اب تک 30 سے 40 سال سے زائد عمر کے 50 مریضوں کے نمونے حاصل کی گئے ہہیں جبکہ محققین طالبعلموں کو بھی اس تحقیق کا حصہ بنانا چاہتے ہیں۔
محققین کی جانب سے ان افراد کے نمونے ایک سال بعد مزید ٹیسٹنگ کے لیے جمع کرنے کا منصوبہ بھی بنایا گیا ہے۔
اس تحقیق کا مقصد یہ دیکھنا ہے کہ اس بیماری سے مدافعتی نظام کی تششکیل پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
اس حوالے سے فالو اپ تحقیقی رپورٹس میں دیکھا جائے گا کہ کووڈ 19 سے مستقبل قریب میں بچوں کا مدافعتی نظام کس حد تک متاثر ہوسکتا ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ مدافعتی نظام ہر طرح کی بیماریوں سے لڑنے کے لیے تربیت یافتہ ہوتا ہے، ہم اس تحقیق کے ذریعے یہ جاننا چاہتے ہیں کہ مدافعتی نظام کس حد تک کووڈ 19 سے متاثر ہوتا ہے اور یہ بیماری مستقبل کی نسل کے مدافعتی نظام پر کس حد تک اثرانداز ہوسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ ہم نے خون کے ساتھ ساتھ اسپرم پر کام کرنے کا فیصؒہ کیا۔
یہ انسانوں پر ہونے والی اپنی طرز کی پہلی تحقیق ہے۔
کووڈ 19 کی وبا سے محققین کو مدافعتی نظام کی تربیت کو جانچنے کا ایک نیا اور منفرد موقع ملا جس سے معلوم ہوسکے گا کہ یہ بیماری کس حد تک اگلی نسل کو متاثر کرسکتی ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ ہر قسم کی بیماریوں سے ہمارا مدافعتی نظام متحرک ہوتا ہے، ہم یہ جاننا اہتے ہیں کہ کووڈ 19 سے مدافعتی نظام کو اچھے یا برے کس انداز سے تربیت ملتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ماضی میں جانوروں پر ہونے والی ٹیسٹنگ سے ثابت ہوا کہ بیماریاں مستقبل کی نسل کے مدافعتی نظام پر منفی اور مثبت دونوں طریقوں سے اثرانداز ہوتی ہیں۔
ناروے کے ماہرین کا ماننا ہے کہ بیماری، اسپریم اور مستقبل کی نسل میں تعلق موجود ہے، جو جینیاتی تبدیلیوں کا باعث بنتا ہے، کیونکہ امراض سے موروثی مادے پر اثرات مرتب ہوتے ہیں اور جسم مدافعتی نظام کے لیے پروٹینز تیار کرتا ہے۔