پاکستان

ججز کو رنگ و نسل سے بالاتر ہو کر قانون کے مطابق فیصلے کرنے چاہیں، چیف جسٹس

جسٹس فیصل عرب نے حالات اور شخصیات سے مرغوب ہوئے بغیر فیصلہ کرنے کی ہمت دکھائی، چیف جسٹس گلزار احمد
|

چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ جج کو رنگ و نسل سے بلا امتیاز ہو کر قانون کے مطابق فیصلے کرنے چاہیں۔

اسلام آباد میں جسٹس فیصل عرب کے اعزاز میں سپریم کورٹ میں فل کورٹ ریفرنس کے انعقاد کے موقع پر خطاب کے دوران چیف جسٹس جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ بینچ اور بار نظام عدل کا لازمی حصہ ہیں اور جسٹس فیصل عرب نے حالات اور شخصیات سے مرغوب ہوئے بغیر فیصلہ کرنے کی ہمت دکھائی۔

مزید پڑھیں: جسٹس عیسیٰ پر الزام نے عدالتی نظام کی ساکھ کو داؤ پر لگا دیا تھا، جسٹس فیصل عرب

چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس فیصل عرب نے اپنے کئیریر میں بہت ہی شاندار اور اہم فیصلے دیے۔

ان کا کہنا تھا کہ بینچ اور بار نظام عدل کا لازمی حصہ ہیں جبکہ مؤثر نظام عدل کے لیے بینچ اور بار میں اچھے تعلقات ضروری ہیں۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ جسٹس فیصل عرب نے بار کو ہمیشہ عزت دی اور بدلے میں انہیں عزت بھی ملی۔

فل کورٹ ریفرنس کے انعقاد کے موقع جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ عدلیہ بطور ادارہ آئین اور قانون کے تحت ہی کام کرتا ہے۔

جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ قانون کے پیشے میں 15 سال بطور وکیل اور 15 سال بطور جج کام کیا جبکہ سپریم کورٹ میں 5 سال تک بطور جج خدمات سر انجام دیں۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس فیصل عرب نے بطور چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ حلف اٹھا لیا

انہوں نے کہا کہ کوئی انفرادی شخص ادارے سے بڑا نہیں ہوتا اور ججز آئین اور قانون کا پابند ہوتا ہے۔

تقریب میں صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن قلب حسن نے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب میں قومی احتساب بیورو (نیب) کے اقدامات کو یک طرفہ اور سیاسی انتقام پر مبنی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ کو احتساب کا عمل شفاف بنانے کے لیے کوئی طریقہ کار وضح کرنا ہوگا۔

علاوہ ازیں اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ جسٹس فیصل عرب کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

انہوں نے 3 نومبر کی ایمرجنسی کی مخالفت کی اور کہا کہ جسٹس فیصل عرب کا بطور جج کیریئر شاندار رہا۔

واضح رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس دائر کرنے پر متفرق درخواستوں کا فیصلہ کرنے والے 10 ججز پر مشتمل بینچ میں جسٹس فیصل عرب بھی شامل تھے۔

مزیدپڑھیں: جسٹس فیصل عرب کی ترقی، مشرف ٹرائل پر سوالیہ نشان

انہوں نے مذکورہ کیس میں اپنے اضافی نوٹ میں یہ آبزرویشن دی تھی کہ لندن کی 3 ظاہر نہ کی ہوئی جائیدادوں سے متعلق سوال کو فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے حوالے کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے یہ معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) پر غور کرنے کے لیے چھوڑ دیا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 209 (5) کے تحت تحقیقات کے لیے ایف بی آر کی رپورٹ پر عمل کرنے کے لیے کافی معلومات موجود ہیں یا نہیں۔

جسٹس فیصل عرب نے لکھا تھا کہ جسٹس عیسیٰ وکلا برادری میں بہت احترام رکھتے ہیں لیکن ان کی مالی ساکھ پر سوالات اٹھے اور اس وجہ سے یہ سب سے زیادہ ضروری ہوگیا تھا کہ وہ اور ان کی اہلیہ، جو ان کے ساتھ گھر کے رکن کی حیثیت سے رہتی ہیں، انہیں اس موقع کو اس داغ کو صاف کرنے کے طور پر استعمال کرنا چاہیے۔

'سیونی' کا انتہائی برا ریمیک بناکر بھارت نے ابھی نندن کا بدلہ لیا؟

راحت فتح علی خان یوٹیوب پر 50 لاکھ سبسکرائبرز والے پہلے پاکستانی گلوکار

قائد اعظم ٹرافی میں بسم اللہ خان کورونا وائرس کا شکار