نقطہ نظر

کیا ہم کورونا کی دوسری لہر سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں؟

صحت عامہ سے متعلق اداروں اور افراد کا خیال ہے کہ سردی میں آنے والی کورونا کی دوسری لہر پہلی کی نسبت زیادہ مہلک ثابت ہوسکتی ہے۔

جیسے جیسے کورونا کی دوسری لہر میں تیزی آتی جارہی ہے ویسے ہی قوم میں لا پرواہی اور غفلت بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ غلط فہمی ہے کہ ہم نے اس وبا کے خلاف کوئی ایسی مہارت حاصل کرلی ہے جس کو عالمی سطح پر بھی سراہا جارہا ہے۔

تاہم اس وبا سے نمٹنے کے لیے ہمارے ردِعمل پر کوئی تحقیق نہیں ہوئی ہے۔ عالمی سطح پر ہماری پذیرائی کی بنیاد وہ مشکوک سرکاری رپورٹس ہیں جن میں ٹیلیفون پر سفارت کاروں کی جانب سے شائستہ کلمات اور بعض اوقات تو صرف عمومی باتیں شامل تھیں۔

مثال کے طور پر بل گیٹس نے آرمی چیف سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے پولیو وائرس کے خلاف ہمارے اقدامات کو سراہا۔ یہ خبر دراصل آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کی جانے والی پریس ریلیز کی بنیاد پر بنی تھی۔ اسی طرح 2015ء میں بل گیٹس نے خیبر پختون خوا میں پولیو کے خلاف عمران خان کے اقدامات کی تعریف کی، حالانکہ ہمارا شمار ان چند ممالک میں ہوتا ہے جہاں سے پولیو اب تک ختم نہیں کیا جاسکا۔ اس خبر کی بنیاد جہانگیر ترین کی طرف سے کی جانے والی ٹویٹ تھی۔

مزید پڑھیے: کورونا وائرس جسم کے اندر کیا تباہی مچاتا ہے؟

پھر کسی اور نے نہیں بلکہ ڈبلیو ایچ او کے سربراہ نے بھی ہمارے اقدامات کو سراہا۔ انہوں نے کئی ممالک کا ذکر کیا جنہوں نے صحت کے شعبے میں سرمایہ کاری میں اضافہ کیا ہے، ان ممالک میں پاکستان کا ذکر بھی شامل تھا، لیکن سرکاری اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ پاکستان کا نظامِ صحت کئی افریقی مالک سے بھی بدتر ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کو اس کے مضبوط انسدادِ پولیو نظام کی وجہ سے کورونا کی وبا پر قابو پانے کا موقع ملا۔ حالانکہ ہمارا انسدادِ پولیو نظام تو اب تک ملک سے پولیو کے خاتمے میں بُری طرح ناکام رہا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے سربراہ نے کامیاب ممالک کی مثال دیتے ہوئے اٹلی کا ذکر کیا جو سب سے زیادہ شرح اموات کے حامل ممالک میں سے ایک ہے۔

اس دوران خود ڈبلیو ایچ او کے اقدامات بھی تنقید کی زد میں رہے۔ ظاہر ہے کہ غیر ملکی مندوبین کی جانب سے دیے گئے بیانات کا موازنہ کسی صورت ماہرین کی آرا سے نہیں کیا جاسکتا، جن کی بنیاد حالات کا گہرا مطالعہ ہوتی ہے۔ اس وجہ سے ڈبلیو ایچ او کے بیانات کو بہت زیادہ اہمیت دینا ایک معصومانہ خیال ہی ہوسکتا ہے کیونکہ اعداد و شمار تو کوئی اور ہی تصویر پیش کرتے نظر آتے ہیں۔

عالمی اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ تقریباً 60 ممالک میں کورونا کی وجہ سے ہونے والی اموات کی شرح پاکستان سے کم ہے۔ ان میں سے اکثر ممالک کا نظامِ صحت بھی خاطر خواہ نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ عالمی سطح پر یا کم از کم اس خطے میں بھی پاکستان کوئی انوکھی مثال نہیں ہے۔ اس خطے میں بھوٹان اور سری لنکا کی شرح اموات صفر سے 0.9 فی 10 لاکھ افراد ہے۔ بھارت میں یہ شرح 90 کی ہے۔ پاکستان، نیپال اور افغانستان میں فی 10 لاکھ افراد اموات کی شرح 32 سے 42 کے درمیان ہے۔

اس خطے میں بھارت کی شرح اموات سب سے زیادہ ہے لیکن پیرو کے مقابلے میں کچھ نہیں ہے جہاں اموات کی یہ شرح فی 10 لاکھ افراد ایک ہزار سے زیادہ کی ہے۔ یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ جنوبی ایشیا کو اس وبا کی نسبتاً کم تباہ کاری کا سامنا تھا۔ ہم یہ بحث ضرور کرسکتے ہیں کہ ہماری اصل کامیابی ایک بڑی تباہی کو روکنے میں ہے۔

