جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں تو امریکا کے صدارتی انتخاب برائے 2020ء کے لیے پولنگ آخری لمحات میں ہے اور بے چینی سے نتائج کا انتظار کیا جارہا ہے۔
نتائج کیا ہوں گے؟ یہ بلاگ شائع ہونے تک شاید واضح ہوجائیں، لیکن یہ بھی خدشات ہیں کہ نتائج سامنے آنے میں تاخیر ہوسکتی ہے اور یہ تاخیر کئی دنوں کی بھی ہوسکتی ہے۔
اس بار صدارتی انتخابات ماضی میں ہونے والے انتخابات سے بہت مختلف رہے۔ سب سے اہم بات تو یہ رہی کہ یہ انتخابات وبائی مرض کے دوران منعقد ہوئے اور شاید ہی ماضی میں کبھی ایسا ہوا ہو۔ وبائی مرض بھی ایسا جو امریکا میں 2 لاکھ سے زائد زندگیاں نگل چکا ہے۔ اس وبائی مرض کی وجہ سے قبل از وقت ووٹنگ اور پوسٹل بیلٹ میں ریکارڈ اضافہ دیکھا گیا اور 3 نومبر کے الیکشن ڈے سے پہلے ہی 10 کروڑ سے زیادہ امریکی حق رائے دہی استعمال کرچکے تھے۔
اس بار صدارتی انتخابات کا ٹرن آؤٹ بھی ریکارڈ ہے۔ ٹیکساس، ہوائی، مونٹانا، واشنگٹن، فلوریڈا اور اوریگون میں 2016ء کی نسبت زیادہ ووٹ ڈالے گئے۔ اس ریکارڈ ٹرن آؤٹ کی وجہ امریکا میں گہری سیاسی تقسیم ہے جسے انتخابی مہم کے دوران دونوں صدارتی امیدواروں نے خوب ہوا دی۔
اس گہری تقسیم کی وجہ سے الیکشن ڈے پر ہنگاموں یا پولنگ میں تعطل کے خدشات بھی ظاہر کیے جارہے تھے، لیکن یہ سب تقریباً غلط ہی ثابت ہوئے۔ تقریباً کا لفظ اس لیے استعمال کیا گیا کہ چھوٹے موٹے واقعات تو ضرور ہوئے لیکن انہیں زیادہ شدت سے رپورٹ بھی نہیں کیا گیا۔ کئی ریاستوں میں ووٹروں کو فون کالز موصول ہوئیں جن میں انہیں گھر سے نہ نکلنے کا کہا گیا۔ اس طرح کی تمام کوششوں سے متعلق ایف بی آئی اور نیویارک کے اٹارنی جنرل دفتر نے تحقیقات شروع کردی ہیں۔