میچ میں عمدہ کارکردگی دکھانے والے بیٹسمین کو بھیجا جائے، تاکہ وہ اپنے اعتماد سے ٹیم کو فائدہ پہنچا سکے۔
محمد عامر کو لوگ بڑے میچ کا کھلاڑی کہتے ہیں اور عامر کبھی کبھی اس بات پر پورا بھی اتر ہی جاتے ہیں۔ ویسے تو اس میچ کے دوران بھی عامر عام سی باؤلنگ کرتے نظر آئے، لیکن جب سپر اوور کے لیے ان پر بھروسہ کیا گیا تو ان کے اندر کا جنگجو باہر آگیا۔ عامر نے سپر اوور میں 2 وائڈ گیندیں ضرور پھینکیں لیکن اس کے علاوہ یارکرز کا تسلسل کچھ ایسا تھا کہ ملتان سلطانز کے بلے بازوں کے لیے بڑے شاٹ کھیلنا تقریباً ناممکن بن گیا۔ یوں کراچی کنگز نے پہلی بار فائنل تک رسائی حاصل کرلی۔
راحت علی ایک عمدہ باؤلر ہیں لیکن جب بھی ان کا نام لیا جائے تو شاید ہی کسی کے ذہن میں راحت کا کوئی یادگار باؤلنگ اسپیل آئے۔ آپ راحت علی کا نام سنیں یا پڑھیں تو کیا ذہن میں آتا ہے؟ شین واٹسن، وہاب ریاض، ورلڈکپ 2015ء اور ایک ڈراپ کیچ، جس کے ذہن میں کچھ اور آئے وہ یا تو کرکٹ نہیں دیکھتا یا پھر وہ راحت علی کا فین ہوگا۔
وہ ایک کوارٹر فائنل میچ تھا اور پشاور زلمی کا لاہور قلندرز سے میچ بھی کوارٹر فائنل کی حیثیت ہی رکھتا تھا اور راحت علی نے ایک بار پھر ان یادوں کو تازہ کردیا۔ حفیظ نے گیند ہوا میں اچھالی تو اس وقت میچ کافی حد تک پشاور زلمی کے ہاتھوں میں تھا، لاہور قلندرز کو فتح کے لیے 10 سے زیادہ کا رن ریٹ درکار تھا اور حفیظ کی وکٹ گرتی تو یہ ہدف مزید مشکل ہوجاتا۔ اس کے بعد لاہور قلندرز اور محمد حفیظ نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ حفیظ نے وکٹ کیپر کو ایک بار کیچ بھی دیا لیکن حیران کن طور پر امپائر تو دُور کی بات، باؤلر اور وکٹ کیپر بھی یہ محسوس نہ کرسکے کہ بال بیٹ سے سے لگ کر وکٹ کیپر کے پاس پہنچی ہے، ان سب معاملات کا نتیجہ لاہور کی جیت کی صورت سامنے آیا۔
پشاور زلمی کو اننگ کے آغاز میں اس وقت مشکل کا سامنا کرنا پڑا جب صرف ایک کے اسکور پر شاہین آفریدی کی زبردست یارکر کو حیدر علی سمجھنے میں ناکام رہے اور بولڈ ہوگئے۔
پاور پلے کے اختتام تک ایسا لگ رہا تھا کہ پشاور زلمی کا اسکور پہلے میچ کے اسکور تک پہنچنا بھی مشکل ہوگا، نیشنل ٹی20 کپ میں آؤٹ آف فارم نظر آنے والے شعیب ملک عمدہ فارم میں نظر آئے۔ کچھ نیشنل ٹی20 کپ کے فائنل والی فارم باقی تھی اور کچھ سلیکٹ نہ کیے جانے کا غصہ جو ملک نے لاہور قلندرز کے باؤلروں پر اتار دیا۔
نیشنل ٹی20 کپ میں ناقص فیلڈنگ کا جو مظاہرہ شروع ہوا تھا وہ پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں بھی جاری ہے۔ دوسرے ممالک میں ہونے والی لیگز میں انٹرنیشنل کھلاڑیوں کی بہترین فیلڈنگ کو دیکھتے ہوئے مقامی فیلڈر بھی بہترین فیلڈنگ کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن پی ایس ایل میں معاملہ بالکل برعکس ہے۔ یہاں مقامی فیلڈر کی ناقص فیلڈنگ دیکھتے ہوئے انٹرنیشنل کھلاڑی بھی ویسی ہی فیلڈنگ کرتے نظر آ رہے ہیں۔
شہزاد فاروق
ایم بی اے مارکیٹنگ کرنے کے بعد نوکری سیلز کے شعبے میں کررہا ہوں۔ کرکٹ دیکھنے اور کھیلنے کا بچپن سے جنون تھا ۔ پڑھنے کا بچپن سے شوق ہےاور اسی شوق نے لکھنے کا حوصلہ بھی دیا۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