نقطہ نظر

وائٹ ہاؤس یا ڈی چوک؟ نمائش چورنگی یا مُکا چوک؟ یہ میں کیا دیکھ رہا تھا؟

ماحول ایسا تھا جیسے کراچی میں ہڑتال کے موقع پر ہوتا ہے، فرق یہ تھا کہ کوریج کے دوران پولیس کے ہونے پر خود کو محفوظ تصور کررہا تھا۔

پاکستان میں الیکشن دیکھے، ووٹ دیا، کوریج بھی کی، دھاندلی کی خبریں رپورٹ کیں، اس لیے امریکا میں یہ سب کرنا نیا تجربہ تو نہیں تھا، مگر وہاں جو کچھ اس کے علاوہ دیکھا وہ یقینی طور پر حیران کن ضرور تھا۔

امریکا میں صدارتی انتخاب سے ایک دن پہلے میں مختلف شہروں سے ہوتا ہوا واشنگٹن پہنچا۔ امریکی صدر کی رہائشگاہ یعنی وائٹ ہاوس سے محض 10 منٹ کی دُوری پر ہوٹل میں رہا۔ جب ہوٹل میں داخل ہوا تو وہاں شیشے کے دروازے نظر آرہے تھے، لیکن جب رات کو کوریج کے لیے ہوٹل سے باہر آیا تو دروازے پر کہیں بھی شیشہ دکھائی نہیں دے رہا تھا بلکہ ایسا لگا کہ ہم کسی فرنیچر کی دکان سے باہر نکل رہے ہیں۔

واشنگٹن میں دکانوں کو محفوظ بنایا جارہا ہے

یہ معاملہ صرف ہوٹل کا نہیں تھا بلکہ باہر موجود دکانوں میں بھی یہی صورتحال تھی کہ ایک ایک جگہ کو کارڈ بورڈ اور لکڑی سے چھپا دیا گیا تھا، بالکل ایسے جیسے پورے علاقے کو سِیل کردیا گیا ہو۔ یہ سب مختلف دکاندار اور مالکان اس لیے کررہے تھے کیونکہ میڈیا میں مختلف رپورٹس میں خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ نتائج جو بھی ہوں ٹرمپ کے حامی اور مخالفین میں جھگڑا ہوسکتا ہے۔

مزید پڑھیے: امریکی انتخابات میں ماضی کے مقابلے میں کیا کچھ مختلف ہوا؟

صورتحال کو سمجھانے کے لیے کہہ سکتا ہوں کہ ماحول کچھ ایسا تھا جیسے کراچی میں ہڑتال کے موقع پر ہوتا ہے، مگر فرق یہ تھا کہ میں کوریج کے دوران پولیس کے ہونے پر خود کو محفوظ تصور کررہا تھا۔

وائٹ ہاؤس کے باہر ٹرمپ مخالفین کی بڑی تعداد موجود تھی جو امریکی صدر کی رہائش گاہ کے باہر انہیں ایسے القابات سے نواز رہی تھی کہ اگر ایسا کسی ایشیائی ملک میں ہوتا تو نعرے لگانے والے کا سافٹ ویئر اپڈیٹ کردیا جاتا۔

یہاں موجود تمام ہی افراد امریکی صدر کی پالیسیوں سے ناخوش تھے۔ یہاں صورتحال اس لیے بہتر تھی کہ مظاہرین صرف ایک پارٹی کے ہی تھے، اور یوں کسی تصادم کا خطرہ کم تھا۔

وائٹ ہاؤس کے باہر مظاہرین احتجاج کررہے ہیں

الیکشن ڈے

میں نے اس بات کا ارادہ پہلے ہی کرلیا تھا کہ پولنگ شروع ہونے سے پہلے ہی پولنگ اسٹیشن پہنچنا ہے اور اچھی بات یہ ہوئی کہ میں اپنے ارادے میں کامیاب رہا۔

وہاں پہنچا تو حیرانی ہوئی، اور اس حیرانی کی وجہ یہ تھی کہ ووٹ ڈالنے کے انتظار میں کچھ لوگ پہلے سے لائن بناکر اپنے نمبر آنے کا انتظار کررہے تھے۔ مجھے لگا کہ آج تو سارا دن ہی لائنیں لگی رہیں گی مگر ایسا نہیں ہوا، اور مختلف پولنگ اسٹیشن پر ایک جیسی صورتحال ہی نظر آئی۔ ووٹ پڑنے کی شرح کس قدر کم تھی اس کا اندازہ آپ اس بات سے ہی لگالیں کہ ایک گھنٹے میں 4 سے 5 ووٹ ہی کاسٹ ہورہے تھے۔

ممکن ہے آپ میں سے کچھ لوگ سوچ رہے ہوں گے کہ جب اس بار تاریخ میں سب سے زیادہ ووٹ پڑے ہیں تو پھر پولنگ اسٹیشنوں پر ٹرن آؤٹ اتنا کم کیوں رہا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکا میں ووٹر کو عزت دی جاتی ہے اور ووٹ دینے میں سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ لگ بھگ 25 کروڑ رجسٹرڈ ووٹوں میں سے 10 کروڑ افراد الیکشن سے پہلے ہی ڈاک کے ذریعے اپنا ووٹ ڈال چکے تھے۔

