جی 20 ممالک، سعودیہ میں 'گرفتار' افراد کی رہائی کیلئے دباؤ ڈالیں، ہیومن رائٹس واچ
ہیومن رائٹس واچ نے جی 20 سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سعودی عرب پر دباؤ ڈالے کہ وہ غیر قانونی طور پر حراست میں لیے گئے تمام افراد کی رہائی کو یقینی بنائے۔
اس سے قبل یورپی ممالک کے 65 قانون سازوں نے یورپی یونین سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ سعودی عرب میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کے پیش نظر دارالحکومت ریاض میں منعقد ہونے والے جی 20 سربراہی اجلاس میں اپنی حاضری انتہائی محدود کر دیں۔
مزید پڑھیں: سعودیہ میں انسانی حقوق کے ’خلاف ورزیاں‘، 'یورپی یونین جی 20 اجلاس میں شرکت محدود کرے'
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ جی 20 ممالک نے رواں سال سربراہی اجلاس کی صدارت سعودی عرب کو نوازی ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ یمن میں شہریوں پر غیر قانونی حملوں، عام شہریوں کو جیلوں میں بند کرنے اور انہیں ہراساں کرنے سمیت صحافی جمال خاشقجی کو ریاستی ایجنٹوں کے ذریعے قتل کرانے کے باوجود جی 20 کے سربراہی اجلاس کی میزبانی کے لیے ریاض کو منتخب کیا گیا۔
ایچ آر ڈبلیو نے کہا کہ انصاف دینے کے بجائے سعودی عرب نے اربوں ڈالر تفریحی، ثقافتی اور کھیلوں کے پروگرامز میں جان بوجھ کر حکمت عملی کے ساتھ خرچ کیے۔
انہوں نے کہا کہ ریاض کا اقدام انسانی حقوق کی پامالیوں کو چھپانے کے لیے 'امیج لانڈرنگ' ہے۔
ایچ آر ڈبلیو کے مشرق وسطیٰ کے ڈائریکٹر مائیکل پیج نے کہا کہ 'جی 20 ممالک سعودی حکومت کی مالی تعاون سے چلنے والی تشہیر کی کوششوں کو تقویت دے رہے ہیں جبکہ 'اصلاحات' کی آڑ میں 2017 سے جبر میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب جی-20 کی صدارت حاصل کرنے والا پہلا عرب ملک بن گیا
انہوں نے کہا کہ جی 20 ممالک سعودی عرب کو انسانی حقوق کی پامالیوں کو روکنے کے لیے راضی کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
خیال رہے کہ اس سے قبل یورپی قانون سازوں کی جانب سے دستخط کردہ اس مراسلے سے تقریباً ایک ماہ قبل وسیع پیمانے پر قراردادیں منظور کی گئی تھیں جس میں موجودہ جی 20 کے صدر سے 'سعودی عرب میں انسانی حقوق کی پامالیوں کو قانونی حیثیت دینے سے گریز کرنے' کی اپیل کی گئی تھی۔
دسمبر 2019 میں سعودی عرب نے جاپان سے جی-20 کی صدارت حاصل کرلی تھی اور وہ یہ اعزاز حاصل کرنے والا پہلا عرب ملک بن گیا۔
سعودی عرب 21 سے 22 نومبر تک ریاض میں عالمی سربراہی کانفرنس کی میزبانی کرے گا۔
واضح رہے کہ سعودی عرب پر گزشتہ ایک برس سے زائد عرصے سے صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد شدید تنقید کی جاتی رہی ہے اور مملکت کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا جاتا ہے اور اسی طرح عالمی سطح پر شدید دباؤ کا سامنا رہا ہے، تاہم اب اس اجلاس سے سعودی عرب کو ایک مرتبہ پھر اپنی ساکھ کو بحال کرنے کا موقع مل گیا ہے۔
مزید پڑھیں: سعودی اتحاد کا قطر سے فٹ بال ڈپلومیسی کے ذریعے تعلقات بحالی کا عندیہ
انسانی حقوق کی تنظمیں جی-20 رکن ممالک پر زور دیتی رہی ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ وہ سعودی عرب پر دباؤ بڑھائیں کیونکہ وہاں پر کئی خواتین، صحافی اور سیاسی مخالفین کو جیل بھیج دیا گیا ہے۔
ایک تنظیم کی حالیہ رپورٹ کے مطابق سعودی عرب میں کم از کم 9 ماہرین تعلیم، ادیب اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔
سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان کے بیٹے محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے لیے مملکت میں مختلف شعبوں میں تبدیلیاں کی گئی تھیں اور کئی قوانین میں نرمی لاتے ہوئے خواتین کو بااختیار بنانے کے حوالے سے بھی اقدامات کیے گئے ہیں۔
محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد سعودی عرب کی جانب سے خارجہ امور پر جارحانہ پالیسی کا آغاز کیا گیا تھا اور پڑوسی ملک قطر سے تعلقات منقطع کردیے گئے تھے، تاہم اب دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی کی توقع کی جارہی ہے۔