فاتح چاہے بائیڈن ہو یا ٹرمپ، شکست ڈالر کی ہی ہو گی
سرمایہ کاروں اور تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ امریکی انتخابات میں چاہے ڈونلڈ ٹرمپ جیتیں یا جو بائیڈن لیکن ایک عرصے سے مندی کا شکار ڈالر کی صورتحال بہتر ہونے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔
خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق مارچ میں ڈالر بلندی کی سطح پر پہنچ گیا تھا لیکن اس وقت وہ مذکورہ اشاریے سے 9 پوائنٹس نیچے ہے اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ 2017 میں اپنی بدترین سطح تک دوبارہ پہنچ جائے گا جس کے بعد ماہرین کا ماننا ہے کہ آئندہ آنے والے کئی سالوں تک ڈالر کی سطح نیچے ہی رہے گی۔
مزید پڑھیں: امریکی صدارتی انتخاب 2020: اُمیدوار جو بائیڈن
مارکیٹ میں موجودہ اکثر ماہرین اور سرمایہ کاروں کا ماننا ہے کہ انتخابات کے لیے فیورٹ قرار دیے جا رہے ڈیمو کریٹک امیدوار جو بائیڈن کی فتح سے کرنسی مزید کمزور ہو گی کیونکہ وہ ممکنہ طور پر ایسی پالیسیاں متعار ف کرائیں گے جس سے ڈالر پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
اسی طرح کچھ کا ماننا ہے کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ مزید 4سال برسر اقتدار رہتے ہیں تو وہ ڈالر کے لیے صحیح اور واضح سمت کا تعین نہیں کر سکیں گے، البتہ ان کی چین مخالف حکمت عملی سے ڈالر کی عالمی منڈی میں مضبوطی اور بہتری کا امکان موجود ہے۔
گزشتہ ماہ رائٹرز کے پول کے مطابق ماہرین نے کہا تھا کہ ایک سال میں ڈالر کے مقابلے میں یورو کے 1.21ڈالر اوپر جانے کا امکان ہے جو موجودہ مارکیٹ کی سطح سے 4فیصد زیادہ ہے۔
یہ چند محرکات ہیں جو طویل دورانیے میں ڈالر کی قدروقیمت پر اثرانداز ہوں گے۔
ریٹ کا فرق
گزرے کئی سالوں سے دیگر ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں زیادہ شرح سود کی وجہ سے ڈالر کو مدد ملتی تھی کیونکہ یہ سرمایہ کاروں کے لیے زیادہ سود مند تھا۔
یہ بھی پڑھیں: امریکی صدارتی انتخاب 2020: اُمیدوار ڈونلڈ جے ٹرمپ
البتہ رواں سال فیڈرل ریزرو شیلڈ کی جانب سے کورونا وائرس کے معاشی اثرات سے مقابلے کرنے کے لیے اس شرح سود کو کم کردیا گیا جس سے سرمایہ کاری اور ڈالر دونوں متاثر ہوئےاور سب سے اہم چیز یہ کہ سود کی شرح ایک عرصے تک کم رکھنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔
ایک ماہر نے کہا کہ سب سے زیادہ اثر کورونا کی وجہ سے کم کی گئی شرح سود سے پڑا، یہ ڈالر کے لیے انتہائی منفی ہے اور اس کی اصل قدر سے کہیں دور ہے۔
بونڈز پر منافع
افراط زر میں اضافے کی وجہ سے بونڈز پر منافع منفی ہونے کی وجہ سے ڈالر کی کشش میں کمی واقع ہوئی اور لوگوں نے وہاں سے پیسہ نکال کر اسٹاک سے سونے تک ہر چیز میں سرمایہ کاری شروع کردی۔
ستمبر میں رائٹرز کی جانب سے کیے گئے ایک پول میں میں ماہرین نے کہا تھا کہ توقع ہے کہ 12ماہ کے عرصے میں بونڈ پر منافع کی شرح 0.93فیصد تک پہنچ جائے گی جو افراط زر کی اوسط شرح سے کے مقابلے میں آدھی ہے اور اس بات کا عندیہ دیتی ہے کہ آنے والے سال میں منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
مزید پڑھیں: امریکی انتخابات میں موسمیاتی تبدیلی کا رخ بھی متعین ہوگا، ماحولیاتی ماہرین
ایک اور ماہر نے بی این پی پریباس میں لکھا کہ ہم ایسا کوئی منظر نامہ نہیں دیکھ رہے کہ جس میں ڈالر کی گرتی ہوئی قدر کا رجحان ختم ہو سکے کیونکہ بونڈز پر منافع منفی ہی رہے گا۔
مختصر دباؤ؟
مستقبل کی منڈیوں پر لگا جا رہی شرط ڈالر کی گرتی قیمت پر لگائی جارہی شرط میں گزشتہ ہفتے 26.46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی جبکہ اس کے مقابلے میں اگست میں یہ 9 سال کی بلند ترین شرح کے ساتھ 34.07 ارب ڈالر پر تھی۔
یہ ڈالر کے زیر گردش منفی رجحان کی عکاسی کرتی ہے لیکن اگر موقف کی تبدیلی کے نتیجے میں سرمایہ کار کوئی الٹا قدم اٹھاتے ہیں تو اس سے ڈالر کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔
یہی غیریقینی صورتحال الیکشن جیسے ایونٹ پر بھی منڈلا رہی ہے جس میں کچھ کا ماننا ہے کہ ٹرمپ فاتح رہیں گے اوراس کے نتیجے میں چھوٹے امدادی پیکج کا اعلان کیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا میں الیکشن سے قبل 9 کروڑ 50 لاکھ ووٹ کاسٹ
ٹی ڈی سیکیورٹیز کے ماہرین اس سے مختلف نظریہ رکھتے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ ٹرمپ کی فتح ڈالر کے لیے بہت نقصان دہ ہو گی اور مارکیٹ کا بڑا طبقہ بائیڈن کے حق میں ہے ، مارکیٹ اب جیو پولیٹیکل غیریقینی اور تجارتی جنگوں کی متحمل نہیں ہو سکتی۔
ذخائر کی صورتحال
ٹرمپ اپنے پورے دور اقتدار میں مضبوط ڈالر کے سخت ناقد رہے ہیں کیونکہ ان کے کے خیال میں اس سے کچھ اقوام کو تجارت میں ناجائز حد تک مسابقتی فائدہ ہوتا ہے۔
اس بات کی توقع کی جا رہی ہےکہ بائیڈن کی صدارت میں مالی سال کے دوران اخراجات سے ڈالر کو تقویت ملے گی لیکن ساتھ ساتھ کچھ ماہرین کو خدشہ ہے کہ ڈیموکریٹس کی خارجہ پالیسی کے ڈالر پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