ویانا میں مسلح افراد کی 6 مقامات پر فائرنگ، خاتون سمیت 4 افراد ہلاک
یورپی ملک آسٹریا کے دارالحکومت ویانا کے وسطی علاقے میں مسلح افراد نے 6 مختلف مقامات پر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں ایک خاتون سمیت 4 افراد ہلاک اور 17 زخمی ہوگئے۔
برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق 2 میں سے ایک مسلح حملہ آور کو پولیس نے گولی مار کر ہلاک کردیا جبکہ ایک فرار ہوگیا جس کی تلاش جاری ہے۔
آسٹرین وزیر داخلہ نے الزام عائد کیا کہ ایک حملہ آور داعش کا حامی تھا، حملہ کرنے کا مقصد آسٹریا کے جمہوری معاشرے کو کمزور اور تقسیم کرنا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: پھر سے ویانا جانے کو دل چاہتا ہے
فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق آسٹریا کے چانسلر سباستیان کرس نے اس حملے کو ’نفرت انگیز دہشت گردی‘ قرار دیا۔
حملہ آور آسٹریا میں ہی پیدا ہوا تھا
دوسری جانب ایک اخبار کے مدیر نے بتایا کہ مارے جانے والے حملہ آور کی عمر 20 سال تھی جو ویانا میں ہی پیدا ہوا اور یہیں پلا بڑھا۔
ان کے مطابق حملہ آور کو مقامی خفیہ ادارے جانتے تھے کیوں کہ وہ ان 90 آسٹرین مسلمانوں میں شامل تھا جو شام کا سفر کرنا چاہتے تھے۔
مدیر نے مزید بتایا کہ حملہ آور کے آبا اجداد البانین تھے تاہم اس کے والدین کا تعلق شمالی مقدونیہ سے تھا، اپنی معلومات کے ذرائع نہ بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پولیس کا خیال تھا وہ ویانا میں کسی حملے کی منصوبہ بندی کے قابل نہیں تھا۔
حملے کے بعد کی صورتحال
پولیس کے مطابق ’متعدد مسلح ملزمان نے رائفلز سے‘ 6 مقامات پر حملے کیے جن میں یہودی عبادت گاہ کے قریب اور ٹاؤن کا وسطی حصہ بھی شامل ہے۔
قبل ازییں پولیس نے بتایا تھا کہ فائرنگ کے نتیجے میں ایک راہ گیر ہلاک ہوا جبکہ دوسرا فرد زخموں کی تاب نہ لا کر چل بسا، ان کے علاوہ 15 افراد کو ہسپتال منتقل کیا گیا تھا جن میں سے 7 شدید زخمی ہیں اور ایک پولیس اہکار بھی حملے میں زخمی ہوا۔
مزید پڑھیں: آسٹریا میں کورونا کیسز کی شرح 5 ہزار سے تجاوز کرگئی
حملہ ایسے وقت ہوا کہ جب چند گھنٹوں بعد ہی آسٹریا میں کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے دوبارہ لاک ڈاؤن لگنے والا تھا اور لوگ ریسورنٹس اور دیگر تفریحی مقامات پر آزادی کے چند آخری لمحوں سے لطف اٹھا رہے تھے۔
حملہ رات 8 بجے شروع ہوا جب شہر کے وسط میں موجود پہلے ضلع میں فائر کی آواز سنی گئی۔
آسٹرین چانسلر نے کہا کہ حملہ آور ’جدید ترین خودکار ہتھیاروں سے مسلح تھے اور پیشہ ور تیاریوں کے ساتھ تھے‘۔
حملے کے بعد پولیس نے ویانا کے تاریخی مراکز سیل کردیے اور عوام کو اندر رہنے پر زور دیا گیا ہے جن میں سے متعدد لوگوں سے شراب خانوں اور ہوٹلوں میں پناہ لی جبکہ شہر کے پرانے حصے میں پبلک ٹرانسپورٹ بھی معطل کردی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: آسٹریا: متنازع ویڈیو سامنے آنے کے بعد نائب چانسلر مستعفی
حملہ آور کی تلاش میں سرحدی مقامات پر نگرانی کڑی کردی گئی ہے اور وزیر داخلہ نے بچوں کی اسکول سے چھٹی کا اعلان کیا ہے، حالانکہ عوام کو گھروں میں رہنے کی ہدایت کی گئی ہے شہر کے میئر نے بتایا کہ منگل کے روز شہر کے معمولات معمول کے مطابق جاری رہیں گے۔
تعزیتی پیغامات
ویانا حملے پر یورپی یونین کے رہنماؤں، جن میں فرانس، ناروے اور یونان شامل ہیں، کے علاوہ پاکستان اور امریکا کی جانب سے تعزیت پیغامات بھیجے گئے۔
ترجمان دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں ویانا میں ’دہشت گردی کے گھناؤنے حملے‘ کی مذمت کی گئی جس کے نتیجے میں قیمتی جانوں کا نقصان ہوا۔
ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہماری دلی ہمدردیاں متاثرہ خاندانوں کے ساتھ ہیں اور زخمیوں کی جلد صحتیابی کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار بھی کیا گیا۔
بیان میں کہا گیا کہ پاکستان ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کا اعادہ کرتا ہے۔
فرانس کے صدر ایمانوئیل میکرون نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ ’ہم فرانسیسی، آسٹرین عوام کے صدمے اور دکھ کے برابر کے حصے دار ہیں‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’فرانس کے بعد یہ ایک دوستانہ ملک ہے جس پر حملہ ہوا'۔
دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ یورپ میں ایک اور دہشت گردی کے فعل کے بعد ہماری دعائیں ویانا کے عوام کے ساتھ ہیں، بے گناہ عوام کے خلاف ان شیطانی حملوں کو روکنا چاہیے۔
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ’امریکا دہشت گردی بشمول بنیاد پرست دہشت گردوں کے خلاف لڑائی میں فرانس، آسٹریا اور پورے یورپ کے ساتھ کھڑا ہے'۔
دوسری جانب جرمن وزارت خارجہ کی جانب سے ٹوئٹ میں کہا گیا کہ آسٹریا سے آنے والی اطلاعات خوفناک اور پریشان کن ہیں اور ہم ایسی نفرتوں کو نہیں چھوڑ سکتے جس کا مقصد معاشروں کو تقسیم کرنا ہے۔
علاوہ ازیں یورپی یونین کے سربراہ نے اپنے ٹوئٹر پیٖغام میں ’اس بزدلانہ حملے کی سختی سے مذمت کی'۔