سائنس و ٹیکنالوجی

بھارت کا آن لائن نیوز اور سوشل میڈیا سائٹس ریگولیٹ کرنے کا فیصلہ

بھارت میںاسٹریمنگ سروسز کو سخت حکومتی نگرانی میں لانے کے لیے وزارت اطلاعات و نشریات کے زیرتحت کرنے کا حکم جاری کردیا گیا۔

بھارت میں آن لائن نیوز پورٹل اور اسٹریمنگ سروسز کو سخت حکومتی نگرانی میں لانے کے لیے وزارت اطلاعات و نشریات کے زیرتحت کرنے کا حکم جاری کردیا گیا ہے۔

یہ ڈیجیٹل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کا پہلا قدم ہے جس کے تحت سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے فیس بک ، ٹوئٹر اور انسٹاگرام پر خبریں بھی بھارتی وزارت کے کنٹرول میں آجائیں گی جبکہ آن لائن پلیٹ فارمز پر آڈیو اور ویڈیو مواد پر بھی اس کا اختیار ہوگا۔

ان نئے قوانین پر دستخط بھارتی صدر نے رواں ہفتے کیے اور اس طرح وہاں ڈیجیٹل کمپنیوں کے اپنے مواد کو خود ریگولیٹ کرنے کے عمل کا اختتام بھی شروع ہوگیا۔

انٹرنیٹ فریڈم فاؤنڈیشن کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اپار گپتا نے بتایا کہ اس حکم سے وزارت اطلاعات و نشریات اور وزارت الیکٹرونکس و انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دائرہ اختیار کو واضح کیا گیا ہے۔

انہوں نے الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے کہا 'آن لائن میڈیا پورٹلز اور او ٹی ٹی (اوور دی ٹاپ) اسٹریمنگ پلیٹ فارمز جیسے نیٹ فلیکس اب وزارت اطلاعات و نشریات کے دائرہ اختیار میں آئیں گے'۔

تاہم یہ واضح نہیں کہ بیرون ملک واقع نیوز ویب سائٹس پر بھی اس کا اطلاق ہوگا یا نہیں۔

بھارتی یڈیا کے مطابق حکومت کی جانب سے جلد پارلیمنٹ میں آن لائن میڈیا ریگولیشن کے قانون کو منظور کرایا جائے گا۔

اس وقت بھارت میں الیکٹرونک میڈیا کو کیبل ٹیلیویژن نیٹ ورکس ریگولیشن ایکٹ 1995 کے تحت ریگولیٹ کیا جاتا ہے، مگر ڈیجیٹل مواد کے حوالے سے کوئی قانون یا ادارہ موجود نہیں۔

یہ نیا حکم اس وقت جاری کیا گیا جب گزشتہ ماہ بھارتی سپریم کورٹ نے او ٹی ٹی پلیٹ فارمز کے مواد کو ریگولیٹ کرنے کے حوالے سے ایک درخواست کی سماعت کے دوران حکومت سے جواب طلب کیے تھے۔

ستمبر میں 15 لائیو اسٹریمنگ پلیٹ فارمز کی جانب سے اپنے مواد کو خود ریگولیٹ کرنے کا اعلان کیا گیا۔

اچھی علامت نہیں

بولی وڈ فلموں کو مرکزی سنسر بورڈ (سی بی ایف سی) کی جانب سے سنسر کیا جاتا ہے، مگر نیٹ فلیکس، ایمیزون پرائم ویڈیو اور دیگر پلیٹ فارمز کے مواد کی جانچ پڑتال نہیں ہوتی۔

مصنف اور سنیئر صحافی پران جوئے گوہا تھاراوکٹا نے بتایا 'دائیں بازو اور قدامت پسند عناصر، جن میں اکثریت حکومتی حامیوں کی ہے، کی جانب سے زور دیا جاتا رہا ہے کہ او ٹی ٹی پلیٹ فارمز جیسے نیٹ فلیکس کے مواد کو ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے'۔

ان کا کہنا تھا 'ان حلقوں کا کہنا ہے کہ آن لائن پلیٹ فارمز میں دکھائی جانے والی فلموں سی بی ایف سی کے زیرتحت نہیں آتیں اور ان میں بہت زیادہ تشدد اور نامناسب مناظر دکھائے جاتے ہیں'۔

انہوں نے مزید کہا 'حکومت کے اس نئے قدم کا مقصد آن لائن میڈیا کو اپنے کنٹرول میں لانا ہے'۔

ایک نیوز ویب سائٹ دی وائر ڈاٹ ان کے بانی ایڈیٹر سدہارتھ ورداراجن نے بتایا کہ یہ حکم نامہ ڈیجیٹل نیوز میڈیا کو کنٹرول میں لانے کا آغاز ہے'۔

انہوں نے کہا 'ہمیں دیکھا ہوگا کہ حکومت کیا کرنے کی کوشش کرتی ہے، کیسے قوانین اس مقصد کے لیے جاری کیے جاتے ہیں، مگر جو بھی ہو مجھے نہیں لگتا کہ یہ کوئی اچھی علامت ہے، حقیقت تو یہ ہے کہ ڈیجیٹل میڈیا پہلے ہی مقامی قوانین کے تحت ہے'۔

انہوں نے مزید بتایا 'میڈیا پر تمام تر پابندیوں جیسے ہتک عزت کا قانون یا دیگر کا اطلاق ڈیجیٹل میڈیا پر بھی ہوتا ہے، اس کے علاوہ ڈٰجیٹل میڈیا پر انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ کے مطابق کام کرنے کے اضافی بوجھ کا سامنا بھی ہے، جس کا اطلاق اخبارات اور نیوز چینلز پر نہیں ہوتا'۔

ان کے بقول 'میری نظر میں ڈیجیٹل میڈیا کو پہلے ہی ریگولیٹ کیا جارہا ہے اور اگر حکومت اس میں مزید اضافہ کرنا چاہتی ہے تو یہ کوئی صحت مند علامت نہیں اور کسی جمہوری میں اس طرح نہیں ہوتا'۔

اس حوالے سے اب تک بی جے پی یا اسٹریمنگ پلیٹ فارمز جیسے نیٹ فلیکس کی جانب سے کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔

پبلک ٹرانسپورٹ کے بجائے اپنی گاڑیوں میں سفر معاشرتی تقسیم کا سبب بن رہا ہے؟

’مان بھی جا پگلے، رلائے گا کیا؟‘

افغانستان: حملے کے نتیجے میں خاتون پولیس افسر بینائی سے محروم