راک فیلر یونیورسٹی کی اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جسم کا مدافعتی نظام نہ صرف نوول کورونا وائرس کو یاد رکھتا ہے بلکہ بیماری سے صحتیابی کے بعد اس کا سامنا کرنے کے لیے حفاظتی اینٹی باڈیز کے معیار بہتر بناتا ہے، جس سے جسم کو دوسری بار وائرس کے حملے پر زیادہ موثر اور برق رفتار حملہ کرنے کے لیے تیار بھی کرتا ہے۔
تحقیق میں شامل راک فیلر یونیورسٹی کے مالیکیولر امیونولوجی شعبے کے سربراہ مائیکل نوسینزوگ نے بتایا 'یہ بہت اچھی خبر ہے، توقع ہے کہ زیادہ تر کیسز میں مریضوں میں برق رفتار اینٹی باڈی ردعمل اور بیماری کے خلاف مزاحمت پیدا ہوتی ہوگی'۔
تاہم ابھی یہ واضح نہیں کہ مدافعتی نظام کی وائرس کے حوالے سے یہ یادداشت کتنے عرصے تک رہ سکتی ہے مگر مائیکل نوسینزوگ کا کہنا تھا کہ ممکنہ طور پر اس سے برسوں تک کسی حد تک تحفظ مل سکتا ہے۔
اس دریافت سے یہ وضاحت بھی ہوتی ہے کہ اب تک کورونا وائرس سے 2 بار بیمار ہونے والے کیسز کی تعداد اتنی کم کیوں ہے۔
جب کوئی فرد کورونا وائرس کا شکار ہوتا ہے تو مدافعتی نظام سے کثیر جہتی حملے کا آغاز ہوتا ہے، جن میں سے ایک ٹی سیلز کی جانب سے ہوتا ہے، جو متاثرہ خلیات کو تلاش کرکے تباہ کرتے ہیں، تاکہ وائرس کو پھیلنے سے روکا جاسکے۔
دفاع کی دوسری کڑی بی سیلز ہوتے ہیں جو خون میں اینٹی باڈیز کو خارج کرتے ہیں، جو وائرس کو اپنی طرف کھینچ کر اسے خلیات پر حملے سے روکتی ہیں۔
جب بیماری ختم ہوتی ہے تو مدافعتی نظام ساکت ہوجاتا ہے، مگر وہ اس وائرس کو ٹی سیلز اور بی سیلز میں رہ جانے والی یادداشت سے یاد رکھتا ہے، تو جب وائرس واپس لوٹتا ہے تو فوری ردعمل متحرک ہوتا ہے۔
متعدد تحقیقی رپورٹس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کورونا وائرس کے بیشتر مریضوں میں اینٹی باڈیز کی شرح چند ماہ گھٹ جاتی ہے، جس سے یہ خدشات پیدا ہوئے تھے کہ لوگوں اس کے خلاف مدافعت سے بہت جلد مھروم ہوسکتے ہیں۔
اس نئی تحقیق میں کورونا وائرس 87 مریضوں کی خدمات حاصل کی گئی تھی اور محققین نے تصدیق ککی کہ اینٹی باڈیز کی سطح کم ہوتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ 5 ماہ میں اینٹی باڈیز کی سطح میں 20 فیصد تک کمی آسکتی ہے مگر ان کے خیال میں یہ اتنی کمی اہمیت نہیں رکھتی۔
جب محققین نے مدافعتی نظام کی یادداشت کا تجزیہ کیا تو انہوں نے دیکھا کہ بیماری کے 6 ماہ بعد بی سیلز کی یاد سے بننے والی اینٹی باڈیز زیادہ موثر ہوچکی ہیں۔
یہ اینٹی باڈیز دوبارہ بیمار ہونے کے فوری بعد یعنی چند دنوں میں حرکت میں آسکتی ہیں۔
محققین نے بتایا کہ کورونا وائرس کی معمولی مقدار یا غیرفعال وائرل ذرات مریضوں کی آنتوں میں متحرک ہوتے ہیں اور اس سے بظاہر مدافعتی نظام کو اپنی یادداشت مستحکم رکھنے میں مدد ملتی ہے۔
وائرس کے ان باقیات کو فی الحال نقصان دہ تصور نہیں کیا جارہا۔
محققین نے بتایا کہ جو لوگ کووڈ کا شکار ہوتے ہیں، ان میں 6 ماہ بعد بی سیلز میموری کا تسلسل اینٹی باڈٖیز کے ساتھ برقرار ہوتا ہے جو وائرس کو ناکارہ بنانے کا کام موثر انداز سے کرتا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ہم نہیں جانتے کہ یہ تحفظ کتنے عرصے تک برقرار رہ سکتا ہے، مگر ممکنہ طور پر یہ دورانیہ کافی طویل ہوتا ہے یعنی برسوں تک۔