لائف اسٹائل

ہر دور کی بہترین فلموں سے ایک اس فلم کو آپ نے دیکھا ہے؟

مئی 1980 میں یہ سنیما گھروں کی زینت بنی تھی اور اب 40 سال بعد اسے ہارر فلموں کی تاریخ کی چند بہترین فلموں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے

مئی 1980 میں یہ فلم سنیما گھروں کی زینت بنی تھی اور اب 40 سال بعد اسے ہارر فلموں کی تاریخ کی چند بہترین فلموں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، جس میں ماورائی اور ذہنی دہشت کو بہترین انداز سے جوڑ دیا گیا تھا۔

اور یہی وجہ ہے کہ اس میں دکھایا گیا کہ اوور لک ہوٹل کے کارپٹ کو بھی کلاسیک حیثیت مل چکی ہے۔

بیشتر افراد تو ہوٹل کے نام سے ہی فلم کے بارے میں جان گئے ہوں گے، تاہم اگر علم نہیں ہوسکا تو یہ 'دی شائننگ' ہیں جسے ہولی وڈ کے لیجنڈ ڈائریکٹر اسٹینلے کیوبرک نے ڈائریکٹ کیا جبکہ اس کی کہانی اسٹیفن کنگ کے اسی نام کے ناول سے لی گئی تھی، جسے ڈائریکٹر نے کافی حد تک بدل دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں : وہ فلم جس کا جادو 26 سال بعد بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے

ویسے فلم کو دیکھ کر بالکل بھی احساس نہیں ہوگا کہ اسے ریلیز ہوئے 4 دہائیاں گزر چکی ہیں کہ کیونکہ اس کی کہانی کو ایورگرین سمجھا جاسکتا ہے۔

ڈائٹریکٹر کا کمال فلم کے پہلے سین سے لے کر آخری منظر تک دیکھنے والوں کو اپنی نگاہیں اسکرین سے ہٹانے نہیں دیتا، چند معمولی الفاظ جیسے مرکزی کردار کی جانب سے بار بار ٹائپ کیے گئے الفاظ آل ورک اینڈ نو پلے میکس جیک اے ڈل بوائے یا اس کے بیٹے کے لکھے اور چیختے ہوئے بولے جانے والے الفاظ ریڈرم سے بھی ذہن میں خوف جگانے کا کام لیا گیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ریلیز کے موقع پر یہ فلم کوئی بلاک بسٹر نہیں تھی بلکہ بس اسے کامیاب ہی قرار دیا گیا تھا، مگر وقت کے ساتھ اسے مقبولیت حاصل ہوئی اور اب اسے ایک برانڈ کی حیثیت حاصل ہے۔

پلاٹ

یہ فلم جیک ٹورنس، اس کی بیوی وینڈی ٹورنس اور بیٹے ڈینی ٹورنس کے گرد گھومتی ہے، جس میں ڈینی کو کچھ خاص صلاحیتیں حاصل ہوتی ہیں، جسے دی شائننگ کہا جاتا ہے۔

جیک ٹورنس ایک مصنف ہوتا ہے جو ماضی میں شراب نوشی کا عادی ہوتا ہے مگر اس عادت کو ترک کردیتا ہے۔

اسے اکی ماؤنٹینز کے دور دراز علاقے میں واقع ایک ہوٹل اوورلک کی موسم سرما کے دوران دیکھ بھال کی ملازمت کی پیشکش کی جاتی ہے۔

یہ ہوٹل 1909 میں ریڈ انڈین قبرستان پر تعمیر ہوا تھا، جبکہ ملازمت کے وقت بھی جیک کو خبردار کیا جاتا ہے کہ وہاں سابق منتظم چارلس گارڈی نے اپنے خاندان کو مار کور خودکشی کی تھی، مگر جیک اس کی پروا نہیں کرتا اور پیشکش قبول کرلیتا ہے۔

