سوئیڈن کے ایک اخبار کو دیئے گئے انٹرویو میں چیف ایگزیکٹیو پاسکل سوریوٹ نے بتایا 'ریگولیٹری حکام مسلسل ہمارے ڈیٹا پر کام کررہے ہیں، اگر وہ ہمارے تیار ہونے پر تیزرفتاری سے کام کریں گے تو ہم لوگوں کو جنوری یا دسمبر کے آخر تک ممکنہ طور پر ویکسین فراہم کرنا شروع کردیں گے'۔
آکسفورڈ یونیورسٹی اور آسترازینیکا کی اس ویکسین کو کورونا وائرس کے علاج کے لیے چند بہترین کوششوں میں سے ایک قرار دیا جارہا ہے، جس کے لیے کئی ماہ سے کام جاری ہے۔
پاسکل سوریوت کا کہنا تھا 'اگرچہ ہم کبھی اس ویکسین سے کما نہیں سکیں گے، مگر ابھی کسی کو معلوم نہیں کہ لوگوں کو کب تک ویکسینیشن کی ضرورت ہوگی، اگر یہ ویکسین بہت موثر ہوئی اور لوگوں کو کئی برسوں تک تحفظ ملا، جس دوران یہ بیماری غائب ہوگئی تو پھر اس کی کوئی مارکیٹ نہیں ہوگی'۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ بیشتر ماہرین کا ماننا ہے کہ لوگوں کو دوبارہ ویکسین کی ضرورت ہوگی، اگر ایسا سالانہ بنیادوں پر ہوا ہم اس ویکسین سے 2022 میں آمدنی حاصل کرنا شروع کردیں گے۔
انہوں نے مزید کہا 'مگر ہمیں اس سے پہلے یقین کرنا ہوگا کہ ویکسین واقعی کارآمد ہے'۔
خیال رہے کہ آکسفورڈ یونیورسٹی کی یہ ویکسین ستمبر میں ٹرائل کے تیسرے مرحلے میں داخل ہوئی تھی، جس کے دوران کچھ تحفظات کے باعث کچھ ممالک میں ٹرائل کو عارضی طور پر روکا گیا۔
یورپی یونین، امریکا، برطانیہ، جاپان اور برازیل نے آسترازینیکا کے ساتھ ابتدائی معاہدے کیے ہیں تاکہ ویکسین کو منظوری ملنے پر اسے حاصل کرسکیں۔
کمپنی کے چین میں سربراہ لیون وانگ نے بتایا کہ چین میں اس ویکسین کے استعمال کی منظوری 2021 کے وسط میں دیئے جانے کا امکان ہے، جس کا انحصار ٹرائل کے پہلے اور دوسرے مرحلے میں محفوظ ہونے کے ڈیٹا اور تیسرے مرحلے میں اس کی افادیت کے ڈیٹا پر ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ چین میں ویکسین کے ٹرائلز کے لیے مقامی شراکت دار کی مدد لی جائے گی۔
واضح رہے کہ برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی کے تحت تیار ہونے والے کووڈ 19 ویکسین کی انسانوں پر آزمائش اپریل میں شروع ہوئی تھی۔