موجودہ سیاسی صورتحال میں مذاکرات ناگزیر کیوں؟
پاکستان اس وقت تیزی سے بدلتی سیاسی صورتحال سے دوچار ہے، جس کے سبب ملک میں عدم استحکام کے بڑھنے کا خدشہ ہے، اور اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کے بہت خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں۔
اس سیاسی صورتحال کے کم از کم 5 پہلو ایسے ہیں جو ایک ایسے وقت میں مستقبل کے حوالے سے غیر یقینی پیدا کررہے ہیں جب ملک کو اندرونی اور بیرونی چلینجز کا سامنا ہے۔ ان تمام پہلوؤں کے مابین تعلق نے صورتحال کو مزید مخدوش بنا دیا ہے۔
پہلا پہلو
پہلا پہلو تو یہ ہے کہ حکومت اور حزبِ اختلاف میں جاری کشیدگی اور لفظی جنگ کے ختم ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔ ایک دوسرے پر لگائے جانے والے الزامات سیاسی ماحول کو مزید آلودہ کررہے ہیں۔ پریس کانفرنسوں میں اپنے سیاسی مخالفین پر گھناؤنے الزامات لگائے جا رہے ہیں اور پارلیمانی کارروائی کے دوران ایک دوسرے کو غدار کہنے اور جارحانہ حرکات کا ارتکاب کیا جارہا ہے۔
مزید پڑھیے: کیا اپوزیشن واقعی سویلین بالادستی چاہتی ہے؟
دوسرا پہلو
دوسرا پہلو یہ ہے کہ حکومتی طرزِ عمل نے حزبِ اختلاف کے اتحاد کو مزید مستحکم کردیا ہے۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میں شامل 11 جماعتیں وسیع عوامی نمائندگی کے ساتھ حکومت کے خلاف صف آرا ہیں، یعنی اب صورتحال عمران خان بمقابلہ دیگر تمام کی ہوگئی ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کا سیاسی چیلنج اس لیے کمزور ہورہا ہے کیونکہ حزبِ اختلاف سے تنازع میں اس کے اتحادی خاموش ہیں اور وہ خاطر خواہ حمایت نہیں کررہے۔
تیسرا پہلو
حالات کا تیسرا اور نسبتاً دوسرے پہلو سے قریب ترین پہلو یہ ہے کہ ملکی سیاست دو انتہاؤں میں تقسیم ہوگئی ہے اور اس میں سے اعتدال کا عنصر ختم ہوگیا ہے۔ سیاسی مخالفین کے درمیان اعتماد کا فقدان اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ قومی ضرورت اور مشترکہ مفاد کے حامل معاملات پر بھی آپس میں بہت کم ہی تعاون کیا جاتا ہے۔
چوتھی بات
چوتھی بات یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی اس تمام معاملے سے دُور رہنے کی خواہش کے باوجود اسے اس سیاسی کھیل میں گھسیٹا جا رہا ہے۔ حزبِ اختلاف کی حکمتِ عملی یہ ہے کہ وہ سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی دخل اندازی کو بڑھا چڑھا کر بیان کرے۔ دوسری طرف حکومت بھی خود کو فوج کی حمایت حاصل ہونے کے دعوے کر کے غیر ارادی طور پر حزبِ اختلاف کا ہی کام کر رہی ہے۔ حکومت کے اس عمل سے اسٹیبلشمنٹ سیاسی رسہ کشی اور میڈیا میں ہونے والے مباحث کا مرکز بن گئی ہے۔
پانچواں پہلو
موجودہ سیاسی صورتحال کا پانچواں اور سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ ملک میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اور سیاسی درجہ حرارت کی وجہ سے ملک کو درپیش معاشی چیلنجز سے توجہ ہٹ رہی ہے۔ سیاسی عدم استحکام معاشی ترقی کا سب سے بڑا دشمن ہوتا ہے اور خاص طور پر ایسے وقت میں جب ملک پہلے ہی کورونا کی وجہ سے معاشی دباؤ کا شکار ہے۔ جب مہنگائی نے عوام کا جینا مشکل کردیا ہے، ایسی صورتحال میں حکومت کی توجہ عوام کو درپیش مسائل کے حل کے بجائے سیاسی رسہ کشی پر ہو تو حکومت پر سے عوام کا اعتماد اٹھ جاتا ہے۔
مزید پڑھیے: ’میں نے کوئٹہ جلسے میں کیا کچھ دیکھا؟‘
ان پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد ہمارے سامنے ایک ایسی صورتحال سامنے آتی ہے جو مستقبل میں سب کے قابو سے باہر نکل سکتی ہے، اور جو کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہوگی۔
