پاکستان

گلگت بلتستان عدالت کے فیصلے کے خلاف پیپلز پارٹی کی درخواست

گلگت الیکشن کمیشن کی وفاقی وزرا کی تقاریر پر خاموشی نے اس کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگادیے ہیں، مصطفیٰ نواز کھوکھر

اسلام آباد: چیف کورٹ کی جانب سے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو انتخابات کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے پر 72 گھنٹوں کے اندر گلگت بلتستان کے علاقے سے نکل جانے کے فیصلے کے خلاف پیپیلز پارٹی نے سپریم اپیلٹ کورٹ آف گلگت بلتستان میں درخواست دائر کی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کے ترجمان اور سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر کا کہنا تھا کہ 'ہم نے سپریم اپیلٹ کورٹ آف گلگت بلتستان میں درخواست جمع کرادی ہے جس کی سماعت پیر کے روز مقرر ہے'۔

مصطفیٰ نواز کھوکھر کا کہنا تھا کہ بلاول بھٹو زرداری پارٹی کے سربراہ ہیں اس لیے انہیں گلگت بلتستان میں انتخابی مہم چلانے سے نہیں روکا جاسکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جنوری میں اسلام آباد پہنچ کر کٹھ پتلی کو گھر بھیج دیں گے، بلاول بھٹو زرداری

چیف کورٹ کے فیصلے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ 'یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک بڑی پارٹی کے سربراہ کو انتخابی مہم سے دور رہنے کا کہا جائے جو علاقائی اور بین الاقوامی سیاسی صورتحال کی وجہ سے بہت اہمیت کا حامل ہے؟'

انہوں نے اُمید ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ انہیں سپریم اپیلٹ کورٹ آف گلگت بلتستان سے 'رعایت' ملے گی اور بلاول بھٹو زرداری کو انتخابی مہم چلانے کی اجازت مل جائے گی جو پارٹی سربراہ کی حیثیت سے ان کا حق ہے۔

سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر کا کہنا تھا کہ پیپلپز پارٹی کی جانب سے انتخابی مہم سے متعلق قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی پر بہت سی شکایات جمع کرائی گئیں لیکن گلگت بلتستان کے الیکشن کمیشن نے اب تک اس پر کوئی ایکشن نہیں لیا۔

مزید پڑھیں: حکومت کا گلگت بلتستان کو عبوری صوبائی حیثیت دینے کا فیصلہ

انہوں نے مبینہ طور پر الزام لگایا کہ الیکشن کمیشن جانبداری سے کام کررہا ہے جو انتخابی مہم کے دوران وفاقی وزرا کے حالیہ بیانات پر خاموشی سے صاف ظاہر ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کی تقاریر کے ویڈیو کلپس کے ریکارڈ موجود ہیں جس میں انہیں لوگوں سے وعدے کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے کہ جو انہیں ووٹ دیں گے وہ ان کے لیے فنڈز رلیز کریں گے۔

پیپلز پارٹی رہنما کا مزید کہنا تھا کہ 'گلگت الیکشن کمیشن کی ایسی تقاریر پر خاموشی نے اس کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگادیا ہے'۔

تھور اور داریل میں ہونے والی کارنر میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے اعلان کیا تھا کہ وہ انتخابات سے قبل گلگت بلتستان سے واپس نہیں جائیں گے اور حکومت کو ان کے انکار پر انہیں گرفتار کرنا پڑے گا۔

بلاول بھٹو کی جانب سے الزام لگایا گیا تھا کہ گلگت بلتستان کے الیکشن کمشنر 'کٹھ پتلی حکومت' کی طرفداری کررہے ہیں اور ان کی پارٹی کے خلاف کھل کر بول رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: وفاقی وزیر کو مریم نواز سے متعلق صنفی امتیاز کے بیان پر تنقید کا سامنا

تاہم پیپلز پارٹی کی نائب صدر اور سینیٹ کی پارلیمانی رہنما شیریں رحمٰن کا ایک علیحدہ بیان میں کہنا تھا کہ بلاول بھٹو زرداری کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں اور نہ ہی گلگت بلتستان کوئی انتظامی اختیارات ہیں تو وہ کس طرح انتخابات پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔

شیریں رحمٰن کا مزید کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی رہنما نے اپنی انتخابی مہم کے دوران صرف ان کے ماضی میں کیے جانے والے وعدوں اور کارکردگی کی نشاندہی کی ہے، انہوں نے اُمید ظاہر کی کہ سپریم اپیلٹ کورٹ آف گلگت بلتستان کی جانب سے فیصلہ ان کے حق میں کیا جائے گا۔

خیال رہے کہ چیف جج ملک حق نواز اور علی بیگ پر مشتمل گلگت بلتستان کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے جمعہ کے روز چیئرمین پیپلز پارٹی، وفاقی وزیر برائے امورِ کشمیر اور گلگت بلتستان علی امین گنڈا پور سمیت دیگر سرکاری عہدیداران کو انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر 72 گھنٹوں کے اندر علاقے سے باہر نکل جانے کا حکم جاری کیا تھا۔

مذکورہ حکم پیپلز پارٹی کے نائب صدر جمیل احمد کی گلگت بلتستان کے چیف کورٹ سے انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر 15 نومبر کے انتخاب تک وفاقی وزرا اور سرکاری عہدیداروں کو علاقے سے باہر نکالنے کی درخواست پر ہونے والی سماعت میں جاری کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی تحلیل، میر افضل نگراں وزیراعلیٰ مقرر

واضح رہے کہ الیکشن ایکٹ 2017 کے انتخابی ضابطہ اخلاق کے تحت سرکاری عہدیداران بشمول صدر، وزیر اعظم، چیئرمین سینیٹ، ڈپٹی چیئرمین، اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر، وفاقی وزرا، وزرائے مملکت، گورنرز، چیف وزرا، صوبائی وزرا، وزیر اعظم کے مشیر اور وزرائے اعلیٰ، میئرز، چیئرمینز، ناظم اور ان کے نائب کو کسی بھی طرح کی الیکشن مہم میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہے۔

عدالتی حکم میں سرکاری عہدیداروں کی وضاحت کے لیے قومی احتساب آرڈیننس (نیب) 1999 کا حوالہ دیا گیا جس میں اراکین پارلیمان کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

عدالت کا کہنا تھا کہ'سرکاری افسران کی تعریف نہیں کی گئی کہ کون سے عہدیداران سرکاری افسران میں شامل ہوتے ہیں'۔

حکم میں کہا گیا کہ یہ اصطلاح کے لیے نیب آرڈیننس میں واضح کی گئی ہے جس کے تحت تمام منتخب اراکین اسمبلی اور سینیٹ پر بھی انتخابی مہم چلانے پر پابندی ہے۔

دوسری جانب گلگت بلتستان کے چیف الیکشن کمشنر (سی ای سی) راجا شہباز خان نے بھی ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے چیئرمین، وفاقی وزیر علی امین گنڈاپور اور دیگر سرکاری عہدیداران کو عدالتی احکامات کے مطابق گلگت بلتستان چھوڑنے کے لیے کہا تھا۔


یہ خبر 8 نومبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

وفاقی وزیر کو مریم نواز سے متعلق صنفی امتیاز کے بیان پر تنقید کا سامنا

اعصاب شکن مقابلے کے بعد جو بائیڈن امریکی صدر منتخب

کمالا ہیرس نے پہلی خاتون امریکی نائب صدر منتخب ہو کر رکاوٹیں توڑ دیں