صحت

نئے کورونا وائرس کا ایک نیا 'چھپا' ہوا جین دریافت

اس چھپے ہوئے جین نے ممکنہ طور پر اس وائرس کی منفرد بائیولوجی اور وبائی خاصیت میں کردار ادا کیا۔

سائنسدانوں نے نئے کورونا وائرس کے اندر 'چھپے' نئے جین کو تلاش کرلیا ہے جس نے ممکنہ طور پر اس کی منفرد بائیولوجی اور وبائی خاصیت میں کردار ادا کیا۔

یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

طبی جریدے جرنل ای لائف میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ ایک ایسا وائرس جس میں مجموعی طور پر صرف 15 جینز ہیں، اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننا یا جینز کے اندر چھپے جینز کی دریافت اس سے مقابلہ کرنے پر نمایاں اثرات مرتب کرے گی۔

تحقیق میں کہا گیا کہ چھپے ہوئے جینز ممکنہ طور پر ایک ایسا ہتھیار ہے جو کورونا وائرسز کو موثر طریقے سے نقول بنانے، میزبان کی مدافعت کو ختم کرنے یا خود کو منتقل کرنے کے ارتقائی مراحل سے گزرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔

محققین کا کہنا تھا کہ اس طرح کے جینز کی موجودگی اور ان کے افعال کے جاننے سے کورونا وائرس کو کنٹرول کرنے کے نئے راستے دریافت کیے جاسکتے ہیں۔

تحقیقی ٹیم نے اس نئے جین کو او آر ایف 3 ڈی کا نام دیا ہے، اس سے قبل پینگولین کورونا وائرس میں بھی دریافت کیا گیا تھا۔

یہ جین کووڈ 19 کے مریضوں میں مضبوط اینٹی باڈی ردعمل کی روک تھام کرسکتا ہے جبکہ یہ بھی دیکھا گیا کہ اس نئے جین کا پروٹین انسانی انفیکشن کے دوران بنتا ہے۔

محققین نے بتایا کہ ابھھی ہم اس جین کے افعال یا اہمیت کے بارے میں نہیں جانتے، مگر ہم پیشگوئی کرسکتے ہیں کہ اس جین کو ٹی سیلز ردعمل کے دوران پکڑا نہیں جاسکتا۔

عام طور پر جینز بظاہر ایک تحریری زبان کی طرح ہوتے ہیں جو الفاظ کی لڑی سے بنے ہوتے ہیں، جو معلومات فراہم کرتے ہیں۔

مگر اس طرح کے چھپے جینز مختلف النوع افعال کے حامل ہوتے ہیں اور ان کو دیکھنا مشکل ہوتا ہے، بیشتر سائنسی کمپیوٹر پروگرام ان کو دریافت کرنے کے لیے ڈیزائن نہیں ہوتے۔

تاہم وائرسز میں اس طرح کے جین عام ہوتے ہیں، خاص طور پر آر این اے وائرسز جن میں میوٹیشن ریٹ زیادہ ہوتا ہے، وہ اپنے جین کی تعداد کم رکھتے ہیں تاکہ زیادہ بڑی تعداد میں میوٹیشنز کی روک تھام کرسکیں۔

اس کے نتیجے میں وائرسز میں ایک ایسا ڈیٹا دبانے والا نظام بنتا ہے جو چھپے ہوئے مختلف جینز کا باعث بنتا ہے۔

محققین نے کہا کہ اس طرح کے چھپے ہوئے جینز کو نظرانداز کردیناا وائرل حیاتیات کے اہم پہلوؤں کو نظروں سے دور کرسکتا ہے، جہاں تک جینوم کے حجم کی بات ہے تو نئے کورونا وائرس اور اس کے رشتے دار سب سے لمبے آر این اے وائرسز ہیں۔

اس تحقیق کے دوران محققین نے ایک کمپیوٹر پروگرام تیار کیا جس کا مقصد اس طرح کے چھپے ہوئے جینز سے ہونے والی تبدیلیوں کے رجحان کی اسکریننگ کرنا تھا۔

محققین کو توقع ہے کہ ان کے دریافت کردہ جین پر دیگر سائنسدان کام کرکے اس کے افعال اور اس کے کردار کا تعین کرسکیں گے۔

ایک اور کورونا ویکسین بیماری کی روک تھام کیلئے 92 فیصد تک موثر قرار

نومولود بچوں میں کووڈ کی زیادہ شدت کا امکان بہت کم ہوتا ہے، تحقیق

کورونا وائرس سے مردوں کو ہونے والے ایک اور نقصان کا انکشاف