دوسری جانب جیک کا بیٹا ہوٹل میں جانے کے لیے تیار نہیں ہوتا جبکہ اس کی ماں ڈاکٹر کو ایک خیال دوست ٹونی کو بتاتی ہے، جو اس وقت ڈینی کی زندگی کا حصہ بنا جب جیک نے شراب کے نشے میں بیٹے کو زخمی کیا تھا۔

مگر جب یہ خاندان اس ہوٹل میں منتقل ہوتا ہے تو اس وقت ہیڈ شیف ڈک ہالورن ڈینی کو ٹیلی پیتھی کے ذریعے آئسکریم کی پیشکش کرتا ہے اور بچے کو بتاتا ہے کہ وہ اور اس کی دادی اس ٹیلی پیتھک صلاحیت کو شیئر کرتے ہیں، جسے وہ شائننگ کا نام دیتا ہے۔

ڈک ہالورن ڈینی کو بتاتا ہے کہ ہوٹل میں بھی ایک 'شائن' ہے اور اس کی اپنی یادیں ہیں اور بے کو کمرہ نمبر 237 سے دور رہنا ہوگا۔

ہوٹل پہنچنے کے ایک ماہ بعد جیک اپنے ناول پر کام نہیں کرپاتا، ڈینی اور وینڈی ہوٹل کی بھول بھلیوں کی کھوج کرتے ہیں جبکہ ڈک ہالورین فلوریڈا چلا جاتا ہے۔

برفباری کے نتیجے میں فون لائنیں بند ہوجاتی ہیں، ڈینی کو کچھ خوفناک نظر آتا ہے جبکہ جیک کی ذہنی حالت بتدریج بگڑنے لگتی ہے۔

بعدازاں وہ ہوٹل میں موجود آسیب کے اثر میں آجاتا ہے اور بیوی اور بچے کو مارنے کی کوشش کرتا ہے۔

اس کے آگے کیا کچھ ہوتا ہے اور کیسے چونکا دینے والے موڑ سامنے آتے ہیں، وہ تو آپ فلم میں ہی دیکھ سکتے ہیں، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اوپر درج کہانی جتنی سادہ ہے، وہ اسکرین پر دیکھتے ہوئے دہشت زدہ کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔

خاص طور پر فلم کا اختتام بھی ذہن کو جھنجھوڑ دینے والے موڑ پر ہوتا ہے اور اب تک لوگ اس کے حوالے سے متعدد تھیوریز پیش کرتے ہیں۔

دلچسپ حقائق

اس فلم کے پس پردہ چھپے حقائق بھی چونکا دینے والے ہیں، جن سے اکثر افراد واقف نہیں۔

اس فلم میں کام کرنے والے بچے ڈینی لوئیڈ پہلی بار اداکاری کررہا تھا، تو ڈائریکٹر نے اس کے تحفظ کے لیے اسے احساس نہیں ہونے دیا کہ یہ ایک ہارر فلم ہے بلکہ یہ بتایا کہ یہ ایک ڈراما مووی ہے۔ یہاں تک کہ ایک سین میں جب ماں اپنے شوہر سے بچانے کے لیے لے کر بھاگتی ہے تو اس کے ساتھ ایک بچے کی قد کی ڈمی تھی۔

ڈینی کو یہ احساس برسوں بعد جوان ہونے پر ہوا کہ وہ ایک ہارر فلم کا حصہ تھا کیونکہ اس سے پہلے وہ یہ فللم دیکھ نہیں سکا تھا۔

فلم میں بھول بھلیاں برف سے ڈھکی نظر آتی ہیں مگر حقیقت میں وہ 9 سو ٹن نمک اور پسے ہوئے پولسٹرین پلاسٹک سے ڈھکی ہوئی تھی۔

