دنیا

امریکی صدارتی انتخاب 2020: اُمیدوار جو بائیڈن

دہائیوں کا سیاسی تجربہ رکھنے والے جوبائیڈن امریکی صدر کیلئے ڈیموکریٹک اُمیدوار ہیں اور وہ تیسری مرتبہ اس عہدے کیلئے میدان میں ہیں۔

کئی دہائیوں کا سیاسی تجربہ رکھنے والے جوبائیڈن امریکی صدر کے لیے ڈیموکریٹک کے اُمیدوار ہیں اور وہ تیسری مرتبہ اس عہدے کے لیے میدان میں موجود ہیں۔

ریاست پینسلوینیا کے شہر سکرینٹن میں پیدا ہونے والے 77 سالہ جوبائیڈن نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز 1972 میں اس وقت کیا جب وہ ریاست ڈیلاور سے امریکی سینیٹ کے لیے پہلی مرتبہ منتخب ہوئے۔

امریکی صدارتی اُمیدوار کو خارجہ پالیسی میں کافی تجربہ حاصل ہے جبکہ وہ اپنے کیریئر میں 2 مرتبہ سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کی صدارت بھی کرچکے ہیں۔

اس کے علاوہ وہ عدلیہ پر قائم کمیٹی کے چیئرپرسن کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔

جوبائیڈن کا یہ طویل اور نمایاں کیریئر یقینی طور پر داغ سے پاک نہیں ہے، انہیں 1994 کے وائلنٹ کرائم کنٹرول اینڈ لا انفورسمنٹ ایکٹ کی سرپرستی کرنے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا جبکہ ناقدین کہتے ہیں کہ یہ افریقی نژاد امریکیوں کو بڑے پیمانے پر قید میں رکھنے کا باعث بنا۔

سابق نائب صدر کو اپنے کیریئر میں ذاتی نقصان اور سانحہ سے بھی گزرنا پڑا، 1972 میں سینیٹ میں اپنی پہلی نشست جیتنے کے فوری بعد انہوں نے ایک کار حادثے میں اپنی اہلیہ اور بیٹی کو کھودیا، تاہم ان کے بیٹے بیو اور ہنٹر حادثے میں بچ گئے اور جو بائیڈن نے ہسپتال میں ہی اپنے بیٹوں کے ہمراہ حلف اٹھایا۔

سال 2015 میں جب جو بائیڈن نائب صدر تھے تو ان کے بیٹے بیو دماغ کے کینسر کی وجہ سے انتقال کرگئے، ان کی عمر 46 سال تھی اور انہوں نے سیاست میں اپنے سفر کا آغاز ہی کیا تھا۔

جو بائیڈن نے 1988 میں پہلی مرتبہ صدر کے لیے انتخاب کی دوڑ میں حصہ لیا لیکن وہ اس وقت اس سے پیچھے ہٹ گئے جب یہ انشکاف ہوا کہ انہوں نے اس وقت کی برطانوی لیبر پارٹی کے رہنما نیل کن ناک کی تقریر چوری کی تھی۔

2008 میں انہوں نے پھر اپنی قسمت آزمانے کی کوشش کی لیکن اس مرتبہ بھی ناکام رہے کیونکہ ڈیموکریٹک پارٹی نے باراک اوباما کو نامزد کردیا تھا تاہم بعد ازاں جو بائیڈن کو نائب صدر کے عہدے کے لیے نامزد کیا گیا اور انہوں نے اگلے 8 سال کے لیے اوباما کے ساتھ خدمات انجام دیں۔

جو بائیڈن، ڈونلڈ ٹرمپ کے ’پہلے امریکا‘ کے نعرے کا ’تنہا امریکا‘ کے طور پر مذاق اڑاتے ہیں، ان کا مقصد عالمی لیڈر کی حیثیت سے ملک کی پوزیشن بحال کرنا ہے۔

یہاں اہم جو بائیڈن کے مختلف اہم معاملات پر تجاویز کردہ پالیسیز کو دیکھیں گے جس سے نہ صرف امریکا بلکہ پوری دنیا کا تعلق ہے۔