مذکورہ پہلوؤں نے پہلے ہی حالات کو سب کے لیے ناقابلِ برادشت بنا دیا ہے۔ آخر ایک ایسی حکومت کس طرح حزبِ اختلاف سے کسی قسم کی مفاہمت کو خارج از امکان قرار دے سکتی ہے جس کے پاس نہ ہی پارلیمان میں واضح اکثریت ہو اور نہ ہی اس کے پاس ایک اہم صوبے کا کنٹرول ہو؟ آخر حزبِ اختلاف اپنی تحریک کو کتنا عرصہ جاری رکھ سکتی ہے؟ کتنے عرصے تک حکومت اور اپوزیشن عوامی حمایت کھوئے بغیر عوامی مسائل کو نظر انداز کرسکتے ہیں؟ اور آخر کب تک اسٹیبلشمنٹ خود کو اس سیاسی کھیل سے دُور رکھنے کا بہانہ کرسکتی ہے جس میں اسے باربار گھسیٹا جا رہا ہے۔
ان سوالات سے 3 ممکنہ منظرنامے تشکیل پارہے ہیں۔
پہلا منظرنامہ
پہلا تو یہ کہ حالات میں کوئی تبدیلی واقع نہ ہو۔ سیاسی کشیدگی، تصادم، پارلیمان کی کارروائی میں رکاوٹوں اور الفاظ کی جنگ ایسے ہی جاری رہے۔ ایسے میں اگر پی ڈی ایم نے واقعی اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کی دھمکی پر عمل کرلیا تو ملک سیاسی بحران اور عدم استحکام کا شکار ہوجائے گا۔
اس منظرنامے میں دیکھا جائے تو سیاسی جماعتوں کی توجہ معاشی اور سیکیورٹی صورتحال سے ہٹ جائے گی۔ یہ دونوں معاملات ہی اپنے حل کے لیے قومی اتحاد کے متقاضی ہیں اور ملک میں بڑھتی ہوئی سیاسی دُوریاں اس راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ اس منظر کے آخر میں ملک ایک بحران سے نکل کر دوسرے بحران کا شکار ہوتا ہوا نظر آتا ہے، اور اس دوران ملک کو درپیش مسائل حل ہوتے ہوئے نظر نہیں آتے۔
دوسرا منظرنامہ
دوسرے منظرنامے میں حکومت اپوزیشن پر قابو پانے کے لیے پابندیوں کا سہارا لیتی نظر آتی ہے اور اس ضمن میں میڈیا پر بھی مزید غیر اعلانیہ پابندیاں عائد ہوسکتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی تنازعات میں گھرے ہوئے احتساب کے عمل میں تیزی آسکتی ہے۔ لیکن اس قسم کے جابرانہ اقدامات کا ہونا مشکل نظر آتا ہے کیونکہ ایک جمہوری حکومت کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ ویسے بھی اگر ہم پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس قسم کی پابندیوں سے ملک مزید سیاسی انتشار کا شکار ہوا ہے۔
مزید پڑھیے: حکومت مخالف اپوزیشن کی تحریک میں اصل ’رسک‘ کیا ہے؟
تیسرا منظرنامہ
تیسرا منظر نامہ یہ تشکیل پاتا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں سیاسی نظام کو لاحق خطرات کے پیش نظر اپنے مابین جاری کشیدگی کو کم کریں اور مذاکرات کی میز پر اپنے اختلافات کو حل کرلیں۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر اسٹیبلشمنٹ بھی اپنا کردار ادا کرے۔ سیاستدانوں کے مابین جاری چپقلش کو دیکھتے ہوئے شاید یہ سمجھنا خوش گمانی ہی ہوگی کہ وہ کسی قومی معاہدے پر تیار ہوں گے۔ بہرحال مستقبل کے لیے اصول اور ضابطوں کا تعین ہوسکتا ہے اور ہونا بھی چاہیے۔ ساتھ ہی ملک کو درپیش دفاعی اور معاشی چیلنجز کے حل کے لیے بھی اتفاق رائے ہونا چاہیے اور اسے تمام اداروں کی حمایت بھی حاصل ہونی چاہیے۔
پہلے اور دوسرے منظرنامے میں ملک کی سالمیت اور اتحاد کو درپیش خطرات کی وجہ سے حکومت اور حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کو چاہیے کہ وہ بامقصد مذاکرات پر سنجیدگی سے غور کریں۔ ظاہر ہے کہ یہ قدم حکومت کی طرف سے اٹھایا جانا چاہیے کیونکہ حزبِ اختلاف کے اکثر رہنما پہلے ہی مثبت رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ان مذاکرات میں ایک باعمل سیاسی نظام اور مستقبل کے چیلنجز کو دیکھتے ہوئے ایک مؤثر قومی لائحہ عمل بھی ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ یہ وہ کم از کم امید ہے جو پاکستان کے عوام اپنے سیاستدانوں سے رکھتے ہیں۔
یہ مضمون 2 نومبر 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
لکھاری پاکستان کی سابق سفیر برائے امریکا، برطانیہ اور اقوام متحدہ ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