فلم کی کہانی اسٹیفن کنگ کے ناول پر مبنی تھی اور انہوں نے فلم کا اسکرپٹ تحریر کیا تھا مگر ڈائریکٹر نے اسے پڑھنے سے ہی انکار کردیا اور خود تحریر کیا، جس کے لیے ایک اور ناول نگار ڈیان جونسن سے مدد لی۔

ناول میں ہوٹل کے کمرے کا نمبر 2017 تھا مگر جس ہوٹل میں عکسبندی ہوئی، وہاں کی انتظامیہ کی درخواست پر اسے 237 کیا گیا، جو وہان تھا ہی نہیں، کیونکہ ہوٹل انتظامیہ کو ڈر تھا کہ فلم کے بعد مستقبل میں لوگ اس کمرے میں رہنے سے گریز کریں گے۔

مگر اب 217 اس ہوٹل کا سب سے زیادہ بک رہنے والا کمرا ہے۔

فلم میں اوولک ہوٹل کے ہیڈ شیف بننے والے اداکار اپنے کردار کی موت پر حیران رہ گئے تھے کیونکہ ناول یا اوریجنل اسکرپٹ میں ایسا نہیں تھا، ان کو عرصے تک معلوم نہیں ہوسکا کہ ایسا ہوا کیوں۔ مگر 2017 میں اسکرین رائٹر ڈیان جونسن نے بتایا کہ ڈائریکٹر کا خیال تھا کہ کسی کو تو قتل ہونا چاہیے کیونکہ یہ ایک ہارر فلم ہے۔

ڈائریکٹر نے گنیزبک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی جگہ حاصل کرلی تھی کیونکہ ان کی جانب سے ہر سین کے لیے اداکاروں سے متعدد بار عکسبندی کرائی جاتی تھی، جیسے فلم کے اختتام میں ایک دروازے کو کلہاڑی سے توڑنے کا سین 3 دن میں مکمل ہوا، جس کے دوران 60 دروازے توڑ دیئے گئے، اسی طرح ایک سین 127 ٹیک میں مکمل ہوا اور ورلڈ ریکارڈ کا حامل قرار پایا۔

باتھ روم کا دروازہ توڑنے کے سین میں جیک نے اپنے مشہور لائن بولی تھی ہیرز جونی، جسے اداکار نے خود ہی بہتر بنایا تھا اور ڈائریکٹر نے اسے رکھنے کا فیصلہ کیا، جو اب فلمی تاریخ کے چند مشہور ترین سینز میں سے ایک ہے۔

اسٹیفن کنگ کو یہ فللم زیادہ پسند نہیں آئی اور ہمیشہ اس پر تنققد کرتے رہے ہیں، خاص طور پر جیک کے مرکزی کردار کو ادا کرنے والے اداکار پر انہیں شدید اعتراض تھا۔

مگر اس سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ مرکزی کردار ادا کرنے والے جیک نکلسن نے اپنے کردار کے غصے تک حصول صرف پنیر سے بنے سینڈوجز کھا کر ممکن بنایا، کیونکہ انہیں یہ بالکل پسند نہیں تھے۔

فلم میں لفٹ کا ایک سین ہے جس میں خون کا دریا بہتا نظر آتا ہے، جو 3 ٹیک میں مکمل ہوا مگر اسے درست کرنے میں ایک سال لگ گیا۔

فلم میں ڈینی کی ماں کا کردار ادا کرنے والی شیلی ڈیووال پر کردار کو حقیقی بنانے کے لیے اتنا دباؤ ڈالا گیا کہ وہ ذہنی بے چینی کا شکار ہوگئی اور ان کے بال گرنا شرع ہوگئے۔

آسکر ایوارڈ جیتنے والی واحد ہارر فلم جو اب بھی لوگوں کو دہشت زدہ کرتی ہے

دھڑکنوں کو تیز کردینے والی یہ تھرلر فلم اب تک لوگ بھول نہیں پائے

وہ فلم جو 10 سال بعد بھی دیکھنے والوں کے لیے الجھن کا باعث بنی ہوئی ہے