امپرئیل کالج لندن اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے نوفیلڈ ڈیپارٹمنٹ آف پاپولیشن ہیلتھ نے برطانیہ بھر میں اس کے لیے کام کیا۔
تحقیق کے نتائج طبی جریدے دی لانیسٹ چائلڈ اینڈ اڈولسینٹ ہیلتھ میں شائع ہوئے، جس میں برطانیہ بھر میں کووڈ 19 سے متاثر ہونے والے 29 دن سے کم عمر بچوں کو ڈھونڈا گیا، جن کو ہسپتال میں داخل کرانا پڑا تھا۔
یہ بچے مارچ کے آغاز سے اپریل کے آخر تک کووڈ 19 سے متاثر ہوئے تھے۔
محققین نے مجموعی طور پر 66 بچوں کا سراغ لگایا جن کا اس دوران کووڈ 19 کا علاج ہسپتال میں ہوا۔
محققین کے مطابق یہ تعداد 1785 میں سے ایک یا 0.06 فیصد کے مساوی ہے۔
کورونا وائرس کی زیادہ شدت کا سامنا کرنے والے ان بچوں میں 45 فیصد سیاہ فام، ایشیائی یا کسی اور اقلیتی گروپ سے تعلق رکھتے تھے جبکہ ہر 4 میں سے ایک کی پیدائش قبل از وقت ہوئی۔
محققین کے مطابق 66 میں سے صرف 17 کے بارے میں شک تھا کہ وہ کووڈ 19 کا شکار پیدائش کے پہلے ہفتے کے دوران ماں کے ذریعے ہوئے۔
انہوں نے بتایا کہ ان 17 میں سے 7 میں کووڈ 19 پیدائش کے فوری بعد ماں سے الگ کیے جانے کے بعد بھی منتقل ہوا۔
نتائج سے اس خیال تقویت ملتی ہے کہ ماں اور بچے کو اکٹھا رکھنا چاہیے، چاہے ماں میں کووڈ 19 کا شبہ ہی کیوں نہ ہو۔
ان 66 میں سے کسی بچے کی موت کووڈ 19 کے باعث نہیں ہوئی۔
ڈیٹا کے تجزیے سے معلوم ہوا کہ لگ بھگ 90 فیصد بچے بہت جلد اس بیماری سے صحتیاب ہوگئے اور انہیں ہسپتال سے ڈسارج کردیا۔
محققین کا کہنا تھا کہ نومولود بچوں کو اگر کووڈ 19 کی زیادہ شدت کا سامنا ہو تو انہیں آئی سی یو یا سانس کی سپورٹ کی ضرورت بڑی عمر کے بچوں کے مقابلے میں زیادہ ہوسکتی ہے، تاہم ان کا کہنا تھا کہ نومولود بچوں میں سنگین بیماری کا خطرہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ بہت کم تعداد میں بچوں میں یہ بیماری ماؤں سے منتقل ہوئی۔
محققین نے بتایا کہ زیادہ تر نومولود بچوں میں اس کی شدت معتدل ہوتی ہے اور وہ بہت جلد صحتیاب بھی ہوجاتے ہیں۔
ننھے بچوں میں کووڈ 19 کی بنیادی علامات میں زیادہ درجہ حرارت، فیڈنگ میں مسائل، الٹیاں، ناک بہنا، کھانسی اور تھکاوٹ نمایاں تھیں۔