بھائی ٹرمپ اور بی بی میلانیا کی حالیہ گفتگو
’آہ ڈونلڈ ٹرمپ! ارے یہ کیا ہوگیا۔ جانے والوں کو کہاں روک سکا ہے کوئی۔ تم چلے ہو تو کوئی روکنے والا ہی نہیں‘۔
جب سے ڈونلڈ ٹرمپ صاحب کی شکست کی خبر سنی ہے دل سے یہی آوازیں نکل رہی ہیں، اتنی زور سے کے بعض دفعہ منہ سے بھی نکل جاتی ہیں۔
ٹرمپ بھائی کے ہارنے کا جتنا دکھ ہمیں ہے اتنا خود انہیں بھی نہیں ہوگا، کیونکہ وہ اب تک مُصر ہیں کہ میں ہارا نہیں ہوں۔ سنا ہے جو انہیں شکست خوردہ کہے اسے پلٹ کر جواب دیتے ہیں ’جو کہتا ہے وہ خود ہی ہوتا ہے‘۔
بدقسمتی سے ہم یہاں ہیں وہ وہاں، ورنہ انہیں سینے سے لگا کر کہتے مان بھی جا پگلے، رلائے گا کیا!
آپ مذاق سمجھ رہے ہیں، ارے بھئی ہمیں ان سے اتنی ہی محبت ہے۔ اس محبت کا سبب یہ ہے کہ بھائی ٹرمپ ہمیں اپنے اپنے سے لگتے ہیں۔ انہیں جب بھی دیکھا اور سنا تو یہی لگا کہ وہ پاکستانی سیاستدانوں کا انگریزی ورژن ہیں اور قدرت نے پاکستانی سیاستدانوں کی خصلتیں، فطرتیں اور عادتیں چنیں اور کاپی پیسٹ کرکے جب کچھ نہ بن سکا تو ’ٹرمپو‘ بنادیا۔
مزید پڑھیے: کیا آپ ان 7 الجھنوں کو سلجھانے میں ہماری مدد کرسکتے ہیں؟
ٹرمپ بھیا سے اپنی اس دلچسپی اور محبت کے باعث ہم ان کے لیے بے حد فکرمند تھے کہ ناجانے ہار کو گلے کا ہار بنتے دیکھ کر ان پر کیا گزر رہی ہوگی۔
امریکی انتخابات کا ایک ظالمانہ پہلو یہ ہے کہ انتخابات میں شکست بھی ’قسطوں میں خودکشی کا مزہ ہم سے پوچھیے‘ کے مصداق دھیرے دھیرے، رفتہ رفتہ ملتی ہے، امیدوار کئی کئی دن تک سولی پر لٹکا رہتا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان میں تیز رفتاری کا یہ عالم ہے کہ بعض اوقات الیکشن سے پہلے ہی معلوم ہوجاتا ہے کہ کون جیت رہا ہے!
ہمیں تشویش تھی کہ اس قسط وار ہار کے دوران اور ہارنے کے بعد بھائی ٹرمپ کا جانے کیا حال ہوگا، کیا سوچ رہے ہوں گے، کیا کہہ رہے ہوں گے۔ سو ہم نے بڑی کوشش کرکے شکست کے بعد ٹرمپ کی سوچ، تاثرات اور مکالمے کا سراغ لگا ہی لیا۔ ہمارے ’موکلوں‘ نے جو منظر دکھایا، وہ جوں کا توں آپ کے سامنے پیش ہے۔
مشیر: جنابِ صدر!
ٹرمپ: ہاں بَکو۔
مشیر: آپ ہار گئے۔
ٹرمپ: (کانوں پر ہاتھ رکھ کر چیختے ہوئے) نہیں ںںںںں۔ کہہ دو کہ یہ جھوٹ ہے۔
مشیر: یہ جھوٹ ہے۔
ٹرمپ: سچی؟ ایمان سے چل قسم کھا۔
مشیر: آپ نے ہی تو کہا تھا کہہ دو کہ یہ جھوٹ ہے تو میں نے کہہ دیا۔
ٹرمپ: اس کا مطلب ہے میں ہار گیا ہوں۔
مشیر: تو میں نے کیا بکواس کی ہے۔
ٹرمپ: بدتمیز، چل دفع ہو۔
میلانیا: اب کیا سوچا ہے؟
ٹرمپ: اب کے سوچا ہے کہ پتھر کے ہوں ووٹر، تاکہ نہ دیں گر ووٹ تو ٹکرا بھی سکیں، مر بھی سکیں۔ اس کے علاوہ یہ سوچا ہے کہ جینا ہوگا مرنا ہوگا، دھرنا ہوگا دھرنا ہوگا۔
میلانیا: اکیلے دھرنا کیسے دیں گے، آپ کے ساتھ تو کوئی طاہرالقادری بھی نہیں۔ ایسا کریں ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگائیں، اس کے لیے کسی کی ضرورت نہیں ہوتی، یہ کام اکیلا بندہ بھی کرسکتا ہے۔
ٹرمپ: نیک بخت، پھر مجھے بیمار پڑنا ہوگا، ملک چھوڑ کر باہر جانا ہوگا۔
میلانیا: ہائے، ہائے، یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں تھا۔