امیگریشن

جو بائیڈن امیگریشن پر ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے اپنائی گئی پالیسیوں پر کھلے عام تنقید کرتے آرہے ہیں اور انہوں نے کئی پالیسیوں کو تبدیل کرنے پر زور دینے کا عزم کیا ہے کیونکہ ان کے بقول یہ ’ظالمانہ اور بے مطلب‘ ہیں اور یہ امریکی سرحد پر کئی خاندانوں کی علیحدگی کا سبب بنی ہیں۔

جوبائیڈن کی الیکشن ویب سائٹ پر امیگریشن کے حوالے سے شائع پالیسی پیپر میں کہا گیا ہے کہ ہم بحیثیت قوم کیا ہیں، ہماری بنیادی اقدار اور ہمارے مستقبل کے لیے ہماری امنگوں کے لیے امیگریشن ضروری ہے۔

امریکی صدارتی اُمیدوار کی جانب سے کچھ شعبوں جس میں کام کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے، ان میں مندرجہ ذیل شامل ہیں۔

پاک-امریکا تعلقات

اگرچہ جوبائیڈن نے یہ نہیں بتایا کہ جنوبی ایشیا کے لیے کیا پالیسی اپنائی جائے گی تاہم پاکستان پر ان کا ماضی کا مؤقف ملک کے ساتھ ساتھ خطے کی طرف ان کے نقطہ نظر کا کچھ اشارہ دے سکتا ہے۔

ان کے ماضی کے مؤقف کے برعکس اگر وہ صدر منتخب ہوتے ہیں تو جنوبی ایشیا میں بدلتی صورتحال جوبائیڈن کی خارجہ پالیسی پر بھی اثرانداز ہوگی۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے برعکس جوبائیڈن نے کہا ہے کہ وہ جب افغانستان میں فوجیوں کی تعداد کو کم کردیں گے تو وہ وہاں امریکی فوج کی موجودگی سے دستبردار نہیں ہوں گے۔

گزشتہ شال ڈیموکریٹک صدارتی اُمیدواروں کے درمیان مباحثے میں جوبائیڈن نے کہا تھا کہ ہم اڈوں کی فراہمی کے ذریعے امریکا کو افغانستان سے ہونے والی دہشتگردی کا نشانہ بننے سے روک سکتے ہیں، ساتھ ہی پاکستانیوں پر زور دیا تھا کہ وہ ہمیں اڈے فراہم کریں تاکہ ہم وہاں سے اڑیں اور ان کے خلاف کارروائی کریں جنہیں ہم جانتے ہیں۔

تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ امریکا خطے میں چین کے اثرورسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے بھارت کے قریب ہوسکتا ہے، جو واشنگٹن کے اسلام آباد کے ساتھ تعلقات پر اثر انداز ہو گا۔

بھارت جو رواں سال کے آغاز سے لداخ میں متنازع سرحد پر چین کے ساتھ جاری تنازع میں شامل ہونے سے قبل تک ایک غیرجانبدرانہ مؤقف رکھتا تھا وہ ممکنہ طور پر امریکا کے ساتھ قریبی تعلقات کا خیرمقدم کرے گا۔

اسی اثنا میں جوبائیڈن کی جانب سے 5 اگست 2019 کے بعد سے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے اقدامات، امتیازی شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) اور مسلم آبادی کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر کھلی مذمت ممکنہ طور پر بھارت کو اتنا ہی غصہ دلائے گی جتنا وہ پاکستان کو خوش کرے گی۔

اپنی الیکشن ویب سائٹ پر مسلم-امریکن کمیونٹیز کے لیے اپنے ایجنڈے پر شائع ایک پالیسی پیپر میں کہا گیا کہ جوبائیڈن نئی دہلی کی جانب سے شہریوں کی قومی رجسٹریشن اور سی اے اے کی منظوری کے اقدام پر ’مایوس‘ تھے۔

