مگر 9 نومبر کو برازیل کے ہیلتھ ریگولیٹر انویسا کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ ایک سنگین واقعہ 29 اکتوبر کو پیش آیا اور اسی وجہ سے ویکسین کے ٹرائل کو معطل کردیا گیا۔
بوتانتین انسٹیٹوٹ کے ڈائریکٹر ڈیماس کواس نے گزشتہ روز مقامی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ٹرائل میں شامل ایک فرد کی موت ہوئی ہے، مگر اس کا ویکسین سے کوئی تعلق نہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت 10 ہزار سے زیادہ رضاکار ٹرائل کا حصہ ہیں اور موت ایک قدرتی امر ہے، اس رضاکار کی موت کا ویکسین کے استعمال سے کوئی تعلق نہیں۔
منگل کو باضابطہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سینویک کی تجرباتی ویکسین کے تیسرے مرحلے کے ٹرائل کے دوران کوئی سنگین مضر اثرات دیکھنے میں نہیں آئے۔
انہوں نے کہا کہ برازیل میں ٹرائل کو معطل کرنا ناپسندیدہ عمل ہے اور ایسا ہماری مشاورت کے بغیر کیا گیا۔
برازیلین ریگولیٹر نے رضاکار کی موت کے حوالے سے کوئی تفصیلات جاری نہیں کی ہیں۔
ادارے کے مطابق ان رضاکاروں کا ڈیٹا خفیہ رکھنا ہوگا جو کہ انسانی وقار، ان کے تحفظ اور اعتماد کے اصولوں کے مطابق ہے، ٹرائل معطل رہنے کے دوران کسی نئے رضاکار کو ویکسین استعمال نہیں کرائی جائے گی۔
دوسری جانب منگل کو سینویک نے اپنی ویب سائٹ پر ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ رضاکار کی موت کا ذمہ دار ویکسین کو قرار نہیں دیا جاسکتا۔
کمپنی کے مطابق ہمیں معلوم ہے کہ بوتانتین انسٹیٹوٹ کے سربراہ کا مانناا ہے کہ اس واقعے کا ویکسین سے کوئی تعلق نہیں، ہم اپپنی ویکسین کے محفوظ ہونے کے حوالے سے پراعتماد ہیں۔
برازیل میں چینی ویکسین کا ٹرائل معطل ہونے کی خبر اس وقت سامنے آئی تھی جب گزشتہ روز فائزر کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ اس کی تجرباتی ویکسین کورونا وائرس کی روک تھام کے حوالے سے 90 فیصد موثر ثابت ہوئی۔
سینویک کی اس تجرباتی ویکسین کو چین میں ایمرجنسی استعمال کی منظوری دی جاچکی ہے اور ہزاروں افراد کو اس کا استعمال کرایا گیا ہے۔
ویسے کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے ویکسینز کے ٹرائل کو روکنا غیرمعمولی نہیں۔