ٹرمپ: ہائے، کیا یاد آگیا۔
میلانیا: کیا؟
ٹرمپ: جب پاکستان میں عام انتخابات ہورہے تھے تو میری عمران خان سے بات ہوئی۔ میں نے کہا میں تو اس لیے جیت گیا کہ میرے پاس دولت ہے، پارٹی ہے، گوروں کی برتری کا تصور ہے، تمہارے پاس کیا ہے۔ اس نے مجھے دیکھا، مسکرایا، پھر بولا، ’اوئے، تیرے بھائی کے پاس جہانگیر ترین ہے‘۔ کاش میرے پاس بھی کوئی جہانگیر ترین ہوتا۔
میلانیا: آپ کو کسی جہانگیر ترین کی کیا ضرورت، آپ تو خود بدترین ہیں۔
ٹرمپ: ارے پگلی تجھے نہیں پتا جہانگیر ترین کیا ہے۔
میلانیا: جانتی ہوں، ’میٹھا میٹھا ہپ ہپ، کڑوا کڑوا تھو تھو‘۔ یہ بھی پتا ہے کہ ایسے لوگوں کے ساتھ پر خدا کا شُکر ہی ادا نہیں کیا جاتا، ادائیگی مہنگی شَکر کی صورت میں بھی کرنی پڑتی ہے۔
ٹرمپ: اچھا چپ کر، بیرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتے، کرنی ہو تو سیدھے سیدھے فوج بھیجتے ہیں۔
میلانیا: ہمارے ملک میں ایک ڈیڑھ مولانا فضل الرحمٰن اور بلاول بھٹو ہوتے تو آپ یوں اکیلے نہ پڑتے۔
ٹرمپ: ارے میرے کَنے تو کوئی شیخ رشید، علی امین گنڈاپور، فواد چوہدری، فیصل واؤڈا، فردوس عاشق اعوان بھی نہیں۔ سب کا کام مجھ اکیلے کو کرنا پڑا۔
مزید پڑھیے: ’نیوٹَن‘ کے بعد پیش خدمت ہے ’نیو ٹُن‘
میلانیا: آپ سب کو ٹینشن دیتے رہے، کسی کو ’ایکسٹینشن‘ دے دیتے تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔
ٹرمپ: کیسی باتیں کرتی ہو، میں تن تنہا صرف 4 سال میں امریکا کو پورا پورا پاکستان تو نہیں بنا سکتا تھا نا۔
میلانیا: چھوڑیں جی، آپ نے بل کلنٹن، باراک اوباما اور بش کی بیویوں کے سامنے میری ناک کٹوادی، ان کے شوہر 2، 2 بار صدر بنے اور آپ ایک ہی صدارتی مدت کے بعد دفع دُور کردیے گئے۔
ٹرمپ: (دانت پیس کر ہتھیلی پر مکا مارتے ہوئے) میں انتخابات والا صدر تھا اس لیے یہ نوبت آئی، اگر میں ریفرنڈم والا پاکستانی یا مِصری صدر ہوتا تو دیکھتا کس کی مجال ہے کہ مجھے کرسی سے اتارے۔
میلانیا: خیر جو ہوا سو ہوا، اب سیاست میں رہنا ہے تو صدارت کے چکر میں مت پڑیں، کوئی جماعت بنائیں اور اس کے ’قائد‘ بن جائیں، آپ کی ’قائدانہ صلاحیتیں‘ تو سب نے دیکھ ہی لی ہیں۔ 30، 40 سال آرام سے نکل جائیں گے، اور پھر آپ نکل جائیں گے۔
ٹرمپ: اگر میری تقریروں کی وضاحت کے لیے کوئی فاروق ستار، فیصل سبزواری یا حیدر عباس رضوی میسر ہوتے تو میں یہی کرتا۔
میلانیا: اچھا کچھ بنائیں نہ بنائیں، میرے 8، 10 کالے جوڑے تو بنادیں۔
ٹرمپ: وہ کس لیے؟
میلانیا: آپ کی ہار کا سوگ کیا میں انہی کپڑوں میں مناؤں گی! لوگ کیا کہیں گے؟
ہمیں بس یہیں تک کے منظر کی خبر ہے۔ اب میلانیا کا کالا جوڑا بنے گا یا نہیں، اور ٹرمپ بھائی کا کیا بنے گا، یہ آپ کو خبروں سے پتا چل ہی جائے گا۔
یہ طنزیہ بلاگ ہے۔
عثمان جامعی شاعر، قلم کار، مزاح نگار، بلاگر، صحافی ہیں۔ آپ کی تین کتابیں شائع ہوچکی ہیں، جن میں فکاہیہ مضامین کا مجموعہ ’کہے بغیر‘، شعری مجموعہ ’میں بس ایک دیوار‘ اور کراچی کے حوالے سے ناول ’سرسید، سینتالیس، سیکٹرانچارج‘ شامل ہیں۔ آپ اس وقت ایک اخبار میں بطور ’سنڈے میگزین‘ انچارج ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