مقبوضہ کشمیر سے متعلق جوبائیڈن کے پالیسی پیپر میں کہا گیا کہ ’بھارتی حکومت کو کشمیر کے تمام لوگوں کے حقوق بحال کرنے کے تمام ضروری اقدامات اٹھانے چاہئیں، اختلاف رائے پر پابندیاں جیسے پرامن مظاہروں کو روکنا یا انٹرنیٹ کو بند یا سست کرنا جمہوریت کو کمزور کرتا ہے‘۔

اگست میں جوبائیڈن کی مہم کے مشیر خارجہ پالیسی انتونی بلنکن کا کہنا تھا کہ ڈیموکریٹک اُمیدوار مسئلہ کشمیر کو بھارت کے ساتھ اٹھائے گا۔

اسلاموفوبیا

سابق امریکی نائب صدر نے اسلاموفوبیا کی مذمت کی جس کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ اکثر امریکی مسلمانوں کی شراکت کو اوجھل کردیا جاتا ہے، ساتھ ہی انہوں نے مسلم برادری کے ساتھ ’مل کر کام‘ کرنے اور اس کے ’جائز خدشات‘ دور کرنے کا وعدہ کیا۔

امریکی مسلمان برادری کے لیے اپنے ایجنڈے میں جو بائیڈن نے تسلیم کیا کہ امریکا میں مسلمانوں کو مشکلات کا سامنا ہے اور انہوں نے ان حصوں کی نشاندہی کی جس میں وہ کام کریں گے، ان میں شامل ہیں۔

یہاں یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ اوباما انتظامیہ، جس میں جوبائیڈن نے بھی 8 سال خدمات انجام دی اس میں مسلمان مخالف جذبات سے لڑنے کے لیے ان کی کوششیں بہت تھوڑی نظر آئی تھیں۔

اپنی حکومت کے 8 برسوں میں اوباما کی حکومت نے تمام مسلم اکثریتی ممالک عراق، شام، لیبیا، افغانستان، پاکستان، یمن اور صومالیہ میں بموں کی بارش کی تھی جبکہ صرف 2016 میں امریکا نے کم از کم 26 ہزار 171 بم برسائے تھے۔

بش حکومت، جس نے نام نہاد ’وار آن ٹیرر‘ (دہشتگردی کے خلاف جنگ) شروع کی تھی ان کے مقابلے میں اوباما انتظامیہ کی جانب سے ڈرون حملے زیادہ تواتر سے کیے گئے تھے، یہی نہیں بلکہ افغانستان اور عراق میں جنگ کے خاتمے میں ناکامی کے باوجود اوباما حکومت نے شام، لیبیا اور یمن میں فوجی مداخلت کی قیادت کی اور یہ سب مشرق وسطیٰ کو غیرمستحکم کرنے کا باعث ہوا اور مبینہ طور پر عسکریت پسند داعش گروپ کو ابھارنے کی وجہ بنا۔

تاہم کچھ رپورٹس کے مطابق جوبائیڈن نے اس وقت صدر باراک اوباما سے اعتراض کیا تھا کہ وہ لیبیا میں مداخلت یا کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر شام کو کارروائی کی دھمکی نہ دیں۔

افغان جنگ

جو بائیڈن افغانستان سے مکمل فوجی انخلا کے ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے سے اتفاق نہیں کرتے، اپنی مہم کے دوران ایک سے زائد مرتبہ سابق نائب صدر یہ کہہ چکے ہیں کہ امریکا کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ القاعدہ اور داعش جیسے دہشت گرد گروپ افغانستان کی تعمیر کے بجائے وہاں دوبارہ قدم نہ جما لیں۔

انہوں نے مندرجہ ذیل وعدے کیے ہیں

فلسطین-اسرائیل

اسرائیل اور فلسطین کے معاملے میں جوبائیڈن کی پالیسی میں دونوں فریقین کو کچھ پیشکش کی گئی ہے جہاں فلسطین کو امداد اور اسرائیلی کو توسیعی دفاع کی پیشکش کی گئی۔

اسرائیل اور یہودی برادری کے حوالے سے پالیسی پیپر میں جوبائیڈن نے عزم ظاہر کیا تھا کہ