مزید پڑھیے: کورونا وائرس کے مریض کتنے وقت تک بیماری کو آگے پھیلا سکتے ہیں؟

جون کے بعد نئے مریضوں کی تعداد میں کافی کمی واقع ہوئی جو اس سے پہلے تیزی سے بڑھ رہی تھی۔ لیکن دنیا کے دیگر ممالک بھی پاکستان کی طرح اس صورتحال کا شکار ہیں جہاں مئی کے بعد کیسز میں کمی واقع ہورہی تھی، لیکن اب وہاں ایک بار پھر پاکستان کی طرح اس تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔

اعداد و شمار کے علاوہ بھی دیگر مسائل ہیں جن پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ کورونا سے تحفظ اور بچاؤ کے نظام میں احتیاطی تدابیر اور مریضوں کی شناخت کا عمل شامل ہوتا ہے۔ احتیاطی تدابیر میں لاک ڈاؤن اور اعلیٰ حکومتی شخصیات کی جانب سے عوام کو سماجی دُوری اور ماسک لگانے کے حوالے سے آگہی دینا شامل ہے۔

ہمارے ملک میں لاک ڈاؤن صحیح معنوں میں تو شاید ایک مہینہ بھی مشکل ہی نافذ رہا۔ اس کے علاوہ لاک ڈاؤن پورے ملک میں ایک طرح سے نافذ بھی نہیں کیا جاسکا۔ مذہبی اجتماعات میں بڑی تعداد میں لوگوں کو شرکت کی اجازت تھی۔ ہمارا عوامی آگہی کا نظام بھی متضاد اطلاعات کا شکار تھا اور خود ہماری قومی قیادت بھی اس وبا کی سنگینی کو کم سمجھ رہی تھی۔ ذرائع ابلاغ کی خبروں کے مطابق پورے ملک میں ماسک لگانے اور سماجی دُوری پر عمل بھی ایک طرح سے نہیں ہوسکا۔

مریضوں کی شناخت کا پہلا مرحلہ ٹیسٹنگ ہوتی ہے۔ پاکستان میں ٹیسٹنگ کی شرح کل آبادی کا 2 فیصد ہی ہے۔ اس شرح کے ساتھ پاکستان سب سے کم ٹیسٹنگ کی شرح والے 25 فیصد ممالک میں شامل ہے۔

دوسرا مرحلہ مریضوں سے رابطے میں رہنے والے افراد کو ڈھونڈنا ہے۔ لیکن ٹیسٹنگ کی کم شرح کی وجہ سے مریضوں کے رابطے میں رہنے والے افراد کو ڈھونڈنا بھی مشکل ہے۔

آخری مرحلہ مریضوں اور ان کے رابطے میں رہنے والے افراد کو عام لوگوں سے علیحدہ کرنا ہے۔ ایسے افراد کی تعداد پر باقاعدہ اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔

غیر رسمی اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ اس ضمن میں کچھ زیادہ کوششیں نہیں کی گئیں۔ احتیاطی تدابیر اور ٹیسٹنگ کے نظام میں موجود کمی سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جون میں مریضوں کی تعداد کم ہونا کیا ہمارے بہتر ردِعمل کی وجہ سے تھی یا یہ ایک قدرتی عمل تھا جو دوسرے ممالک میں بھی دیکھا گیا۔ اس سوال کے جواب کے لیے درکار معلومات اور اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔

صحت عامہ سے متعلق اداروں اور افراد کا خیال ہے کہ سردی میں آنے والی کورونا کی دوسری لہر پہلی کی نسبت زیادہ مہلک ثابت ہوسکتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے گزشتہ اقدامات کی پذیرائی میں کھوئے رہنے کے بجائے آنے والے حالات کے لیے جامع منصوبہ کریں۔ مریضوں کی شناخت اور احتیاطی تدابیر کے نظام میں موجود خلا کو پُر کرنا اس منصوبے کے لیے ایک راہِ عمل کا کام کرسکتا ہے۔ اس کے علاوہ قومی قیادت کی جانب سے بھی اس وبا کی سنگینی اور خطرات کے حوالے کو ایک واضح پیغام دیا جانا چاہیے۔

مزید پڑھیے: کیا سرد موسم میں کورونا وائرس واقعی خطرناک ثابت ہوگا؟

سماجی دُوری پر عمل کرنے اور ماسک لگانے کے پیغامات تو ضرور آنا شروع ہوگئے ہیں لیکن ان پیغامات کو غیر رسمی اور تخلیقی ذرائع کی مدد سے بھی پھیلانا چاہیے۔

حکومت اور حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کو اس ضمن میں ایک رول ماڈل بن کر آگے آنا چاہیے۔ ضرورت کے تحت لاک ڈاؤن کا ایک متوازن منصوبہ بھی تشکیل دیا جانا چاہیے۔ اس کے ساتھ مریضوں کی شناخت اور ان کے رابطے میں رہنے والے افراد کو علیحدہ رکھنے کے عمل میں بھی تیزی لانی چاہیے اور اس ضمن میں متعلقہ اعداد و شمار کو دستیاب بھی بنانا چاہیے۔ پچھلی مرتبہ تو قسمت ہم پر مہربان رہی تھی لیکن شاید اس مرتبہ صرف قسمت پر انحصار کرنا درست نہ ہو۔


یہ مضمون 3 نومبر 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ڈاکٹر نیاز مرتضیٰ

لکھاری ایک سیاسی و معاشی تجزیہ کار اور یو سی بارکلے کے سنیئر فیلو ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