یہاں پاکستان کی طرح ایک ہی دن سب لائن میں نہیں لگتے بلکہ الیکشن سے پہلے تقریباً 2 ہفتے پہلے سے ووٹرز کو سہولت میسر ہوتی ہے کہ وہ اپنی سہولت کے مطابق جہاں بھی، جس بھی اسٹیشن میں جائیں، وہی ووٹ رجسٹر کروائیں اور پسندیدہ امیدوار کے نام یا تو ٹھپا لگائیں یا پھر الیکٹرانک مشینوں پر اندراج کرا دیں۔

کیا امریکا میں بھی ووٹنگ مشینیں بیٹھ جاتی ہیں یا دھاندلی ہوتی ہے؟ تو دھاندلی کے الزامات ہمیں اتنا کھل کر پہلی بار لگتے دکھائی دیے، لیکن ہاں ووٹنگ شروع ہوتے ہی میرے سامنے ایک ووٹنگ مشین کے سافٹ ویئر میں کچھ مسئلہ ہوا جو کچھ دیر میں ٹھیک کرلیا گیا۔

پہلی بار ایسا دیکھا کہ جو 18 سال کے نوجوان یا نئے امریکی شہری بننے والے پہلی بار ووٹ دے رہے تھے ان کے لیے انتخابی عملہ تالیاں بجارہا تھا۔

بریانی کے بجائے سینڈوچ کا انتظام

اب بات کرتے ہیں بریانی، نہیں بریانی نہیں سینڈوچ کی۔ جی ہاں ووٹرز کے لیے پیٹ پوجا کا بھی انتظام تھا، لیکن یہ انتظام حکومت یا کسی سیاسی جماعت نہیں بلکہ جمہوریت کی حامی کچھ این جی اوز اور پولنگ اسٹیشن کے آس پاس موجود ریسٹورنٹس کی طرف سے کیا گیا تھا۔

وائٹ ہاؤس کے باہر کی صورتحال

جیسے ہی ووٹنگ کا وقت ختم ہوا تو واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کے اطراف ٹریفک جام اور مظاہرین کی بڑی تعداد وہاں پہنچنا شروع ہوگئی، لیکن اچھی بات یہ ہوئی کہ حالات بگڑے نہیں۔ کچھ مظاہرین کی جانب سے میڈیا اہلکاروں کے کیمرے اور فوٹیج بنانے پر ہاتھا پائی ضرور ہوئی، مگر بات زیادہ آگے نہیں بڑھی۔

وائٹ ہاؤس کے پاس پولیس کا گشت

اصل میں بات یہ تھی کہ وائٹ ہاؤس کے باہر تقریباً پوری دنیا سے آئے ہوئے میڈیا کے نمائندے موجود تھے اور سب کی نظریں نتائج پر تھیں۔ مظاہرین بھی جانتے تھے کہ اگر زیادہ گڑبڑ ہوئی تو قانون ایسا حرکت میں آئے گا کہ سیدھی جیل۔

نتائج کے لیے بڑی اسکرینوں کا انتظام

نتائج دیکھنے کا انتظام وائٹ ہاؤس کے سامنے اسکرینوں پر کیا گیا تھا۔ صورتحال ایسی تھی کہ ٹرمپ اور بائیڈن کے حامی پاکستانی زیادہ تر اپنے اپنے گھروں میں ہی تھے اور جن جن سے بات ہوئی وہ مجھے بھی مشورہ دے رہے تھے کہ حالات خراب ہوسکتے ہیں آپ ہوٹل چلے جائیں، لیکن ایک تو جب آپ صحافی ہوں اور اوپر سے کراچی کے تو ایسی صورتحال میں ڈر نہیں لگتا، بلکہ اپنائیت کا احساس ہوتا ہے۔

ووٹرز کی رائے

اس ساری صورتحال کے بعد اگلے دن جب امریکی صدر کچھ پیچھے تھے اور دھاندلی کے الزام لگا رہے تھے تو وائٹ ہاؤس کے اطراف ہم نے لوگوں سے رائے لی، اور وہاں موجود لوگ انتخابات کو شفاف قرار دے رہے تھے۔ ووٹ کی گنتی میں ٹہراؤ کی وجہ کروڑوں کی تعداد میں موصول ہونے والے ڈاک ووٹ تھے جن کی تصدیق دیکھ بھال کر کی جارہی ہے۔

واشنگٹن میں سخت سیکیورٹی کا انتظام

مجھے اندازہ ہے کہ پاکستان میں بیٹھے افراد ہی زیادہ تر دھاندلی اور نتائج کی تبدیلی سے متعلق بات کررہے ہیں، ممکن ہے ایسا ہو بھی مگر یہاں پاکستان کے مقابلے میں انتخابی نظام بہت مضبوط ہے۔ یہاں ادارے ہر 4 سال بعد الیکشن کروانے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔

امریکا میں ووٹ کو عزت دو اور دھاندلی کا شور کس طرف بڑھتا ہے یہ تو آنے والا وقت بتائے گا مگر امریکا کے لیے یقینی طور پر یہ تاریخی لمحات ہیں جب اس کا اپنا موجودہ صدر کہہ رہا ہے کہ مجھے دھاندلی سے شکست دی جارہی ہے۔

یاسر فیروز

صحافتی کیرئر کا آغاز سات سال پہلے ڈان نیوز ٹی وی کے انٹرنیشنل ڈیسک سے کیا۔ پھر سما کے ساتھ پانچ سال بطور اسائنمنٹ ایڈیٹر کام کیا، اسپیشل پروجیکٹس ہیڈ کئے اور اب سما ٹی وی کے لیے امریکا میں بطور نمائدہ کام کررہے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