امریکا کی مسلمان برادری کے حوالے سے اپنے علیحدہ پالیسی پیپر میں جو بائیڈن نے کہا تھا کہ وہ اسرائیلی بستیوں کی توسیع کی مخالفت کرتے رہیں گے اور وہ مغربی کنارے سے اسرائیل کے انضمام کے خلاف بات کر چکے ہیں۔

انہوں نے ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے 2019 میں مشرقی یروشلم میں بند کیے گئے امریکی قونصلیٹ کو بھی دوبارہ کھولنے کا وعدہ کیا البتہ یہ واضح نہیں کیا کہ وہ یروشلم میں امریکی سفارتخانہ کھولنے کے ٹرمپ کے فیصلے کو واپس لیں گے یا نہیں۔

ماحولیاتی تبدیلی

ڈونلڈ ٹرمپ کے برعکس جوبائیڈن ماحولیاتی تبدیلی کو امریکا کے ساتھ ساتھ دنیا کے لیے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں اور انہوں نے خیالی دنیا کے بجائے سائنس کی مکمل حمایت کا عزم ظاہر کیا، ان کی انتظامیہ ماحولیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لیے عالمی سطح پر جو اقدامات کرے گی اس کے بارے میں بتاتے ہوئے انہوں نے خصوصی طور پر دو ملکوں چین اور روس کا نام لیا جنہیں ان کی حکومت ماحول کو نقصان پہنچانے سے روکے گی۔

ان کی ویب سائٹ پر ماحولیات کے حوالے سے منصوبے کے مطابق جوبائیڈن جو کام کریں گے ان میں:

تجارت اور ٹیرف

ٹرمپ کی طرح جوبائیڈن نے مقامی صنعت اور مینوفیکچرنگ کو فروغ دینے کا وعدہ کیا ہے، گو کہ انہوں نے موجودہ صدر کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا لیکن ان کی اپنی پالیسیاں بھی اس سے کچھ مختلف نہیں، بین الاقوامی تجارت کی اپنی پالیسی میں جوبائیڈن نے درج ذیل اقدامات اٹھانے کا وعدہ کیا۔

سابق نائب صدر نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ آیا وہ موجودہ انتظامیہ کی جانب سے چین پر عائد ٹیرف ختم کریں گے یا نہیں، ماہرین کو توقع ہے کہ کم از کم چند ٹیرف تو جوبائیڈن انتظامیہ کے دور میں بھی برقرار رہیں گے۔

چین اور روس

موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے برعکس جوبائیڈن کا روس کے خلاف مؤقف ممکنہ طور پر جارحانہ ہو سکتا ہے جبکہ چین کے بارے میں ماہرین کا ماننا ہے کہ جوبائیڈن کا مؤقف بھی ٹرمپ جیسا ہی ہو گا۔

گوکہ انہوں نے امریکا کے روایتی حریفوں، چین اور روس کے حوالے سے تعلقات پر باقاعدہ خصوصی طور پر کسی پالیسی کا اعلان نہیں کیا البتہ ان دونوں ممالک کا جوبائیڈن کی الیکشن ویب سائٹ پر شائع پالیسی پیپرز میں ذکر کیا گیا ہے جس میں تجارت اور ماحولیاتی تبدیلی کے معاملات پر خصوصی تذکرہ بھی شامل ہے۔

اگر جوبائیڈن صدر منتخب ہوتے ہیں تو وہ

کووڈ-19 پر ردعمل

جو بائیڈن کورونا وائرس پر ڈونلڈ ٹرمپ کے ردعل کو شدید تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں جس کے نتیجے میں اب تک کم از کم 91 لاکھ سے زائد امریکی وائرس کا شکار اور 2 لاکھ 30 ہزار سے زائد وائرس سے ہلاک ہوئے ہیں، امریکا اس وقت دنیا بھر میں وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے جس میں سب سے زیادہ کیسز اور اموات رپورٹ ہوئی ہیں۔

صحت کے اس بحران سے نمٹنے کے لیے ان کی الیکشن ویب سائٹ پر موجود تفصیلی منصوبے میں جو بائیڈن نے وعدہ کیا ہے کہ