لائف اسٹائل

لیڈی ڈیانا کے 25 سال پرانے انٹرویو پر تنازع

لیڈی ڈیانا نے 1995 میں دیے گئے انٹرویو میں پہلی بار اپنی شادی، شاہانہ زندگی میں قید و پابندیوں اور شوہر کے افیئرز پر بات کی تھی۔

برطانوی شہزادوں ہیری اور ولیم کی والدہ لیڈی ڈیانا کو یوں تو دنیا سے رخصت ہوئے بھی 23 سال گزر چکے ہیں تاہم اب بھی وہ دنیا بھر کے لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔

لیڈی ڈیانا کی تصاویر، ویڈیوز اور کہانیاں آج بھی دنیا بھر میں اتنی ہی شہرت رکھتی ہیں، جتنی 25 سال قبل ان کی زندگی میں شہرت رکھتی تھیں۔

لیڈی ڈیانا 1997 میں ایک روڈ حادثے میں ہلاک ہوگئی تھیں اور ان کی آخری رسومات کو ٹی وی پر براہ راست ڈھائی ارب لوگوں نے دیکھا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: لیڈی ڈیانا کی انتہائی ذاتی ویڈیوز نشر نہ کرنے کا مطالبہ

جہاں لیڈی ڈیانا کی شادی اور ان کے ایک 1995 کے انٹرویو کو دنیا میں سب سے زیادہ دیکھی جانے والی ٹی وی نشریات کا اعزاز حاصل ہے، وہیں ان کی آخری رسومات کو اب تک کی سب سے زیادہ دیکھی جانے والی نشریات کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

تاہم لیڈی ڈیانا کے 25 سال قبل برٹش براڈکاسٹنگ کارپوریشن (بی بی سی) پر نشر ہونے والے ’پینوراما انٹرویو‘ پر دوبارہ تنازع کھڑا ہوگیا ہے۔

لیڈی ڈیانا کے 25 سال قبل نشر ہونے والے انٹرویو کے حوالے سے لیڈی ڈیانا کے بھائی ارل چارلس اسپینسر نے نئے الزامات عائد کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں بلیک میل اور غلط دستاویز دکھا کر انٹرویو دینے پر مجبور کیا گیا۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق ارل چارلس اسپینسر نے حال ہی میں برطانوی چینل 4 پر نشر ہونے والے لیڈی ڈیانا کی نئی دستاویزی فلم میں دعویٰ کیا کہ 25 سال قبل بی بی سی کے صحافی نے دھوکے سے ان کی بہن کا انٹرویو کیا۔

ارل چارلس اسپینسر کے مطابق 1995 میں بی بی سی کے صحافی بشیر مارٹن نے انہیں جعلی بینک دستاویزات اور جعلی شاہی خاندان کے دستاویزات دکھائے تھے، جن کا اس وقت انہیں اندازا نہیں تھا اور انہوں نے دستاویزات کو سچا تسلیم کرکے صحافی کو بہن سے ملوایا اور پھر صحافی نے ان کی بہن کا انٹرویو کیا۔

مذکورہ دستاویزات میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ لیڈی ڈیانا کو انٹرویو کے عوض رقم دی جا رہی ہے اور اس ضمن میں جعلی بینک دستاویزات دکھائے گئے تھے۔

جعلی دستاویزات دکھائے جانے کے بعد ہی لیڈی ڈیانا کے بھائی نے صحافی بشیر مارٹن کو ان سے ملوایا، جنہوں نے بعد ازاں لیڈی ڈیانا کا آج تک کا سب سے مشہور انٹرویو کیا، جسے ’پینوراما انٹرویو‘ بھی کہا جاتا ہے۔

مزید پڑھیں: 'ڈیانا خود بھی ایک بچے کی طرح تھیں'

مذکورہ انٹرویو کو 1995 میں بی بی سی پر نشر کیا گیا تھا اور اسے صرف برطانیہ میں 2 کروڑ بار سے زائد مرتبہ دیکھا گیا تھا، علاوہ ازیں اس انٹرویو کو بیرون ممالک میں نشر کرکے بی بی سی نے کافی کمائی بھی کی تھی۔

لیڈی ڈیانا کے مذکورہ انٹرویو کو متعدد ایوارڈز بھی دیے گئے اور صحافی بشیر مارٹن کا دنیا بھر میں نام بھی روشن ہوا۔

مذکورہ انٹرویو میں لیڈی ڈیانا نے پہلی بار اپنی زندگی پر کھل کر بات کی تھی اور بتایا تھا کہ کس طرح ان کی شادی ان کے لیے عذاب بن چکی ہے۔

’پینوراما انٹرویو‘ میں لیڈی ڈیانا نے بتایا تھا کہ ان کی شادی ایک مرد اور دو خواتین پر مشتمل ہے، یعنی انہوں نے اپنے شوہر شہزدہ چارلس کے کمیلا نامی خاتون سے افیئر کا ذکر کیا تھا، جو اب شہزادہ چارلس کی اہلیہ بن چکی ہیں۔

مذکورہ انٹرویو میں لیڈی ڈیانا نے شاہی محل میں خود کو قیدی اور بیمار شخص کی طرح زندگی گزارنے جیسے موضوعات پر بھی بات کی تھی۔

مذکورہ انٹرویو اس وقت نشر کیا گیا تھا جب وہ شوہر کے افیئر اور شاہی محل کی چمک دھمک مگر قید و پابندی کی زندگی سے تنگ آکر شوہر سے الگ ہوگئی تھیں اور بعد ازاں ان کی طلاق بھی ہوگئی تھی۔

شوہر سے علیحدگی اور طلاق کے کچھ ہی عرصے بعد لیڈی ڈیانا ایک روڈ حادثے میں 1997 میں چل بسی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: لیڈی ڈیانا کی موت پر بات نہ کرنے پر شہزادہ ہیری کو 'افسوس‘

اسی انٹرویو کے لیے جعلی بینک اور جعلی شاہی خاندان کے دستاویزات دکھائے جانے کا معاملہ 1996 میں بھی سامنے آیا تھا اور اس وقت بھی بی بی سی نے معذرت کی تھی۔

تاہم اب دوبارہ لیڈی ڈیانا کے بھائی کی جانب سے مذکورہ معاملے کو سامنے لائے جانے پر بی بی سی نے ایک بار پھر معاملے کی مکمل اور آزادانہ تفتیش کا اعلان کردیا ہے۔

لیڈی ڈیانا کے بھائی کی جانب سے الزامات لگائے جانے کے بعد بی بی سی کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) نے اپنے ایک بیان میں واضح کیا کہ 25 سال پرانے انٹرویو پر مکمل اور آزادانہ تفتیش کرکے ذمہ داروں کا تعین کیا جائے گا۔

دوسری جانب لیڈی ڈیانا کے بھائی نے مطالبہ کیا ہے کہ بی بی سی ان کی بہن کے انٹرویو سے کمانے والے کروڑوں ڈالرز میں سے ان کی بہن کے نام سے چلنے والے سماجی اداروں کو بھی حصہ دے۔

امیتابھ بچن کے خلاف ہندوؤں کے جذبات مجروح کرنے کا مقدمہ دائر

وزیراعظم کا اشیائے خورونوش کی بروقت دستیابی یقینی بنانے کا حکم

متحدہ عرب امارات، پاکستان کے سینیٹرز کیلئے سرمایہ کاری کا پسندیدہ مقام